مولانا دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور جو غیرمعمولی دھمکیاں انہوں نے دی ہیں اس کے بعد اسلام آباد کے حالات سنبھلنے کی بجائے بگڑتے لگ رہے ہیں ۔ لوگ اگرچہ ستمبر کو ستم گر سمجھتے رہے لیکن میرے دوست ماہر فلکیات انور فراز سید کا یہ اندیشہ ہے کہ نومبر کا ماہ ستم گر ثابت ہوسکتا ہے ‘ بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ تاریخ خود کو کیوں دہراتی ہے؟
یہ وہ جملہ ہے جو ہم بار بار سنتے ہیں کہ لوگ تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ حالانکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ان سے پہلے جو حکمران یا طاقتور لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی زوال دیکھا اور ہوسکتا ہے ان کے زوال کی وجہ بھی وہی لوگ ہوں جو اب حکمران بنے بیٹھے ہیں ۔ میرے خیال میں تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی دو‘ تین وجوہات ہوتی ہیں۔
اگر آپ صدیوں کی انسانی تاریخ دیکھیں تو انسانی جبلتوں کا انسان کی تقدیر لکھنے میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ انسانی جبلتیں اس پر حکمرانی کرتی ہیں ۔ دنیا میں شاید کوئی ایسا انسان آپ کو نہ ملے گا جو اپنی جبلت پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو پا لیتے ہیں وہ سادھو‘ سنت‘ فقیر کہلاتے ہیں۔ وہ پھر عام معاشرے چھوڑ کر جنگلوں میں ڈیرہ لگا لیتے ہیں۔ انسان جب سے پیدا ہوا ہے اس کی پیار‘ نفرت‘ غصہ‘ خوشامد ‘ حسد‘ دشمنی‘ تشدد ‘ غرور ‘ قتل و غارت یا اپنے جیسے انسانوں پر ہر قیمت پر حکمرانی کرنے کی جبلتیں ایک جیسی ہی ہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہزاروں برس پہلے کے انسان میں تو وہ سب جبلتیں موجود ہوں‘ لیکن ہمارے اندر سے وہ غائب ہوجائیں۔ آپ پوچھیں گے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ارتقائی عمل بیکار گیا؟ اگر انسان کے اندر وہی وحشی پن آج بھی موجود ہے جو ہزاروں سال پہلے موجود تھا تو پھر اتنی ترقی کا کیا فائدہ؟ پھر جدید تعلیم‘ تہذیب نے ہمارا کیا بگاڑ لیا؟
یہ بات طے ہے کہ ہمارے اندر اپنی انسانی جبلتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ابھی تک کوئی میکنزم نہیں پیدا ہوا ۔ باقی چھوڑیں آپ یہی دیکھ لیں کہ انسان حسد کرتا ہے‘ غیبت کرتا ہے‘ دوسرے کی ٹوہ میں رہتا ہے ‘ سنی سنائی بات پھیلاتا ہے اور یہ سب کام انسان کو نہیں کرنے چاہئیں۔ اب جو چیزیں ہماری روح یا میکنزم کا حصہ بن گئی ہیں اور خدا نے ہمیں ایسے ہی پیدا کیا ہے تو پھر انہیں کیسے روکا یا ان پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ جب آج لوگ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر بات کرتے ہیں اور فلموں اور ڈراموں کی کہانیوں کو اس کی اہم وجہ بتاتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا پہلا قتل جو ایک بھائی نے دوسرے بھائی کا کیا تھا ‘اس کی وجہ بھی ایک خاتون تھی‘ جس سے دونوں بھائی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ یہ دراصل انسانی جبلت تھی‘ محبت کرنے کی اور اپنی محبت کو پانے کے لیے انتہا تک جانے کی ‘لہٰذا یہ ہوسکتا ہے کہ ان ہزاروں برس کے دوران ہم نے ان جبلتوں کو تہذیب یا تعلیم کا رنگ دیا ہوا اور جتنی کوشش ہوسکتی ہے ہم نے کی ہو اور جبلتوںکو اپنے اندر چھپائے رکھتے ہیں‘دبائے رکھتے ہیں اور انہیں باہر نہیں نکلنے دیتے‘یا پھر ہم مسلسل اداکاری کرتے رہتے ہیں کہ ہم پر ان باتوں یا جبلتوں کا اثر نہیں ہوتا‘ لیکن ہوتا ہے۔ آج بھی کسی سے محبت اور نفرت کرنے کا وہی انداز ہے جو ہزاروں برس قبل تھا ۔ ہاں کچھ انداز اور طریقے بدل گئے ہیں ۔ آج بھی آپ اپنے رقیب کو برداشت نہیں کرتے ‘ہزاروں سال پہلے بھی نہیں کرتے تھے۔ ہاں تعلیم سے یہ فرق پڑا ہے کہ کچھ لوگ عزت‘ غیرت کے نام پر بچیوں کو قتل نہیں کرتے ‘لیکن بہت بڑا طبقہ آج بھی اپنی لڑکیوں کو پسند کی شادی کرنے پر قتل کردیتا ہے اور اسے بہت بڑی بہادری سمجھا جاتا ہے۔
اس لیے جب ہم حکمرانوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں یا حکمرانوں سے نہیں سیکھتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ان سے پہلے حکمران کرتے آئے ہیں اور اسی انجام کا سامنا کرتے ہیں تو مجھے یہ حیران کن بات نہیں لگتی۔ وجہ وہی ہے کہ ہر انسان اپنی جبلت کا غلام ہوتا ہے اور انسانی جبلتیں ایک جیسی ہوتی ہیں‘ ان کا ایک جیسی صورتحال میں ایک جیسا ردعمل ہوتا ہے اور اس سے زمان و مکان پر کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لہٰذا نتائج وہی نکلتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے نکلتے تھے۔کوئی بھی حکمران جب کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ بہت ذہین‘ چالاک‘ سمجھدار‘ بہت خوش قسمت اور بہادر انسان ہے اور اس سے پہلے جو بھی گزرے وہ شاید اتنے سمجھدار یا خوش قسمت نہ تھے۔ وہ روزانہ خود کو اپنی خوبیاں بار بار بتا کر اپنی ہی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اپنے آپ سے محبت‘جسے نرگیست کہتے ہیں‘ بھی انسانی جبلت ہے۔ ہوسکتا ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہو‘ لیکن یہ جبلت ہر بندے کے اندر ضرور ہوتی ہے۔ جس میں نرگیست زیادہ ہوتی ہے وہ ایک طرح سے بیماری بن جاتی ہے‘ ایسے لوگ پھر خود سے ساری عمر محبت کرتے ہیں اور ایسے لوگ یا حکمران ہمیشہ ظالم ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اکیلے وہی بہتر انسان ہیں‘ کیونکہ وہ بہت خوبصورت ہیں‘ وہ بہت امیر ہیں اور لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اور خدا نے انہیں کسی بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ۔ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں‘ لہٰذا وہ خود کو عام لوگوں سے دور کرلیتے ہیں ۔ وہ عام لوگوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر وقت ان سے محبت کریں ‘ ان کے وفادار رہیں‘ ان کے نعرے ماریں اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیںاس پر کوئی سوال نہ اٹھائیں اور اندھا دھند ان کے پیچھے چلتے رہیں ۔ یوں وہ اپنا پیدائشی حق سمجھ لیتے ہیں کہ ان سے ہر کوئی غیرمشروط محبت کرے گا‘ چاہے وہ کسی کو دھتکار دیں ‘ گالی دیں‘ پھانسی دے دیں‘ تھپڑ ماریں یا بات نہ سنیں۔ جب ایسا بندہ کسی بھی ملک کا حکمران بن جائے گا تو وہ یہ بات خود کو سمجھا لیتا ہے کہ خدا نے اس میں ایسی خاص چیز پیدا کر دی ہے جو دوسروں میں نہیں ‘ لہٰذا اسے ہی اس ریاست کا بادشاہ بنایا گیا ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ وہ لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرے گا ‘لیکن کوئی اس کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ پھر وہ انہی جبلتوں کا شکار ہوجاتا ہے‘ جیسے اس سے پہلے حکمران ہوتے آئے ہیں۔جو حکمران تخت پر بیٹھتا ہے وہ اپنے سے پہلے حکمرانوں کے بارے میں بہت کم پڑھتا یا ان کی غلطیاں سمجھنے کی کم کوشش کرتا ہے‘ کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان سے پہلے کے بادشاہ بیوقوف تھے اور وہ ایسی غلطیاں نہیں کرے گا جو اس سے پہلے کر گئے ہیں ۔
اس حکمران کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ انسانی جبلتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ نئے حالات میں نئی غلطیاں کرے گا‘ لیکن وہ غلطیاں بھی انسانی جبلتوں کے تابع ہوں گی‘ لہٰذا وہ بھی وہی غلطیاں کرے گا اور ان کے نتائج بھی وہیں نکلیں گے جو ان سے پہلے حکمرانوں کے لیے نکلے تھے۔
ان باتوں کا احساس حکمرانوں کو اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ پوری طرح کرسی سے گر نہیں پڑتے‘ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ نے اکثر حکمرانوں کی آپ بیتیاں پڑھی ہوں تو وہ ان غلطیوں کا ضرور ذکر کرتے ہیں ‘جو ان کے دورِ حکمرانی میں سرزد ہوئی تھیں۔ وہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی ان غلطیوں پر شرمندہ ہیں اور اگر انہیں دوبارہ موقع ملا تو وہ یہ کام نہیں کریں گے۔
لیکن مزے کی بات ہے کہ انہیں جب بھی دوبارہ موقع ملتا ہے تو وہ کام وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ وہی ہزاروں سال پرانی ہے کہ انسان اپنی جبلتوں کا غلام ہے اور رہے گا۔ وہی غلطیاں انسان دُہراتا رہے گا اور بار بار زوال کا شکار ہوتا رہے گا...اور تاریخ خود کو دُہراتی رہے گی ۔ الزام دینا ہے تو انسان یا تاریخ کو نہ دیں کہ وہ خود کو دہراتے ہیں بلکہ انسانی جبلتوں کو دیں‘ جنہوں نے انسانوں کو صدیوں سے غلام بنا رکھا ہے۔
عمران خان بھی وہی غلطیاں دُہرائیں گے جو نواز شریف نے کی تھیں ‘کیونکہ نہ شریفوں نے بینظیر بھٹو کے زوال سے سیکھا تھا اور نہ ہی عمران خان نواز شریف کے زوال سے سیکھیں گے ۔ اور آپ وجہ جانتے ہیں کہ وہ کیوں دُہرائیں گے !