پچیس اکتوبر کو ہفتے کے روز رات گئے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کرنے والوں میں ایک اور بندے کا اضافہ ہوا۔
پچھلے چند ماہ میں ڈیڑھ کروڑ مسلمان، ہندو اور سکھ پناہ کی تلاش میں گھر سے بے گھر ہوئے تھے۔ اب ان میں ایک اور مہاراجہ ہری سنگھ کا بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ مہاراجہ کا قافلہ اس کی اپنی آرام دہ امریکن سٹیشن ویگن‘ جس میں وہ خود سوار تھا‘ کے علاوہ کئی ٹرکوں اور کاروں پر مشتمل تھا‘ جن میں مہاراجہ ہری سنگھ کا سامان لدا ہوا تھا۔ اس میں مہاراجہ کا سارا قیمتی سامان بھی موجود تھا جو اس کے محل سے ایمرجنسی میں نکال کر لاد دیا گیا تھا۔
مہاراجہ کو اندازہ نہ تھا کہ وہ آخری دفعہ اپنے محل کو دیکھ رہا ہے اور وہ اب یہاں کبھی نہیں لوٹ پائے گا۔ مہاراجہ کی اس انداز میں رخصتی پر ڈھول نہیں بجائے جا رہے تھے۔ ایک افسردگی اور خوف کا عالم تھا۔ وہ مہاراجہ جس نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو کشمیر میں کچھ دن آرام کی غرض سے گزارنے کی اجازت تک نہیں دی تھی‘ اب رات کے اندھیرے میں اپنی جان بچانے کے لیے پناہ کی تلاش میں اپنے محافظوں کے ہمراہ سٹیشن ویگن میں سہما بیٹھا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی منزل جموں تھی جہاں اسے پناہ ملنے کی امید تھی کیونکہ وہاں تک پاکستانی لشکر نہیں پہنچ سکتا تھا اور پھر جموں کی آبادی زیادہ تر ہندو تھی‘ جہاں وہ نسبتاً خود کو محفوظ پا سکتا تھا؛ تاہم مہاراجہ ہری سنگھ کے لیے یہ ہجرت ویسی نہیں تھی جیسی ہجرت کا ڈیڑھ کروڑ دیگر لوگوں کو سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ وہ کسی ریفیوجی کیمپ کی طرف نہیں جا رہا تھا بلکہ اس کا رخ جموں میں اپنے ایک اور محل کی طرف تھا جہاں وہ سردیوں کا موسم گزارتا تھا۔ جموں میں مہاراجہ کا محل وہی تھا‘ جہاں اس نے کبھی لندن سے آئے پرنس آف ویلز کا استقبال کیا تھا اور پرنس کے ساتھ اس وقت اس کا نوجوان کزن اور اے ڈی سی مائونٹ بیٹن بھی تھا‘ جہاں اس سے اکٹھے پولو کھیلتے ہوئے دوستی ہو گئی تھی۔
ہری سنگھ کی تمام چالاکیاں، حکمت عملی، سیاسی دائو پیچ اسے صرف تین ماہ ہی دے سکے تھے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ کشمیر کو پاکستان‘ ہندوستان کی طرح پر ایک آزاد ملک نہیں بنوا سکا تھا۔ مائونٹ بیٹن نے سردار پٹیل سے سیبوں کی پوری ٹوکری پیش کرنے کا جو وعدہ کیا تھا‘ اس ٹوکری سے ہری سنگھ بمشکل تین ماہ ہی باہر رہ سکا تھا۔ وہ آخری سیب بھی بھارت کی ٹوکری میں گرنے والا تھا۔
اس سے پہلے جب مہاراجہ ہری سنگھ سے وی پی مینن اس کے محل میں ملا تو اسے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سری نگر چھوڑ دے کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ وی پی مینن نے مہاراجہ کو کہا کہ اس کا سری نگر کو چھوڑنا دو تین باتوں کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ پہلی یہ کہ قبائلی لشکر بارہ مولہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ پھر مہاراجہ اس وقت بے بسی کی حالت میں تھا ۔ اس کی ریاستی پولیس اور فوج‘ دونوں اسے چھوڑ کر بھاگ گئی تھیں۔ اب اس کے پاس ان قبائلیوں سے لڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اگر بھارتی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ کشمیر میں اپنی نہ تو فوجیں بھیجے گی اور نہ ہی مہاراجہ اور اس کی ریاست کو بچانے کے لیے پاکستان سے جنگ لڑے گی تو پھر اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے خاندان کے افراد اسی محل میں قبائلی لشکر کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ اس کے علاوہ قبائلی لشکر نے اس کے محل میں موجود تمام قیمتی اشیا بھی لوٹ لینا تھیں۔ ان حالات میں وی پی مینن نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر سری نگر سے نکل جائے اور اپنے ساتھ محل میں موجود تمام قیمتی سامان بھی لیتا جائے۔
اب سوال یہ تھا کہ مہاراجہ کہاں جائے؟ کیا وہ وی پی مینن کے جہاز میں بیٹھ کر دہلی جائے یا پھر اسے جموں جانا چاہیے جہاں وہ اپنے محل میں محفوظ ہو گا۔ وی پی مینن نے اسے کہا کہ جموں زیادہ محفوظ رہے گا‘ جہاں وہ اپنے ساتھ اپنی قیمتی اشیا اور اپنے خاندان کو افراد کو بھی لے جا سکتا تھا۔
مہاراجہ کا جب سامان لادا جا رہا تھا تو اسے علم نہ تھا کہ چند برس بعد اس کا محل ایک لگژری ہوٹل میں تبدیل ہو چکا ہو گا جہاں مہاراجہ ہری سنگھ کی بجائے دنیا بھر سے آئے امیر ٹورسٹ ان راہداریوں میں پھرا اور بالکونیوں میں بیٹھا کریں گے اور ناشتہ کیا کریں گے جہاں کبھی مہاراجہ کی مرضی کے بغیر پتا تک نہیں ہلتا تھا۔ ان بالکونیوں میں اب امریکن سیاح دیکھے جائیں گے جہاں کبھی مہاراجہ ہری سنگھ اپنے آرمی افسران کے ساتھ شامیں بسر کرتا تھا۔ وہی آرمی افسران جن کی وفاداریاں خزاں میں درختوں کے پتوں کی طرح حالات کے پہلے ہی تھپیڑے سے اڑ گئی تھیں۔
جب مہاراجہ کے ملازم اس کے قیمتی ڈائمنڈ، زمرد اور ہیرے جواہرت کے ڈبوں کو سمیٹ رہے تھے تو ہری سنگھ نے دو چیزوں کو خود تلاش کرنا شروع کر دیا جو وہ اپنے ساتھ رکھنا چاہ رہا تھا۔ وہ تھیں اس کی شاٹ گنیں جن کی نیلے اور سیاہ رنگ کی بیرل تھیں۔ یہ گنیں اس نے ورلڈ ڈک شوٹنگ ریکارڈ کے لیے استعمال کی تھیں۔ جونہی مہاراجہ نے ایک گن کے بیرل پر اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کیا تو اس کے چہرے پر افسردگی ابھر آئی۔ وہ کچھ دیر تک کہیں گم اپنی اس شاٹ گن کی بیرل پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ آخر اس نے ان بندوقوں کو چمڑے کے کیس میں بند کر دیا اور اٹھا کر اپنے ساتھ باہر لے گیا جہاں امریکن سٹیشن ویگن اس کو جموں لے جانے کے لیے کھڑی تھی۔
اس سے پہلے جب وی پی مینن کو تسلی ہو گئی کہ مہاراجہ اسی رات سری نگر چھوڑ کر جموں کی طرف روانہ ہو جائے گا، تو وہ کچھ آرام کرنے کے لیے گیسٹ ہائوس چلا گیا تاکہ صبح ہوتے ہی دہلی روانہ ہو جائے؛ تاہم گیسٹ ہائوس جانے سے پہلے وی پی مینن نے کچھ دیگر اہم لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں جو اسے موجودہ صورتحال کے بارے بہت کچھ بتا سکتے تھے۔
وی پی مینن بستر پر سونے ہی والا تھا کہ گیسٹ ہائوس کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ تھا۔ اس کی آواز میں خوف تھا۔ وہ بولا: شہر میں افواہیں پھیل رہی ہیںکہ قبائلی لشکر سری نگر میں داخل ہو چکا ہے لہٰذا ان سب کے لیے اس وقت شہر میں موجود رہنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ وی پی مینن کے پورے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ یہ یقین نہیں کرسکتا تھا کہ قبائلی لشکر اتنی جلدی سری نگر میں داخل ہوسکتا ہے؛ تاہم وی پی مینن کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ مہاراجہ کی بات پر یقین کرتا۔ مہاراجہ محل میں موجود سب گاڑیاں اپنے ساتھ لے جا چکا تھا؛ البتہ ایک پرانی جیپ وہاں موجود تھی۔ اس پرانی گاڑی میں مہاراجہ کے وزیراعظم مہر مہاجن اور جہاز کے عملے کے چھ سات ارکان نے خود کو بمشکل ٹھونسا اور ایئرپورٹ کی طرف بھگانا شروع کر دیا۔ جب وہ سب ہانپتے کانپتے ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں لوگوں کا بہت بڑا ہجوم تھا جبکہ کل شام جب وہ ایئرپورٹ پر اترا تھا تو ہر طرف ویرانی تھی۔ وی پی مینن اپنے جہاز میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ ایک ہندو خاتون اس کی طرف دوڑی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا کہ وہ اس کی دو بیٹیوں کو دہلی لیتا جائے۔ اس کو خوف تھا کہ اس کی بیٹیاں اب سری نگر میں محفوظ نہیں ہیں۔ وی پی مینن نے اس کی بیٹیوں کو جہاز میں بٹھا لیا۔ جہاز کے پائلٹ نے وی پی مینن کو بتایا کہ انہوں نے جس ہوٹل میں ڈنر کیا تھا وہاں کسی ایک بھی بندے کو بات کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کوئی آواز ابھر بھی رہی تھی تو وہ صرف سالن کی پلیٹوں میں چمچ ہلانے کی تھی۔ ہر طرف موت جیسی خاموشی تھی۔
چھبیس اکتوبر کی صبح ہوتے ہی وی پی مینن کا جہاز سری نگر ایئرپورٹ سے اڑ کر دہلی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں مائونٹ بیٹن، نہرو اور سردار پٹیل اس کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔
دوسری طرف مہاراجہ ہری سنگھ کا جموں کی طرف سفر جاری تھا۔ جب مہاراجہ سترہ گھنٹوں کی مسافت کے بعد جموں اپنے محل پہنچا تو تھکاوٹ سے چور چور تھا۔ وہ فوراً اپنے بیڈروم سونے چلا گیا۔ سونے سے پہلے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور اسے کہا: سنو جنٹلمین‘ اگر وی پی مینن دہلی سے صبح تک لوٹ آئے تو جگا دینا‘ ورنہ نیند ہی میں مجھے گولی مار دینا۔ (جاری)