پاکستان پر پکی حکومت کون کرتا ہے؟ وہ کون سے کردار ہیں جو مستقل طور پر ہر حکومت میں پائے جاتے ہیں؟
بھٹو صاحب کا مشہور زمانہ فقرہ ہوتا تھا: طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ بائیس برس رپورٹنگ کرتے ہوئے ہوگئے اور میں ابھی تک بھٹو صاحب کے اس نعرے کی حقیقت کی تلاش میں ہوں کہ دیکھ سکوں‘ اس ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہی ہیں؟ ویسے عوام کو یہ گولی دینے میں ہرج نہیں کہ اصل طاقت آپ کے پاس ہے اور آپ ہی اس ملک کے اصل حکمران ہیں۔
میرا برسوں کی رپورٹنگ کا تجربہ یہ کہتا ہے عوام کا کوئی زور نہیں ہے۔ عوام کو ہر پانچ برس بعد خوش کر دیا جاتا ہے کہ ووٹ ڈال لیں اور یہ کہ آپ کی مرضی کے حکمران آئیں گے‘ حالانکہ ووٹ سے پہلے ہی طے ہو چکا ہوتا ہے اب کی بار کس کی باری ہے۔ سیاستدان خفیہ ملاقاتیں کرکے معاملات طے کرچکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہی نچلے لیول پر احکامات پہنچائے جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ پولنگ سٹیشنز پر موجود اہلکار اندر تعینات ہوں گے یا سکول کی حدود سے باہر ڈیوٹی دیں گے۔ امیج بنانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ فلاں لیڈر کی گڈی چڑھ گئی ہے۔ اتنی دیر میں پچھلا حکمران اپنی حرکتوں، کرپشن، دوستوں کو نوازنے اور کاروبار کو ترقی دینے کے بعد اتنا بدنام ہو چکا ہوتا ہے کہ نئے کو جگہ بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔
اب آپ پوچھیں گے کہ اس ملک کے اصل حکمران کون ہیں جو مستقل ہیں۔ بیوروکریسی تو مستقل رہتی ہے اور اس کے بعد باری لگتی ہے سیٹھوں اور حکمرانوں کے دوستوں کی جو الیکشن کے نتائج آتے ہی اسلام آباد میں ڈیرے لگا لیتے ہیں۔ یہ سیٹھ نئے حکمرانوں کو ڈرا دیتے ہیں کہ پچھلے ملک کی اکانومی تباہ کر گئے۔ اگر وہ کامیابی چاہتے ہیں تو فوراً ان کے مشوروں پر عمل کریں۔ پھر وہ ٹیکس معاف کراتے ہیں جو وہ پہلے ہی پاکستان کے کروڑوں لوگوں سے وصول کر چکے ہوتے ہیں۔ جیسے ابھی تین سو ارب روپے معاف کرائے جا رہے تھے۔ وہ لاتعداد ڈیمانڈز کا پیکیج بنا کر لاتے ہیں۔ ایڈوائزری کمیٹی بن جاتی ہے‘ جس میں وہ سب سیٹھ اور کاروباری ممبر ہوتے ہیں جنہوں نے خود ہی اکانومی کا بیڑا غرق کیا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے ان کاروباریوں کی ملاقات ہوئی ہے جن پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور وہ نیب کے مقدمات میں مطلوب ہیں۔ وزیر اعظم ان سے مشورے طلب کررہے ہیں جن کے خلاف وہ تقریریں کرکے عوام کے دل گرماتے تھے۔
عمران خان صاحب کی حکومت تو چلا ہی مشیران رہے ہیں‘ چاہے وہ مشیر کامرس عبدالرزاق دائو ہوں جن کی کمپنی کو تین سو ارب روپے کا ڈیم ٹھیکا ملا، صحت کو مشیر چلا رہا ہے، مشیر خزانہ حفیظ شیخ ہیں جن کے دوست علی جمیل کی کہانیاں یہاں مشہور ہیں۔ بیوروکریسی کے علیحدہ مشیر ارباب شہزاد ہیں تو ریفارمز کے مشیر ڈاکٹر عشرت۔ وزارت اطلاعات بھی مشیر کے ذریعے چل رہی ہے۔
انرجی کے مشیر ندیم بابر کو ہی دیکھ لیں‘ جن کی کہانی عامر متین سناتے ہیں کہ کیسے وہ شہباز شریف دور میں اکیلے پنجاب کی کمپنیوں کے بورڈز میں شامل تھے اور کچھ کے سربراہ بھی۔ ایک اور صاحب جہانزیب خان تھے۔ وہ پنجاب میں شہباز شریف کے رائٹ ہینڈ تھے اور پلاننگ کا محکمہ چلاتے تھے۔ وہ جو کمپنیاں چلا رہے تھے ان میں وہ بھی شامل تھی جس نے چار ارب روپے خرچ کر دیئے لیکن پانی کی ایک بوند تک نہ نکلی۔ ندیم بابر کو اٹھا کر عمران خان صاحب نے اپنا مشیر برائے انرجی بنا لیا۔ انہوں نے ایک وقت میں حکومت پاکستان پر مقدمہ دائر کیا ہوا تھا کیونکہ وہ پاور پلانٹ کے بھی مالک ہیں۔
وزیر اعظم نے خود بھی اپنے دوستوں کو بڑے عہدوں سے خوب نوازا۔ ان کی دیکھا دیکھی چند وزرا نے سوچا‘ ہم کیوں نہ دوستوں کو آگے لائیں۔ یوں وفاقی وزیر علی زیدی نے پہلے حفیظ شیخ کے دوست علی جمیل کو پورٹ قاسم اتھارٹی کے بورڈ کا ممبر لگا دیا تھا۔ انہی علی جمیل کو اب مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے سٹیٹ بینک کے بورڈ کا ممبر لگا دیا ہے۔ آپ پوچھیں گے علی جمیل کون ہے؟ علی جمیل وہ ہیں‘ جن کا نام حفیظ شیخ کے پچھلے دور میں ٹریکر سکینڈل میں آیا تھا۔ علی جمیل کے اس سکینڈل کی تفصیلات میں نے انہی کالموں میں تفصیل سے دو ہزار بارہ میں لکھ دی تھیں۔
علی زیدی صاحب کی کہانی بھی سن لیں۔ ان کے ایک دوست ہیں‘ عاطف رئیس۔ علی زیدی منسٹر انکلیو میں رہنے کی بجائے عاطف رئیس کے گھر رہتے ہیں۔ گھر کا کچن، بجلی، گیس، سب کچھ رئیس برداشت کرتے ہیں۔ منسٹر انکلیو میں نہ رہنے کی وجہ سے علی زیدی کو دو لاکھ روپے کیش حکومت دیتی ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال چین جانا تھا تو عاطف رئیس کا نام بھی وفد میں لکھوا دیا گیا۔ واپس آ کر انہی عاطف رئیس کی کمپنی کو پشاور میٹرو میں بارہ ارب روپے کا ایک ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اب دستاویزات کے مطابق عاطف رئیس کے خلاف ایف آئی اے نے سترہ کروڑ روپے کے ایک کنٹریکٹ میں فراڈ پر مقدمہ درج (ایف آئی آر نمبر 22/2017 dated 11.10.2017)کرارکھا ہے۔ عاطف رئیس نے پشاور میٹرو کا ٹھیکہ لیتے وقت یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پر پہلے کنٹریکٹ میں فراڈ پر مقدمہ درج ہے۔ یوں حقائق چھپا کر تیرہ چودہ ارب روپے کا کنٹریکٹ لے لیا گیا۔ علی زیدی کا کہنا ہے: یہ ہرگز مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے کہ ان کا دوست‘ جس کے وہ گھر رہتے ہیں‘ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے اربوں روپوں کے کنٹریکٹ ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے اور مفادات کا ٹکرائو کیا ہوتا ہے؟ آپ ایک کاروباری ہیں۔ آپ حکومتوں سے کنٹریکٹ لیتے پھر رہے ہیں اور ایک وفاقی وزیر آپ کے گھر ٹھہرتا ہے اور سب کچھ کھانا پینا آپ کے ذمے ہے۔ وہ وزیر کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتا ہے، وہ اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھتا ہے‘ جہاں پاکستان کے اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ ایک وزیر کو سب کچھ پتا ہوتا ہے کہ کسی کنٹریکٹ کے لیے حکومت کی کیا ترجیحات ہیں۔ آپ پھر بھی سمجھتے ہیں یہ مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے دوست کو آپ کی وجہ سے فائدہ ہو رہا ہے؟ ایک کاروباری کو اندر کی تھوڑی سی خبر بھی اربوں روپے کا فائدہ دے سکتی ہے لہٰذا کراچی سے لاہور تک کے کاروباری آپ کو اسلام آباد میں بیگ اٹھائے حکومت کے افسران اور وزیروں سے تعلقات بناتے اور افسران پر خرچہ کرتے نظر آتے ہیں کہ شاید اندر کی خبر مل جائے جس سے انہیں اپنے مخالفین پر برتری ہو اور وہ اربوں کا ٹھیکہ لے اڑیں۔ انہوں نے فخر سے ٹی وی پر بتایا کہ وہ عاطف کے گھر رہتے ہیں۔ وہی عاطف ہر وقت تین وزیروں علی زیدی، عمر ایوب اور ندیم بابر کی کمپنی میں رہتے ہیں اور انہیں پشاور میٹرو میں تیرہ چودہ ارب روپے کا ٹھیکہ بھی مل جاتا ہے۔
عمران خان صاحب ساری عمر ہمیں یہ سمجھاتے رہے پیپلز پارٹی اور شریف خاندان نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازا اور اسے وہ مفادات کا ٹکرائو قرار دیتے تھے۔ اپنی باری لگی ہے تو وہ خاموش ہیں۔ ان کے وزیر کھلے عام اپنے دوستوں کو ہر اہم جگہ لیے پھرتے ہیں۔ اس لیے ان وزیروں کے یہ کاروباری لوگ ہی اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو ہر حکومت میں ملیں گے۔ یہ کاروباری دوست آپ کو اپنے گھر ٹھہراتے ہیں، آپ کو الیکشن کے دنوں میں مدد کرتے ہیں، آپ پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور بعد میں جونہی آپ پاور میں آتے ہیں یہ اپنا نذرانہ آپ سے سود سمیت لینے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ خود بھی دبا کر کھاتے ہیں اور آپ کی چونچ بھی گیلی کراتے ہیں۔ عوام انہی کے نعرے مار مار کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف، زرداری اور عمران خان کے لیے رشتہ داروں دوستوں سے لڑتے ہیں اور وہ سب حکمران اپنے اپنے ڈونرز، دوستوں اور پارٹیوں کو عوام کی جیب سے ہی نوازنے میں لگے ہوتے ہیں۔ یہ ہیں اس ملک کے اصلی حکمران نہ کہ عوام جنہیں طاقت کا سرچشمہ قرار دیا گیا تھا اور یہی مگرمچھ عوام کی جیبیں خالی کر دیتے ہیں ۔ عوام نعرے مار کر خوش، اور وزیروں کے دوست اسی عوام کو لوٹ کر خوش۔ حبیب جالب یاد آگئے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں مشیروں کے