ایک دفعہ پھر وہی انگریز کمشنر پینڈرل مون‘ اس کی اسی برس قبل لکھی گئی کتاب Strangers in Indiaاور اس کا گورا ماتحت افسر گرین لین یاد آئے۔ بعض لوگوں کو خدا نے کتنی ذہانت دی ہوتی ہے کہ وہ اُڑتی چڑیا کے پر تک گن لیتے ہیں۔ اس گورے افسر گرین لین ہی کو دیکھ لیں‘ جسے ادراک ہوچلا تھا کہ ہندوستان یورپ سے مختلف ہے اور ہم گورے قوانین کے نام پر انصاف اور تہذیب بنانے کے چکر میں ہیں‘یہ سب کامیاب نہیں ہوگا۔ کون سا قانون اور کون سا انصاف؟ یہاں دو قسم کے لوگ رہتے ہیں‘ ایک طاقتور اور دوسرے ان کی رعایا۔ اب طاقتور اور رعایا میں کیا انصاف ہوسکتا ہے؟
گرین لین اپنے افسر پینڈرل مون کی باتوں پر پہلے کڑھتا اور پھر ہنستا تھا کہ صاحب کس دنیا سے تشریف لائے ہیں کہ ہندوستان کو ایک اچھا ملک بنا کر دم لیں گے۔ گرین لین کو لندن سے ہندوستان آنے کے کچھ عرصہ بعد اندازہ ہوگیاتھا ہندوستان وہ خطہ نہیں جیسا وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں۔ جب گرین لین نے عدالت میں بیٹھ کر انصاف کرنے کی کوشش کی اور اس کا واسطہ ہندوستان کے لوگوں سے پڑا تو وہ چکرا کر رہ گیا کہ اس ملک میں اتنا جھوٹ بکتا ہے۔ اتنے جھوٹے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں‘ جن کے پاس کوئی ضمیر نہیں اور کوئی بھی بندہ عدالت کے سامنے قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی دے کر کسی کو پھانسی بھی دلوا سکتا ہے ا ور اس جھوٹی گواہی پر اُسے اس کا وکیل تیارکرتا ہے۔ گرین لین کا یہی کہنا تھا کہ قوانین مہذب معاشرے کے لیے ہوتے ہیں ‘ اس لیے وہ اس وقت بھی کہتا تھا کہ ہندوستان میں قوانین اس طرح کبھی بھی نافذ نہیں ہوں گے‘ جیسے یورپ میںنظر آتے ہیں۔ انگریزوں کے نزدیک اس سارے مسئلے کا ایک ہی حل تھا کہ لندن کے قوانین کو کاپی کر کے ہندوستان پر لاگو کر دیں۔
ویسے میں کوشش کررہا ہوں کہ کچھ مواد ہاتھ لگے جس سے پتہ چلے کہ انگریزوں کے ہندوستان آنے سے پہلے یہاں انصاف کا کیا سسٹم تھا؟ ہمیں جو کچھ سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا گیا تھا اس سے یہی لگتا ہے کہ انصاف صرف بادشاہ کے دربار میں ہوتا تھا‘ جہاں کوئی مظلوم پیش ہو کر دہائیاں دیتا یا کسی بادشاہ کے محل کے باہر کوئی زنجیر لگی ہوئی ہوتی تھی اور کوئی مظلوم اس زنجیر کو ہلا دیتا تو بادشاہ کی نیند میں خلل پڑتا اور وہ اٹھ کر پوچھتا کون ہے اور کیا چاہتا ہے ؟ یا دربار میں کوئی مقدمہ پیش ہوتا تو سمجھدار بادشاہ اپنے وزیروں سے رائے لیتا کہ اس کا کیا فیصلہ ہو یا کوتوال شہر سے پوچھا جاتا کہ وہ بتائے۔
انگریزوں سے پہلے انصاف کے کیا ادارے تھے؟ شہر کا ایک بڑا قاضی ہوتا تھا جو انصاف کرنے پر مامور تھا۔ ایک قاضی کے انصاف کی کہانی سن لیں: علائو الدین خلجی نے ایک دفعہ دلی کے قاضی کی عدالت میں مقدمہ کیاکہ ایک عالم دین اس کے خلاف شہر میں یہ پروپیگنڈا کرتا پھرتا ہے کہ میں ظالم اور خونی ہوں۔ قاضی نے اس عالم دین کو طلب کر لیا۔ اس عالم سے پوچھا گیا :کیا یہ بات سچ ہے؟ اس نے جواب دیا: جی بالکل میں نے یہی باتیں بادشاہ کے خلاف کی ہیں ۔ پوچھا گیا کہ کیا ثبوت ہے؟ جواب دیا: بادشاہ سلامت اگر کسی سے ناراض ہوجائیں تو اس اکیلے شخص کو نہیں بلکہ اس کے پورے خاندان کو سزا ملتی ہے اور سب کو قتل کر دیاجاتا ہے۔اگلے دن اُس عالم کی کھال بھوسے سے بھری ہوئی اسی عدالت کے باہر لٹکتی ہوئی ملی ۔
یہ انگریز تھے جنہوں نے ہندوستان میں یہ تصور متعارف کروایا کہ بادشاہ تک سے جواب طلبی ہوسکتی ہے اور سب قانون کے آگے برابر ہیں‘ اسی لیے بہادر شاہ ظفر کا مشہور زمانہ ٹرائل کیا گیا ‘حالانکہ اسی یورپ میں کبھی یہ تصور تھا کہ بادشاہ پر کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا کیونکہ بادشاہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا۔ انگریزوں نے اپنے تئیں کوشش کی‘ لیکن لگتا ہے وہ اس خطے میں وہ قوانین لے کر آئے جو یہاں کے لوگوں کو سوٹ نہیں کرتے تھے‘ لہٰذا آپ کو آج بھی وہی خامیاں نظر آتی ہیں۔ یہاں کے لوگ طاقت اور طاقتور کی زبان سمجھتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں پاور ہے وہ کچھ بھی کر لے‘ یہاں کے عوام اس کے سامنے لیٹ جائیں گے۔ پولیس کو دیکھ لیں کہ اس نے ساہیوال میں آرام سے ایک پورے خاندان کو بچوں کے سامنے گولیوں سے اڑا دیا اور پنجاب پولیس نے ایک پریس ریلیز جاری کی کہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں ڈی پی او کے حکم پر ایک گھر پر رات کو چھاپے مار کر شیر خوار بچوں کی ماں اور دیگر دو عورتوں کو اس لیے اُٹھا لیا گیا کہ ان کے گھر کا مرد زمین کے ایک مقدمے میں مفرور تھا۔ یہ کام ایک سی ایس ایس افسر نے کیا کیونکہ اس کے پاس طاقت تھی ۔ اسی افسر کو اب وزیراعلیٰ بزدار نے اپنے پاس اعلیٰ عہدہ دیا ہوا ہے۔
جب ان پولیس افسران کے ہاتھ کوئی کمزور چڑھ جائے تو ان کی رعونت ‘تکبر اور ظلم دیکھیں‘ لیکن اگر سامنا وکیلوں سے ہو جائے تو پھر ان کی وضاحتیں سنیں اور پڑھیں۔ کل سے پولیس افسران کی باتیں سن رہا ہوں‘ ان کے بہانے پڑھ رہا ہوں۔ ان کی تاویلیں پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب اسی معاشرے کا حصہ ہیں جہاں طاقتور کے سامنے لیٹ جائو اور کمزور پر چڑھ دوڑو۔ پولیس نے اٹھارہ برس قبل یہ کہہ کر پولیس آرڈر جاری کرایا تھا کہ وہ ڈی ایم جی افسران کے نیچے لگ کر کام نہیں کرسکتے ‘وہ آزادانہ زیادہ بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔ اٹھارہ برس کی کارکردگی دیکھ لیں کہ یہ پولیس والے ڈی ایم جی سے آزادی ملنے کے بعد عوام کا اعتماد کہاں تک جیتنے میں کامیاب ہوئے؟ یہ جو عوام کیلئے دہشت کی نشانی بن چکے ہیں وہ اب خود وکیلوں سے ڈرتے ہیں۔
لاہور میں وکیلوں نے ہسپتال کو تباہ کر کے رکھ دیا‘ ہنگامے کرتے رہے‘ پتھرائو ہوتا رہا‘وکیل فائرنگ کرتے رہے ‘لیکن مجال ہے آپ کو پولیس نظرآئی ہو۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ وکیل سینکڑوں کی تعداد میں ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے لیکن حکومت پنجاب کے کسی محکمے کو علم نہ ہوا کہ شہر میں کیا ہونے والا ہے۔ جن کا کام ہے کہ شہر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی نظر رکھیں‘ انہیں علم نہیں ہے‘ کوئی سیکرٹ ایجنسی نہیںجانتی کہ اتنی بڑی تعداد میں وکیل نعرے لگاتے کہاں جارہے ہیں۔ یہ کوئی لیہ‘ مظفرگڑھ کی کہانی نہیں سنا رہا ‘یہ وزیراعلیٰ اور آئی جی پولیس کے دفتر سے کچھ فاصلے پر ہورہا تھا۔ آپ ان لوگوں کی اہلیت اور قابلیت ملاحظہ فرمائیں کہ انہیںیہ نہیں پتہ کہ چند قدموں کے فاصلے پر کیا ہورہا ہے۔ ایک انگریز تھے کہ ہزاروں میل دور سے ہندوستان آئے اور صرف چار پانچ سو افسران کے ساتھ پورے ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی۔انہیں چپے چپے کا پتہ تھا کہ کیا ہورہا تھا ۔ یہاں صرف شہر لاہور میں ہزار سے زیادہ افسران ہوں گے‘ لیکن مجال ہے انہیں پتہ ہو کہ ہمیں ان حالات میں کیا کرنا ہے۔ اس ملک میں کسی سے پوچھ گچھ کا کوئی سلیقہ نہیں ‘ اسی لیے سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوتے وقت جن پولیس افسران نے غفلت دکھائی تھی ان کو شہباز شریف نے ترقیاں دیں اور انہیںاعلیٰ پوسٹنگز بھی ملیں۔ اب بھی آپ یہی دیکھیں گے کہ جو پولیس افسران سارا دن وکیلوں کو تباہی بربادی کرتے دیکھتے رہے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ان کا بہانہ یہ ہے کہ وہ نظامِ عدل سے ڈرتے ہیں‘ جو ان وکیلوں کے خلاف کارروائی پر ان کی ایسی تیسی کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے اگر آپ وکیلوں سے ڈرتے ہیں تو ساہیوال میں کیسے پورے خاندان کو قتل کردیتے ہیں؟ مطلب یہ کہ جو آپ سے زیادہ طاقتورہے وہ جو چاہے کر لے آپ ڈر کے مارے دبک کر بیٹھیں گے؟ اب پتہ چلا ہے کہ آئی جی پولیس شعیب دستگیر نے اپنے دفتر کی سکیو رٹی کے لیے رینجرز مانگ لی ہے۔ یہ ہے انجام پنجاب پولیس کا‘ اس حکومت میں جس کا سربراہ پانچویں دفعہ تبدیل ہوا ہے۔ پورے ملک کی بدنامی الگ ہوئی‘ سارا دن لاہور میں کوئی قانون نہیں تھا۔ وزیراعلیٰ بزدار نے وزارتِ داخلہ بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے اور وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ وزیراعظم عمران خان‘ جو ہنگاموں کے روز سارا دن غائب رہے‘ اب پنجاب حکومت کو خراج تحسین پیش کرنے بعد فرماتے ہیں: بزدار حکومت کی شاندار حکمت عملی سے لاہور میں بڑا نقصان ہونے سے بچ گیا۔ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا: ایک بندہ کہیں بھاگتا جا رہا تھا ‘ کسی نے پوچھا‘ کیا ہوا؟ وہ ہانپتے کانپتے بولا: پچھلے چوک میں میرے باپ کو لوگ ماررہے ہیں ‘ میں عزت بچا کر بھاگ آیا ہوں ۔