وی پی مینن کی کہانی بہت مسحور کن ہے کہ کیسے ایک عام سا لڑکا وائسرائے ہند کا معتمد خاص بن گیا۔ یہ لڑکا جس عام سے خاندان میں پیدا ہوا‘ وہاں بارہ بہن بھائی تھے۔ جب وہ تیرہ برس کا ہوا تو اسے اپنا سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ گھر کے حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔ اب اسے تیرہ سال کی عمر میں ہی کمانے پر لگ جانا تھا۔ وہ سکول چھوڑ کر کنسٹرکشن مزدور لگ گیا۔ وہاں کام نہ بنا تو کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے لگا۔ پھر ایک فیکٹری میں نوکری تلاش کر لی۔ پھر ریلوے سٹیشن پر مزدوری کرنے لگا۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو اس نے کاٹن بروکر بننے کا فیصلہ کیا۔ وہاں ناکام ہوا تو وہ سکول میں استاد لگ گیا۔ ان دنوں ٹائپ رائٹرز ٹیکنالوجی عام ہو رہی تھی‘ تو اس نے سوچا کیوں نہ وہ ٹائپ سیکھ لے کہ چند پیسے اس سے کما لے گا؛ تاہم وہ دس انگلیوں کی بجائے صرف دو انگلیوں سے ہی ٹائپ کرنا سیکھ سکا ۔ اور تو اور اس نے برسوں بعد شملہ میں وائسرائے کی سٹڈی میں بیٹھ کر ہندوستان کی تقسیم کا جو پلان ٹائپ کیا‘ وہ بھی دو انگلیوں سے کیا تھا۔ اسے انڈین انتظامیہ شملہ میں کلرک کی نوکری ملنے کی وجہ بھی یہ دو انگلیاں ہی تھیں‘ جن کی مدد سے وہ ٹائپ کرتا تھا۔
جب 1929ء میں اسے شملہ میں نوکری کا پروانہ ملا تھا تو وہ شملہ جانے کے لیے دہلی پہنچا۔ وہاں اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے پاس کرائے اور دیگر اخراجات کے جو پیسے تھے وہ راستے میں کسی نے چرا لیے ہیں۔ وہ اب خالی جیب کھڑا تھا۔ نہ وہ شملہ جا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے گھر واپس۔ نوجوان وی پی مینن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ اسی اثنا میں اس کی نظر ایک بزرگ سکھ پر پڑی۔ نوجوان مینن اس کے پاس گیا اور اپنی ساری کتھا اسے سنائی کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا تھا۔ شملہ میں اس کی نوکری کا سوال تھا۔ مینن نے سکھ بزرگ سے کہا کہ اگر وہ اسے پندرہ روپے قرضہ دے سکیں تو وہ شملہ جا کر تنخواہ سے واپس جس ایڈریس پر کہے گا وہاں بھجوا دے گا۔ اس بزرگ سکھ نے جیب سے پندرہ روپے نکالے اور مینن کو دے دیے۔ مینن نے ان سے ایڈریس پوچھا تو وہ سکھ بولا کہ نہیں‘ تم میرے ساتھ ایک وعدہ کرو‘ مرتے دم تک جب بھی کوئی ایماندار انسان تم سے مدد مانگے گا تم اس کی اسی طرح مدد کرو گے جیسے میں تمہاری کر رہا ہوں۔ یہ پیسے تم پر مرتے دم تک قرض ہیں جو تم نے لوٹاتے رہنا ہے۔
برسوں بعد جب وی پی مینن فوت ہوا تو اس سے چھ ہفتے پہلے اس کے بنگلور میں واقع گھر کے باہر ایک فقیر نے آواز لگائی، تو مینن نے اپنی بیٹی کو بلایا اور اسے کہا: میرا بٹوہ لائو۔ اپنے بٹوے سے اس نے پندرہ روپے نکالے اور بیٹی کو کہا: جائو فقیر کو دے آئو۔ وہ مرتے دم تک اپنا قرض واپس کرتا رہا تھا۔
ان پندرہ روپوں کی مدد سے شملہ پہنچ کر جس محنت اور ذہانت سے وی پی مینن نے نوکری میں عروج پایا وہ اپنی جگہ ایک ایسی کہانی اور ایسا واقعہ تھا جو اس سے پہلے کبھی سروس کی تاریخ میں نہیں ہوا تھا۔ جب ہندوستان اور پاکستان آزاد ہو رہے تھے اور انگریز یہاں سے بوریا بستر لپیٹ رہے تھے تو اس وقت وی پی مینن صرف اٹھارہ برس کی سروس کے بعد شملہ میں ریفارم کمشنر بن چکا تھا۔ یہ سب سے بڑا عہدہ تھا جس پر کسی انڈین کو لگایا گیا تھا۔ اس سے پہلے انگریز ہی اس عہدے کو سنبھالتے آئے تھے۔ اور وہ پہلا انڈین تھا جس نے نہ صرف لارڈ مائونٹ بیٹن کا اعتماد جیت لیا تھا بلکہ بڑی حد تک وائسرائے ہند کی شفقت اور مہربانی بھی جیت چکا تھا۔
وہی وی پی مینن اس وقت وائسرائے کے پاس موجود تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے وی پی کو کہا کہ نہرو سے ملاقات کے بعد اب آج رات اسے اس سارے پلان کو دوبارہ لکھنا ہو گا‘ جس کی بنیاد پر انڈیا کو آزادی ملے گی۔ وائسرائے نے اسے رات تک کا وقت دیا تھا جبکہ مینن اپنا کام سورج غروب ہونے سے پہلے مکمل کر چکا تھا۔ ایک تیرہ سال کے لڑکے نے‘ جس نے سکول چھوڑ کر مزدوری شروع کی تھی اور اپنا سروس کیریئر اس نے ٹائپنگ سے شروع کیا تھا، چھ گھنٹے دفتر میں بیٹھ کر پورا پلان ڈرافٹ کیا تھا۔ اس کے سامنے ہمالیہ کی پہاڑیاں تھیں جن پر وہ وقفے وقفے سے نظریں ڈال لیتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ ایک ایسا پلان ڈرافٹ کر رہا ہے جس نے دنیا کے نقشے کو بدل دینا ہے۔
جب سارا پلان سامنے آیا تو اس میں سے بنگال اور حیدر آباد دکن جیسی ریاستوں کو آزاد ملک بنانے کا پلان نکال دیا گیا تھا۔ طے پایا کہ ملک صرف دو بنیں گے۔ 565 ریاستوں اور راجوں کو ایک ہی آپشن دیا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کو جوائن کر لیں۔ پلان ڈرافٹ کرنے کے بعد وی پی مینن کا کام ختم نہیں ہوا تھا بلکہ دراصل شروع ہورہا تھا۔ نہرو، سردار پٹیل اور مینن اب لارڈ مائونٹ بیٹن کو ان ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کررہے تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن دراصل سردار پٹیل کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے یا ڈیل کو نبھا رہا تھا کہ اسے ہندوستان کی باسکٹ میں سب پھل چاہئیں تھے۔ (اس ڈیل پر پھر لکھوں گا)۔ مطلب پٹیل کو ساری ریاستیں ہندوستان میں چاہئے تھیں۔
بہت سارے راجوں کے لیے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کی دستاویزات پر دستخط کرنا قیامت سے کم نہ تھا۔ سنٹرل انڈیا کے ایک راجے کے سامنے جب یہ دستاویزات رکھی گئیں اور اس نے جونہی دستخط کیے اس کے کچھ دیر بعد اس کا دل کام کرنا چھوڑ گیا۔ دھول پور کے رانا نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا: آپ کے انگریز آبائواجداد اور ہمارے آبائواجداد کے درمیان 1765ء میں جو الائنس ہوا تھا وہ آج ختم ہو رہا ہے۔ ایک اور راجہ‘ جس کی ساری زندگی گوروں کو ڈائمنڈ پیش کرتے گزری تھی، الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے بعد وی پی مینن کے گلے لگ کر زاروقطار روتا رہا تھا۔ آٹھ راجوں نے اکٹھے پٹیالہ کے دربار ہال میں ایک عالی شان تقریب‘ جس کا اہتمام سر بھوپندر سنگھ نے کیا تھا‘ میں دستخط کیے۔ بعد میں ایک راجہ نے کہا: اس تقریب میں یوں لگتا تھا جیسے وہ سب شمشان گھاٹ آئے ہوئے ہیں۔
کچھ راجے مزاحمت کر رہے تھے۔ جوں جوں پندرہ اگست قریب آتی جا رہی تھی ان تینوں کا راجوں پر دبائو بھی بڑھ رہا تھا کہ وہ جلد فیصلہ کریں۔ جہاں کانگریس پارٹی موجود تھی ان ریاستوں میں سردار پٹیل نے اپنے ورکرز کو کہا کہ وہ مظاہرے شروع کریں تاکہ راجوں پر دبائو بڑھایا جائے۔ اوڑیسہ کے مہاراجہ کو ہجوم نے اپنے محل کے اندر محصور کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس وقت تک نہیں نکلنے دیا جائے گا جب تک وہ دستاویزات پر دستخط نہیں کرتا۔ ایک ریاست کے طاقتور وزیر اعظم کے منہ پر مظاہرین میں سے ایک نے چاقو مار دیا تھا۔ صدمے کے شکار وزیراعظم نے فوراً الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔ ان تمام حربوں کے باوجود چند ریاستیں ایسی تھیں جن کے راجے مہاراجے اور وزیر اعظم سردار پٹیل، لارڈ مائونٹ بیٹن اور وی پی مینن کا کھیل کھیلنے کو تیار نہیں تھے۔ ان میں سے ایک جودھ پور ریاست کا نوجوان راجہ بھی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی اس کے باپ کا انتقال ہوا تھا۔ نوجوان راجہ کو اپنی تمام تر انسانی کمزوریوں کے باوجود جلدی نہیں تھی۔ اس نے جیسل میر ریاست کے راجہ کے ساتھ مل کر ایک پلان بنایا کہ انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے اور آرام سے بھارت اور پاکستان میں سے اس کے ساتھ ملنا چاہیے جس میں ان کا زیادہ فائدہ ہو۔
ان دونوں نے ایک سیکرٹ پلان بنایا کہ انہیں پہلی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کرنی چاہیے۔ ایک خفیہ پیغام جناح صاحب کو بھیجا گیا۔ جودھ پور کے راجہ نے دہلی میں ایک خفیہ ملاقات کا پلان بنایا۔
اب جودھ کا راجہ محمد علی جناح کے سامنے بیٹھا پوچھ رہا تھا کہ اگر جیسل میر اور جودھ پور ریاستیں پاکستان کے ساتھ مل جائیں تو انہیں بدلے میں کیا ملے گا؟
محمد علی جناح اور راجہ جودھ پور جب خفیہ معاملات طے کر رہے تھے تو انہیں علم نہ تھا کہ ان کی اس خفیہ ملاقات کی خبر وائسرائے تک پہنچ چکی ہے اور وی پی مینن اس راجے کو پکڑنے کیلئے وائسرائے ہائوس سے گاڑی لے کر نکل چکا ہے۔ (جاری)