سندھ کے آئی جی کلیم امام کو وزیراعظم عمران خان کے سامنے بیٹھا دیکھا تو یاد آیا کہ وہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے چیف سکیورٹی افسر تھے اور اسی وزیراعظم ہاؤس میں لمبا عرصہ رہے۔ ایک دفعہ ان کی موجودگی میں گیلانی صاحب سے کہا کہ وہ بچوں پر آنکھ رکھیں اور حکومتی امور سے دور رکھیں۔ میں نے کہا تھا: آپ نے تو جنرل مشرف کی جیل بھگت لی ‘ لیکن بچوں کو جیل میں نہیں دیکھ پائیں گے۔ باپ خود تکلیف برداشت کر لیتا ہے‘ اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ بہتر ہوگا کرپشن کو قریب نہ آنے دیں۔ گیلانی صاحب میں بہت مروت تھی‘ کڑوی سے کڑوی بات بھی سن لیتے تھے۔ ہنس کر کہنے لگے: آپ ان کی بات کررہے ہیں‘ وہ آپ کی شکایت کرتے ہیں کہ آپ میری حکومت اور ان کے خلاف خبریں فائل کرتے ہیں۔گیلانی صاحب سنجیدہ ہو کر کہنے لگے کہ انہوں نے تو سب کو منع کر رکھا ہے۔ میں نے کہا :اگر آپ نے منع کر رکھا ہے اور یہ حال ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔بعد میں کلیم امام نے مجھے بتایا کہ میرے کہنے کے بعد انہوں نے افسروں سے پھر کہا کہ وہ بچوں کے کہنے پر غلط کام نہ کیا کریں اور بچوں کو بھی ڈانٹا تھا‘ لیکن بعد میں جو کچھ ہوا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
کلیم امام کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعدشام کو میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا چل رہا ہے؟ وہ دوست پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں‘ وزیراعظم کی عادتاً تعریف کرنے لگے ‘ بولے: دیکھا کیسے پی پی پی کو نتھ ڈال دی ہے اور ان کے کہنے پر آئی جی تبدیل نہیں کررہے‘ خان صاحب ڈٹ گئے ہیں۔میں ہنستا رہا ۔وہ تھوڑا ناراض ہوئے اور بولے آپ کو کس بات پر ہنسی آرہی ہے؟ میں نے کہا ‘اب ہنسنے پر بھی ٹیکس لگوا دو۔وہ بولے :پھر بھی؟میں نے کہا: بھائی جی آپ کا خان صاحب سے ایک رومانس ہے‘ آپ بولتے رہو میں سن رہا ہوں۔وہ بولے: نہیں‘ بات کریں۔ میں نے کہا: آپ سمجھ رہے ہیں کہ خان صاحب کلیم امام کی ایمانداری یا ریپوٹیشن سے متاثر ہوگئے ہیں ‘لہٰذا وہ پوری سندھ حکومت سے ٹکر لینے پر تُل گئے ہیں۔میں نے کہا: ڈارلنگ یہ سب سیاست ہے۔ وہ بولا : اس میں کیا سیاست ہے؟خان صاحب ایک اچھے افسر کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔میں نے کہا:یہی تو سیاست ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کلیم امام کو جلد تبدیل کر دیں گے‘ لیکن اس سے پہلے وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اچھے افسر کو کام نہیں کرنے دیتی‘ مقصد صرف پیپلز پارٹی کو مزید خراب کرنا ہے اور پیپلز پارٹی بڑی خوشی سے وزیراعظم کے ہاتھوں استعمال ہورہی ہے ‘تاکہ مرضی کا آئی جی مل جائے‘ جس سے وہ صوبے میں حکم چلائیں۔ خان صاحب کو علم ہے‘ پیپلز پارٹی پھنس چکی ہے اور وہ کلیم امام کے ساتھ نہیں چل سکتی ‘ لہٰذا وہ ہر قیمت پر نئے آئی جی کے لیے وزیر اعظم کی منتیں کرے گی۔ وہ جو عمران خان کو بات بات پر سلیکٹڈ کے طعنے دیتے تھے ‘ اب انہی کے چرنوں میں بیٹھے ہیں کہ خدارا آئی جی ہماری مرضی کا لگا دیں‘ کیونکہ سندھ میں پولیس کی مدد کے بغیر ان سب کا کاروبار مندا ہوگیا ہے‘ ان کی دکانیں بند ہوگئی ہیں۔
چند دن تک پیپلز پارٹی کو پریشان کرنے اور عوام کو یہ میسج دینے کے بعد کہ عمران خان مزاحمت کررہے ہیں‘ یہ چپکے سے نیا آئی جی سندھ بھیج دیں گے‘ جو سندھ حکومت کی مرضی کا ہوگا۔ اب آئی جی لگوانے کے لیے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ وزیراعظم کا بھاگ بھاگ کر استقبال کررہے ہیں‘ بچھے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کو بھی مزہ آرہا ہے اور پہلی دفعہ انہیں پتہ چل رہا ہے کہ یہ تو بڑے مزے کا کام ہے کہ ایک آئی جی لگوانے کے لیے پوری پیپلز پارٹی لیٹ گئی ہے‘ اس لیے وہ کچھ دن لٹکائیں گے۔ خبروں میں تڑکا لگانے کے لیے آئی جی کلیم امام کو کراچی سے اسلام آباد بلا کر ملاقات کی تصویریں جاری کرائی گئیں ‘ اخبارات کے فرنٹ صفحات پر چھپوائی گئیں اور چینل پر بریکننگ خبریں چلیں کہ وزیراعظم سے آئی جی سندھ کی ملاقات ہوئی اور وزیراعظم نے کہا کہ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی‘ وہ کام جاری رکھیں۔ مطلب یہ کہ پی پی پی کو چند دن ٹی وی شوز میں خراب کیا جائے گا اور یقینا اب پی پی پی کچھ دن پارلیمنٹ میں اچھا سلوک رکھے گی۔ جمعرات سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہواہے تو کوشش کی جائے گی کہ دورانِ اجلاس آئی جی کو نہ ہٹایا جائے تاکہ پیپلز پارٹی پر تلوار لٹکتی رہے۔
وہ دوست بولا: آپ کو وزیراعظم کی نیت پر کیوں شک ہے؟ میں نے کہا :مجھے ان کی نیت نہیں ان کی سیاست پر شک ہے۔ یہ عہدہ بغیر سیاسی چالاکیوں کے آپ کو مل ہی نہیں سکتا‘ اگر اتنا سٹینڈ لینا تھا تو وزیراعظم نے اس وقت کیوں نہ لیا جب انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں سعد خٹک کو سری لنکا میں ہائی کمشنر لگانے سے انکار کر دیا‘ جب پرویز خٹک نے کابینہ کو بتایا کہ وہ ان کے خلاف نوشہرہ میں جلوس نکالتے رہے ہیں۔ چند دن بعد اوپر سے دبائو آیا تو اگلے دن سعد خٹک جہاز پر بیٹھ کر سری لنکا جارہے تھے۔ پوری کابینہ ایک فون کال پر لیٹ گئی اور وہ افسر جو عمران خان اور پرویز خٹک کے خلاف مہنگائی کے خلاف نوشہرہ میں جلوس نکلواتا تھا اسے ہائی کمشنر لگانا ہی پڑا۔ کابینہ کی مرضی کے خلاف سعد خٹک ہائی کمشنر لگ گئے‘ لیکن یہاں کئی دنوں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جناب وزیراعظم ڈٹ گئے ہیں۔ جہاں حکومت کو سعد خٹک کے معاملے پر ڈٹ جانا چاہیے تھا‘ وہاں لیٹ گئی ‘ جبکہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کلیم امام کے معاملے پر کابینہ کھڑی ہوگئی ہے۔ دوسرے‘ میں نے کہا: آپ کو شاید یاد کہ نہیں کلیم امام کو عمران خان نے حکومت ملتے ہی پنجاب سے آئی جی کی پوسٹ سے فارغ کیا تھا۔ عمران خان صاحب اب تک کے پی کے میں چار اور پنجاب میں پانچ آئی جی تبدیل کر چکے ہیں۔ جو بندہ نو آئی جی بدل چکا ہو وہ کلیم امام پر اس لیے سٹینڈ لے گا کہ وہ اچھا افسر ہے؟ میں نے کہا :اچھے افسر کا سن کر ہی آج سیاستدانوں کی جان نکل جاتی ہے۔ شریف ہوں‘ زرداری یا عمران خان‘ سب میں ایک بات مشترک ہے کہ کوئی اچھا افسر اِن کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ اسی لیے پانچ افسران تبدیل ہوچکے ہیں پنجاب میں۔ کلیم امام کو اس لیے بھی عمران خان ہٹائیں گے کہ وہ ایسے افسران کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تاکہ کہیں کلیم امام کو دیکھ کر دیگر افسران بھی حکمرانوں کے غلط کام یا احکامات ماننے سے انکاری نہ ہو جائیں۔ سیاسی حکمرانوں کو ایسے افسران کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر یاد ہو تو بیوروکریسی کو جھکانے کے لیے ایک پالیسی پچھلے سال لائی جارہی تھی کہ فیڈرل سیکرٹری کو تین ماہ کیلئے پوسٹنگ ملے گی اور اگر اس کا ''رویہ‘‘ وزیر کے ساتھ اچھا رہا تو پھر چھ ماہ ملیں گے۔ اب وہی افسر چل سکتا ہے جو ان کے ناجائز کام کرے گا۔ اگر پولیس میں اچھے افسران کی ضرورت اور پولیس ریفارمز کی ضرورت ہوتی تو ناصر درانی کو استعفیٰ نہ دینے دیا جاتا۔ انہی ناصر درانی کو‘ جن کی کارکردگی کو پانچ سال تک کے پی کے پولیس کے نام پر عوام میں بیچا گیا اور اس بنیاد پر پنجاب میں ووٹ بھی پڑے کہ شاید ہمیں بھی کے پی کے جیسی پولیس ملے گی۔ وقت آیا تو درانی صاحب چند ماہ برداشت نہ ہوئے اور انہیں باہر نکال مارا گیا۔
وہ دوست بولا: تو اب کلیم امام کا کیا ہوگا؟ میں نے کہا :کچھ دن میں ہٹا دیا جائے گا اور مرکز میں کوئی عہدہ دے کر ڈمپ کر دیا جائے گا‘ جیسے کبھی طارق کھوسہ جیسے اچھے افسر کو پیپلز پارٹی کے دور میں غلط کام سے انکار پر ڈی جی ایف آئی اے سے ہٹا کر سیکرٹری نارکوٹکس لگایا گیا تھا۔ دوست نے موبائل پر کچھ دیکھا اور بولا :خبر آرہی ہے کہ شاید کلیم امام کو بھی سیکرٹری نارکوٹکس لگایا جا سکتا ہے۔اُس نے کہا: آپ کو کیسے پتہ تھا یہ چند دن کا سیاسی ڈرامہ ہوتا ہے؟ میں نے کہا: کامن سینس کی بات ہے‘ ویسے بھی بائیس برس ہوگئے اسلام آباد میں ایسے سیاسی سٹیج ڈرامے دیکھتے ہوئے۔شریفوں سے لے کر زرداری‘ گیلانی اور عمران خان تک‘ان سب کے سیاسی ڈراموں کا ایک ہی سکرپٹ ہے‘ بس اداکار بدلتے رہتے ہیں۔