لاہور کے علاقے اسلام پورہ میں اپنے دوست فصیح الرحمن خان مرحوم کا گھر ڈھونڈنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ میں نے اپنے عزیز قسورکلاسرا سے فصیح الرحمن کے گھر کا ایڈریس لیا تھا لیکن اس ٹریفک ہنگامے میں پتہ نہیں چل رہا تھا۔ رانا اشرف گاڑی روک کر دو تین دکانداروں سے بھی پوچھ چکا تھا۔ آخر ایک سنار نے اپنے ملازم کو ہمارے ساتھ بھیجا جو اس گھر کے سامنے چھوڑ گیا جہاں اب فصیح کی بیوہ اور بچے رہ رہے تھے۔ اس لڑکے سے پتہ چلا کہ یہ فصیح کے سسر کا گھر تھا جہاں اب بیوہ بیٹی اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی۔
فصیح کا بیٹا باہر نکلا تو مجھے لگا کہ فصیح دوبارہ میرے سامنے آن کھڑا ہواہے۔ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔اس بچے سے کیسے تعزیت کی جا سکے گی جو اس وقت باپ کو کھو بیٹھا تھا جب اسے زندگی میں باپ کی ضرورت تھی۔ ایک بیٹے سے باپ کی تعزیت کرنا ایسا کام لگ رہا تھا جس کے لیے گھنٹوں سے خود کو تیار کررہا تھا۔ لیہ گائوں میں نعیم بھائی کی برسی سے فارغ ہوکر چھ سات گھنٹے ڈرائیو کے بعد لاہور پہنچا تھاکہ فصیح کے بچوں سے ملتا جائوں۔ اپنے بچوں کو فصیح کے بچوں کی جگہ رکھ کر دل مزید دکھی ہوتا رہا۔ مجھے خوبصورت اداکار کینو ریو یاد آیا‘ جب اس سے پوچھا گیا کہ مرنے سے ڈر لگتا ہے؟اُس نے کہا: مجھے ایک بات کا پتہ ہے کہ جب ہم مریں گے تو وہ لوگ جو ہم سے محبت کرتے ہیں ہمیں بہت مس کریں گے۔مجھے اکثر یہ بات اداس کر دیتی ہے کہ جیسے ہم اپنے پیاروں کی یاد میں اداس رہتے ہیں ایسے ہی ہمارے جانے کے بعد وہ بھی رہیں گے جو ہم سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے پیاروں کی اداسی اور دکھ کا تصور ہی مجھے شدید اداس کردیتا ہے۔ میں حیران ہوتا کہ میں ایسا کیوں سوچتا ہوں؟ کینوریو کے جواب نے میری نفسیاتی اور جذباتی گتھی سلجھائی کہ سب ایسے ہی اپنے پیچھے رہ جانے والے پیاروں کے بارے یہ سوچ کر تکلیف کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے بچے‘ بہن بھائی‘ ماں باپ اور پیارے دکھی ہوں گے۔
فصیح الرحمن کا دراز قد ماشاء اللہ خوبصورت بیٹا عبداللہ خالی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ برسوں پہلے فصیح الرحمن جب لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوا تھا تو اسے بیوی بچوں سمیت اپنے گھر کھانے کی دعوت دی تھی۔ تب عبداللہ بہت چھوٹا سا تھا۔ پھر جب فصیح الرحمن کے ماں باپ کی ڈیتھ ہوئی اور اس کے گھر تعزیت کے لیے گیا تھا تو بھی عبداللہ اور اس کا بھائی چھوٹے تھے۔ فصیح کے بیٹے کو دیکھ کر یاد آیا ‘ایک دفعہ اکبر بادشاہ نے اپنے ذہین وزیر بیربل سے پوچھا تھا کسی مرد کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ کون سا ہوتا ہے؟ بیربل نے جواب دیا: شہنشاہ! جب کسی کا جوان بیٹا باپ کی چھاتی سے ٹکراتا ہے ۔ یہ سب خیالات ایک لمحے کے لیے اس گلی میں کھڑے کھڑے میرے ذہن میں آئے۔
عبداللہ بولا ‘انکل اوپر آ جائیں۔ سیڑھیاں چڑھتے اندر ایک ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ ایک ہنستا بستا گھر ایک لمحے میں بدل گیا تھا۔ فصیح کے سسر اور دیگر سے تعزیت کرتے وقت احساس ہوا کہ باپ کے جانے سے بچوں کی زندگی کس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بچے اسلام آباد پلے بڑھے اور پڑھے۔ اب اسلام آباد چھوڑ کر واپس لاہور ان تنگ گلیوں میں لوٹنا تھا‘ جہاں اگرچہ خدا کا شکر ہے‘ ان کا نانا اپنی بیوہ بیٹی اور اس کے بچوں کو اپنے گھر کی چھت تلے رکھنے کو تیار تھا۔ اب ان بچوں کو اسلام آباد‘ کرائے کا گھر‘ سکول‘سکول کے دوست‘ سترہ اٹھارہ سال سے جس جگہ کو وہ اپنا سمجھتے تھے‘ سب چھوڑنا تھا۔ اکیلا فصیح ہی کماتا تھا اور اب کمانے والا نہیں رہا تو بیوہ کے پاس بچوں سمیت باپ کے گھر واپسی کا ہی راستہ بچا تھا۔ بچوں پر جہاں اپنے باپ کی اچانک جدائی کے نفسیاتی اور جذباتی اثرات ہوں گے وہاں ان کے لیے ایک بڑا کلچرل شاک بھی منتظر تھا کہ وہ اسلام آبادجیسے شہر کو چھوڑ کر نانا کے گھر ان تنگ گلیوں اور شورشرابے سے بھرے بازار کے عین وسط میں رہیں گے۔ لیکن اب بھی شکر کہ نانا بڑے حوصلے سے یتیم نواسوں کو دل سے لگانے کو تیار تھا۔ فصیح کے بچوں سے تعزیت کرنا زندگی کے مشکل لمحوں میں سے ایک تھا۔ ان بچوں کو کیا کہا جائے‘کیا تسلی دی جائے۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسی زندگی پڑی تھی اور چند دن بعد ہم سب بھول جائیں گے کہ فصیح کے بچوں کا کیا بنا۔ عبداللہ بتا رہا تھا کہ کیسے بابا کچھ عرصے سے بیروزگار تھے۔ ادھر اُدھر کسی کے لیے رپورٹنگ کر لی لیکن مستقل کچھ نہ تھا۔ لیکن گھر کبھی بچوں سے کچھ شیئر نہ کیا کہ وہ کس مشکل سے گزر رہا تھا۔ دو ٹی وی چینلز نے ان کی تنخواہیں نہ دیں تو گھر میں مشکلات بڑھ گئیں۔ جوان ہوتے بچے اور ان کے بڑھتے اخراجات نے ایک باپ کو شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنا دیا تھااور میں ایک صبح اٹھا تو قسور کا میسج تھا کہ فصیح الرحمن کی رات ہارٹ اٹیک سے ڈیتھ ہوگئی تھی۔کتنی دیرتک اس میسج کو خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ بس اتنی سی زندگی ہے جس پر سب اتراتے پھرتے ہیں۔
یاد آیا کہ فصیح سے پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی تھی جہاں ہم 2002ء میں ایک ٹی وی چینل کے لانچ سے پہلے تربیت لے رہے تھے۔ فصیح کے علاوہ حامد میر‘ مظہر عباس‘احمد ولید‘ طاہر ملک‘ آصف بھٹی‘ اسد ساہی‘ منظر الٰہی‘ عاصمہ شیرازی اور بہت سے پروفیشنل وہیں ملے۔سارا دن کام اور شام کو بیچ لگژری ہوٹل میں ولید‘ طاہر ملک‘ فصیح‘ اسد ساہی اور منظر الٰہی کے ساتھ دھماچوکڑی اور لاہوری دوستوں کی کمال جگت بازی اور حس ِمزاح۔ فصیح اور احمد ولید نیوز لاہور میں رپورٹرز تھے اور میں اسلام آباد میں۔ فصیح کچھ عرصے بعد لاہور سے اسلام آباد آگیا۔ فصیح نے مذاق میں میرا نک نیم ''سرائیکی ریڈکلف ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ جب بھی دوست ملتے تو فصیح کہتا: جس دن سرائیکی صوبہ بننا ہے اس دن پنجاب کی بائونڈریز کی تقسیم کا کام ہمارے دوست رئوف نے کرنا ہے۔ فصیح نک نیم کمال کے رکھتا تھا۔ ہمارے ایک اور دوست شفیق اعوان کا نام ''ڈیڈی‘‘رکھا ہوا تھا کہ اس نے فصیح کو جرنلزم میں مدد دی تھی۔ فصیح جتنا لکی تھا اتنا بدنصیب بھی۔ فصیح کی انگریزی اخبار میں پارلیمنٹ ڈائری میں اپنا ذکر کرانے کے لیے بڑے بڑے حکمران اور سیاستدان خواہشمند ہوتے۔ دوست اس سے پیار کرتے اور جس کا جہاں ہاتھ لگا فصیح کو اچھی پوزیشن پر جگہ دلوائی کیونکہ فصیح جیسی سمجھ بوجھ والے کم سیاسی رپورٹر تھے۔ انگریزی اخبار کے لیے پارلیمنٹ ڈائری شروع کی تو یقین کریں شاہین صہبائی‘ عامر متین‘ ضیاالدین اور نصرت جاوید کے بعد کسی کو داد دی جا سکتی ہے تو وہ فصیح تھا۔ فصیح کو انگریزی زبان و بیان پر جو کمانڈ تھی وہ انگریزی جرنلزم میں کم رپورٹرز کو ہوگی۔ مجھے فصیح کی انگریزی کی سیاسی vocabulary پر رشک آتا۔ بڑا اسے کہا کہ اخبار کو نہ چھوڑنا۔ عامر متین اکثر فصیح کو کہتے کہ مشورہ مانگتے ہو لیکن کرتے مرضی ہو جس سے مشکلات میں گھرے رہتے ہو۔ لیکن کیا کرتا اس کے پائوں میں چکر تھا۔ فصیح نے اچھے اچھے میڈیا ہاؤسز میں بیوروچیف کے عہدوں پر کام کیا‘ لیکن ایک جگہ ٹک نہ سکا۔ میڈیا بحران تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور ایک بہترین جرنلسٹ جان سے گیا۔ فصیح کے بچوں سے باتیں کرتے احساس ہوا کہ فصیح ان کیلئے کچھ زیادہ نہیں چھوڑ گیا تھا۔ سوچا اسلام آباد کلب کے افضل بٹ‘ طارق چوہدری‘ شکیل انجم‘ شکیل قراراور دیگر کرتا دھرتائوں کو کہوں‘ ایسے دوستوں کے بچوں کو یوں اکیلا نہ چھوڑ یں۔ فصیح ان صحافیوں کی نسل میں سے تھا جنہوں نے جرنلزم سے جائیدادیں یا مال نہیں بنایا۔ ایک عزت نفس رکھنے والا انسان جو مشکل میں رہا لیکن دوستوں کو کبھی نہ کہا۔
رات گئے لاہور سے اسلام آباد واپسی کے سفر میں ٹی وی چینل کے مالک کو میسج کیا کہ اگر فصیح کے بچوں کو ان کے باپ کی رکی ہوئی تنخواہیں مل جائیں تو وہ بچے لاہور میں نئے سکول میں داخلے کی فیسیں دے پائیں؟شکریہ کہ میسج کا جواب دیا گیا کہ وہ ابھی پتہ کرتے ہیں کہ ادارے نے کتنا ان کا دینا ہے۔ سوچ رہا ہوں ایک میسج دوسرے ٹی وی چینل کے مالک کو بھی کروں کہ انہوں نے بھی فصیح کی تنخواہیں نہیں دیں۔
ہم صحافی ملک‘ معاشرے کے سدھار اور دوسروں کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور ایک دن جب ہم اچانک مرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے ہمارے بچوں کے سکول کی فیسیں اور سر پر اپنی چھت تک نہیں ۔
اب نیلا آسمان اور آسمان والا ہی ان کی اکلوتی چھتری تھا!