کبھی کبھار زندگی حیران کر دیتی ہے۔ عارف انیس ملک سے مل کر بھی یہی احساس ہوا۔ میری ان سے رات گئے یہ ملاقات نہیں ہونی تھی‘ اگرچہ پہلے طے ہوا تھا کہ وہ فروری میں اسلام آباد آئیں گے اور ملاقات ہوگی‘ لیکن ایک رات میسج آیا کہ سوری سائیں لندن جارہا ہوں‘ملاقات نہیں ہو پائے گی۔ پھر اچانک اگلے دن شام ڈھلے میسج ملا ‘کچھ مسئلہ ہوگیا تھا ‘ ائیرپورٹ سے ہی واپس آگئے تھے‘ رات کو فارغ ہوں تو ملتے ہیں۔ملے تو ہنس کر کہا: عجیب دنیا ہے‘ مجھے اس وقت لندن اپنے گھر ہونا چاہیے تھا۔ جہاز کی ٹکٹ‘ سب کچھ کنفرم تھا‘ پھر بھی اسلام آباد ائیرپورٹ سے واپس آنا پڑا‘ شاید آپ سے یہ ملاقات ہونی تھی۔
میری عارف انیس ملک سے فیس بک پر ہی دعا سلام تھی‘ جیسے اور بہت سے دوستوں سے ہے۔ کچھ لوگ کہیں آتے جاتے مل بھی جاتے ہیں‘ لیکن جو بانڈ میں نے عارف انیس ملک کے ساتھ محسوس کیا وہ کم ہی کیا ہوگا۔ وہ ایک سمارٹ‘ ہینڈسم اور ذہین نوجوان ہیں‘ بلکہ میں نے انہیں کہا کہ آپ کو دیکھ کر گورے نہیں دیسی جیمز بانڈکا خیال آتا ہے۔ خیر جب بعد میںباتیں کھلنا شروع ہوئیں تو مجھے سمجھ آئی کہ ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ شاید میں بوڑھا ہو رہا ہوں یا کوئی ذہنی تبدیلیاں محسوس ہو رہی ہیں کہ پچھلے دنوں جن دو تین نئے لوگوں سے ملا‘ یوں لگا جیسے برسوں سے انہیں جانتا ہوں۔وسیم اشرف اور یوسف گل سے ایک آدھ دن قبل ملاقات ہوئی تو بھی یہی محسوس ہوا۔ پہلی ملاقات تھی‘ پھر بھی ایک عجیب سا کمفرٹ لیول محسوس کیا۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہر ایک کے ساتھ پہلی ملاقات میں کھل جاتے ہیں‘ میرے ساتھ ایسا نہیں ہے‘ مجھے کسی کے ساتھ کمفرٹ لیول محسوس کرنے کیلئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے‘لیکن کچھ لوگ ایسے مل جاتے ہیں کہ آپ اپنا کمفرٹ بھول جاتے ہیں۔ وسیم اشرف‘ یوسف گل‘ مجاہد خٹک اور میرے ساتھ یہی ہوا ‘ لمبی گپ لگی اور کہیں نہ لگا کہ ہم اجنبی ہیں۔ وسیم اشرف وہ خوبصورت نوجوان ہے جس نے میرے کالموں اور انگریزی خبروں کی ویب سائٹ بارہ سال پہلے بنا کر اس پر میرے سب کالمز اکٹھے کر دیے تھے۔ اب برسوں بعد مجھے کسی کام کے سلسلے میں اس کی ضرورت پڑی تو اس نے یوسف گل سے ملوایا۔ یوں لگا جیسے ان سے پرانا تعلق ہے۔یہی احساسات میں نے اس وقت محسوس کیے جب میری پہلی ملاقات عارف انیس ملک سے اسلام آباد میں رات بارہ بجے ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی اور تقریباً دو بجے تک چلی۔ ہم دونوں کے درمیان کئی باتیں‘ لوگ ‘ شہر اور جگہیں مشترک تھیں۔ میں خود بھی ان کی خوبصورت تحریریں پڑھ کر ان سے ملنے کا اشتیاق رکھتا تھا۔ ان کے بارے میں زیادہ پتہ اس وقت چلا جب ان کی نئی کتاب گوروں کے دیس میں ان کا پورا تعارف پڑھا۔ مجھے احساس ہوا کہ ان کے ساتھ کچھ بہت پرانا ہے۔ ایک تو لندن بھی مشترکہ لو افیئر ہوسکتا ہے ‘پھر وہ پیدا تو سون سکیسر میں ہوئے ‘ لیکن بارہ سال کی عمر میں و الدین کے ساتھ ملتان شفٹ ہوگئے تھے‘وہیں پلے بڑھے۔ میںانیس بیس برس کی عمر میں یونیورسٹی گیا اور ملتان سے پیارہوگیا۔ ملتانی دوستوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ میری بیوی کو بھی ملتان بہت پسند ہے۔ دو تین سال پہلے تک وہ اصرار کرتی تھی کہ ملتان میں ہی گھر بنائیں اور وہیں جا کررہیں؟ ملتان میں اپنا بہت کچھ رکھا ہے۔ ملتان جائوں تو کئی راستوں سے گزرتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ ملتان پورے آٹھ برس رہا‘ زندگی کا مشکل دور وہیں گزارا تو ملتانی دوستوں نے بہت پیار دیا۔ ملتان جب شکیل انجم کے گھر ٹھہرتا ہوں تو یادوں کا ریلا ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا کبھی اسی ملتان میں آٹھ برس گزارے تھے۔
عارف انیس ملک کے ساتھ ملتان کو یاد کرتے ہوئے وہی کیفیت طاری ہوئی۔ عارف انیس ملک بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں مجھ سے ایم اے میں دو سال جونیئرنکلے۔ ڈیپارٹمنٹ کا ذکر ہوا تو استادوں کی بات چل نکلی۔ عارف‘ جو احمد ندیم قاسمی کے خاندان میں سے ہیں‘ ہنس کر بتانے لگے کہ پہلے دن وہ ڈیپارٹمنٹ کلاس پڑھنے گئے تو سر پر ایک روایتی پگ اور کندھے پر ایک شکاری باز تھا۔ پوری کلاس حیران کہ یہ کون کہاں سے آگیا ہے۔ لیکچر کے بعد پروفیسر ظفراقبال نے کمرے میں بلا کر کچھ سمجھایا کہ سرکار کچھ حلیہ بدلیں۔ مجھے عارف کی باتیں سن کر میانوالی کا کلاس فیلو دوست شعیب بٹھل یاد آرہا تھا جس سے میری ملاقات اور دوستی پہلے دن سے ہی ہوگئی تھی‘ جو تیس سال بعد بھی قائم ہے۔ عارف بتانے لگا کہ اس کی شعیب سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے کچھ استادوں کا پوچھا تو پتہ چلا کہ عارف بھی انہی سے پڑھا ہے۔ میں نے کہا: ویسے تو سارے اچھے استاد تھے‘ لیکن دو تین ایسے استاد ہوتے ہیں جو ساری عمر آپ کو یاد رہتے ہیں۔ پروفیسر شیریں زبیر‘ پروفیسر ظفراقبال یا پروفیسر شمس صاحب‘ لیکن میڈیم مبینہ طلعت اور پروفیسر مظہر کاظمی ایسے استاد تھے جو تیس برس بعد بھی ذہن اور دل سے نہیں اترتے۔ پروفیسر شیریں زبیر جتنی محنت سے ہمیں لٹریچر کی کلاس پڑھاتی تھیں وہ اپنی جگہ ایک خوبصورت تجربہ تھا جو ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔جب ہم انگریزی لٹریچرکے طالب علموں نے پروفیسر مظہر سعید کاظمی کو دیکھا تو سب نے کہا: لو جی مارے گئے ‘باریش اور ملتان کی بڑی مذہبی شخصیت کے صاحبزادے۔ ہم نے کہا: اب تو سختیاں ہوں گی‘ لیکن یقین کریں مظہر سعید جس انداز میں ہمیں انگریزی لٹریچر پڑھاتے تھے وہ کبھی ذہن اور دل سے نہیں مٹتا۔ لیہ کالج میں بی اے میں انگریزی ادب غلام محمد صاحب سے پڑھنا نہیں بھولتا تو ملتان میں مظہر سعید کاظمی صاحب سے۔ کاظمی صاحب کی واحد کلاس تھی جس سے کوئی طالبعلم چھٹی نہیں کرتا تھا۔ ان کے پڑھانے کا دلکش انداز دلوں میں اترتا اور دل کرتا وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں اور لٹریچر کی یہ کلاس کبھی ختم نہ ہو۔ ہر استاد کے پاس طالب علم کے پانچ نمبر بڑھانے یا کم کرنے کی پاورز تھیں۔ آپ کو کاظمی صاحب کی منت ترلے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ سب کو نمبر دیتے۔ شمس صاحب اور ظفراقبال کے لیے آپ کو مختلف حربے اختیار کرنے پڑتے‘ میڈیم شیریں بھی بغیر حیل و حجت نمبر دے دیتیں۔ ان جیسی محنت اور تیاری کے ساتھ لٹریچر کلاس پڑھاتے بھی کم دیکھا۔
عارف انیس سے یونیورسٹی کی یادیں شیئر کرتے یاد آیا کہ پہلے سال یونیورسٹی میں سالانہ امتحان سے دو ہفتے پہلے ابوبکر ہال کے باہر سڑک پر ایک موٹرسائیکل مجھ سے ٹکرائی ( یا میں اس سے ٹکرایا) اور زخمی ہوا۔ اسی حالت میں پیپرز کی تیاری کی۔ باقی سب پاس ہوگئے لیکن شاعری کے پیپر میں مسئلہ ہوگیا ‘جو میڈیم مبینہ طلعت پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے مجھے دفتر بلایا اور میرا پیپر ‘جو ایکسٹرنل نے مارکنگ کر کے بھیجا تھا‘ سامنے رکھا۔اس میں میرے 28نمبرز تھے‘ مطلب میں فیل تھا۔ وہ بولیں: میں پانچ نمبر دے کر تمہیں پاس کر دیتی ہوں لیکن ایک مشورہ دوں؟ کہتے ہو تو پاس ہوجائو‘ لیکن پھر تمہاری سیکنڈ ڈویژن نہیں بنے گی۔ ساری عمرتھرڈ ڈویژن لے کر پھرو گے‘نوکری تک نہیں ملے گی۔ بہتر ہے یہ پرچہ دوبارہ دو۔ میں نے کہا: جو آپ مناسب سمجھیں۔ کہنے لگیں: کل سے تم میرے گھر آئو گے اور اس پیپر کی تیاری میں کرائوں گی۔ میں تین ماہ ان کے گھر جاتا رہا‘کچھ اور طالب علم بھی وہاں پڑھنے آتے تھے۔ تین ماہ بعد انہیں تین ماہ کی اکٹھی فیس دی تو وہ ہنس پڑیں اور کہا: رئوف تمہارا خیال ہے میں نے تمہیں اس لیے فیل کیا تھا کہ تمہیں ٹیوشن پڑھائوں اور فیس بٹوروں۔ کوئی فیس نہیں ہے۔ میں نے کہا :میڈیم دوسرے لڑکوں سے تو آپ لیتی ہیں۔ وہ مسکرا کر بولیں: وہ دوسرے اداروں میں پڑھتے ہیں‘ تم میرے سٹوڈنٹ ہو‘ تم میرے پرچے میں فیل ہو ئے تو تمہیں پڑھا کر پاس کرانا میری ذمہ داری ہے۔ اس پرچے میں میں نے 58/100 مارکس لیے جو میری سیکنڈ ڈویژن کا سبب بنے۔
اسلام آباد کی گہری سرد رات میں گوروں کے دیس سے آئے عارف انیس اور میں گھنٹوں باتیں کرتے رہے‘ کئی باتوں پر ہنستے‘ کچھ پر اداس تو کچھ پر حیران ہوتے رہے۔ ہم دونوں پہلی دفعہ ملے تھے‘ لیکن کیوں لگ رہا تھا کہ دونوں میں بہت کچھ سانجھا اور پرانا ہے۔ جسے اپنے تئیں اس وقت لندن ہونا چاہیے تھا ‘وہ رات گئے اسلام آباد میں مجھ سے گپیں لگا رہا تھا۔کیا زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے؟