میرا امریکہ چودہ ماہ بعد آنا ہوا ہے۔
طویل سفر سے جان جاتی ہے۔ ایک سست انسان کی طرح دل چاہتا ہے بس گھر پڑا رہوں‘ بستر ہو‘ بہت سی کتابیں ہوں‘فلمیں ہوں‘ دال پکی ہو‘ کھا کر سو جائوں۔
لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ آنا پڑا۔ آنے کی وجہ ابھی بتاتا ہوں‘ لیکن امریکہ جب بھی آتا ہوں ڈاکٹر ظفر الطاف ضرور یاد آتے ہیں۔ ان کی زندگی کا بڑا پچھتاوا امریکہ سے جڑا ہوا تھا۔صفدر عباس بھائی ہوں ‘ شعیب بٹھل یا دنیا ٹی وی لندن کے انچارج اظہر جاوید‘ ناراض ہوتے ہیں کہ انہیں بھول گیا ہوں۔تین چار برس گزر گئے‘ لندن نہیں گیا۔ امریکہ میں دوستوں کی ایسی کشش ہے جس نے لندن جیسا خوبصورت شہر بھلا دیا۔دوستوں کی فہرست اکبر چوہدری‘ ڈاکٹر عاصم صہبائی ‘ ڈاکٹر احتشام قریشی‘ زبیر بھائی‘ عارف سونی‘ مشتاق جاوید سے ملتانی دوست روشن ملک اوراعجاز بھائی تک پھیلی ہوئی ہے۔ امریکہ آنا ترجیحات میں شامل نہ تھا‘ پائوں کا چکر پھر بھی کھینچ لایا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکن ائیرپورٹس پر تلاشی اور انکوائری کے نام پر جو باتیں سامنے آتیں تو رہا سہا شوق بھی جاتا رہا۔ اب کون چوبیس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ائیرپورٹ پر سخت سوالوں کے جواب دے‘ امیگریشن عملے کو مطمئن کرے کہ وہ یہاں کسی غلط مقصد سے نہیں آیا۔ تھکا ہاراانسان‘ نیند سے بُراحال‘اب کیا بتائے کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ اگرآپ کے نام سے ملتا جلتا کوئی بندہ پہلے شک پر سسٹم میں موجودہے تو پھر آپ گئے کام سے۔ مجھے ایسے موقعوں پر سرائیکی مثال یادآتی ''اپنڑی عزت اپنڑے ہتھ اچ اے‘‘لہٰذا کوشش کی‘ جتنی عزت سنبھالی جاسکتی ہے اور جتنی اپنے ہاتھ میں ہے اسے تو سنبھالنے کی کوشش کروں۔اس لیے کوشش کرتا رہا کہ امریکہ نہ ہی جانا پڑے اور نہ تلاشیاں دینی پڑیں۔
بہاولپور میں نعیم بھائی کے پاس جاتا اور وہ مریضوں کو چیک کررہے ہوتے تو اندر نہ گھس جاتا کہ بھائی بیٹھا ہے‘ سٹاف کو چٹ پر نام لکھ کر دیتا ‘تو وہ حیران ہوتے کہ آپ بھائی ہو کر چٹ بھیجتے ہیں۔برسوں بعد ڈاکٹر ظفرا لطاف سے پہلی دفعہ ملنے گیا تو ان کے پی ایس انور کو چٹ دی‘ اُس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: میرا نام ‘صحافی ہوں‘ایک رپورٹ پر کام کررہا ہوں‘ ڈاکٹر صاحب فیڈرل سیکرٹری ہیں۔ وہ بولا: سرکار یہ اکبر بادشاہ کا دربار ہے‘ یہاں سب برابر ہیں‘ یہاں کوئی چٹ نہیں چاہیے۔ وہ ساتھ والا دفتر ہے‘ اندر چلے جائیں۔ میں حیران ہوا کہ ایک بڑا بیوروکریٹ ‘ بڑا نام اور کوئی ہٹو بچو نہیں ‘ گھنٹوں تک لوگوں کو انتظار کرانے کی عادت نہیں۔ میں نے بے یقینی سے انور کو دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر وہ چٹ مجھے واپس کر دی۔ میں نے ضد کی کہ مہربانی کریں چٹ دے دیں‘ اچھا نہیں لگتا کہ بندہ پہلی دفعہ مل رہا ہو اور بغیر کسی سلام دعا کے اندر آفس میں گھس جائے۔انور بولا :سرکار پھر بیٹھے رہیں‘ اور میں سوچتا رہا کہ اندر جائوں اور فیڈرل سیکرٹری نے ایک اجنبی چہرہ دیکھ کر پوچھ لیا‘ بھائی کدھر اور کہاں... تمہیں اندر گھسنے کی اجازت کس نے دی؟ کس سے پوچھا؟چلیں باہر جا کر انتظار کریں‘ تو شاید ساری عمر اس بے عزتی کے احساس سے شرمندہ رہوں۔
انور کو مجھ پر ترس آیا اور پھر کہا : سرکار اندر چلے جائیں۔ میں بھی ضد پر قائم رہا کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کو اپنی ساکھ اور عزت بنانے کے لیے برسوں لگ جاتے ہیں اور عزت کا جنازہ ایک لمحے میں نکل جاتا ہے۔ ساری عمر اسی ڈر اور خوف میں گزری۔ اتنی دیر میں انور کے دفتر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر ظفر الطاف کی نظر پہلے انور پراور پھر مجھ پر پڑی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی عینک کے اوپر سے مجھے دیکھااور کہا :بھائی جان کدھر ؟ آ جائو لنچ کرتے ہیں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کسی اور کو لنچ کے لیے بلا رہے ہیں۔ انور نے فوراً کہا: آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں ہکا بکا باہر نکلا تو دیکھا کہ ان کے پیچھے دس بارہ بندے اور تھے۔ ارشاد بھٹی سے بھی وہیں پہلی دفعہ ملاقات ہوئی۔ بھٹی کی جگتیں اور لطیفے وہ بہت انجوائے کرتے۔
خیر وہ سب کو لنچ پر لے کر جارہے تھے۔ میں نے اس ہجوم میں پیچھے چھپنے کی کوشش کی کہ ان میں سے میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ سب کوٹ ٹائیاں پہنے معززین اور میں ان کے درمیان ایک ایسے پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا جو اپنا راستہ بھول کر آسمان پر اُڑتے ساتھیوں سے بچھڑ کر کسی اجنبی قبیلے میں جا گھسا ہو۔ اچانک ڈاکٹر صاحب نے ادھر ادھر دیکھا تو مجھے اپنے ساتھ نہ پا کر مڑ کر بولے: او بھائی کدھر ہو؟ میں گھبرا کر آگے بڑھا۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ ان سے مل رہا تھا‘ لیکن لگ رہا تھا جیسے مجھے برسوں سے جانتے ہوں۔ ان کا کھلا ڈلا سٹائل‘ عام سے کپڑے‘ عام سے جوتے اور ہنستے مسکراتے‘ زور زور سے قہقہے لگاتے وہ سب کو لنچ پر لے گئے۔ آنے والے برسوں میں پتہ چلا کہ وہ اکیلے کھانا کھا ہی نہیں سکتے تھے۔ جب لنچ کا وقت ہوتا تو دفتر میں جتنے لوگ موجود ہوتے‘ چاہے کوئی جان پہچان ہے یا نہیں‘ سب کو ساتھ لیتے۔ اپنے دفتر سے نکلتے تو اپنے پی ایس انور کے دفتر کا دروازہ کھولتے اور جس پر نظر پڑتی اسے بھی ساتھ لے لیتے۔ ایک پورا ہجوم ان کے ساتھ ہوتا۔ چند افسران اور ایک آدھ ہائی پروفائل دوست ناک بھوں چڑھاتے کہ یہ کیا ہر ایرے غیرے کو لنچ پر ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے کبھی پروا نہ کی۔
وہ واقعی اکبر بادشاہ تھے‘ جن کے دربار میں سب برابر تھے۔ ان کے اندر ایک رحم دل اور سخی بادشاہ کی روح تھی‘ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔مغل بادشاہوں کا پسندیدہ شہر۔ ایک دفعہ ایک اور اچھے بیوروکریٹ احمد نواز سکھیرا صاحب سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا: وہ نسل تیزی سے ختم ہوگئی ہے جو کتاب پڑھتی تھی‘ حکمرانوں کے سامنے غلط کو غلط کہتی تھی‘ فائل پر لکھ دیتی تھی کہ وہ یہ کام کن وجوہ کی وجہ سے نہیں کرسکتے۔ میں نے کہا: سکھیرا صاحب ‘ڈاکٹر صاحب سے ان برسوں کی رفاقت کا یہ نقصان ہوا کہ پھر کسی بیوروکریٹ سے تعلق نہ بن سکا۔ ایک معیار بن گیا کہ افسر ہو تو ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا ۔ اب بھلا ہمیں کیا معلوم تھا کہ ڈاکٹر ظفر جیسے maverick ایک ہی دفعہ پیدا ہوتے ہیں۔ جو زندگی اپنی مرضی اور اپنی شرائط پر گزارتے ہوں‘ چاہے ان پر 32 مقدمات ہی کیوں نہ قائم ہوں۔ تمام تر دبائو کے باوجود اپنے آپ کو خطرات میں ڈال کر عام لوگوں کے کام کریں۔ پتہ ہونے کے باوجود دوستوں کی چالاکیوں اور دھوکوں پر افسردہ نہ ہوں۔ کتنوں نے ان کی اس خوبصورت طبیعت کافائدہ اٹھایا۔ ایک دفعہ ایک افسر نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے آپ بھی ایک فائل کلیئر کروا دیں‘ قسمت بدل جائے گی‘ آپ کو تو'ناں‘ بھی نہیں کریں گے‘ کتنوں نے ان سے ایسے ہی کام نکلوا ئے ہیں۔ میں نے ہنس کر جواب دیا : کل کو جب ڈاکٹر صاحب ایسے دوستوں کی لسٹ بنائیں گے کہ کس کس نے دھوکا دیا‘ ان کے نام پر کچھ کما لیا‘ اس فہرست میں میرا نام نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سب پر بھروسا کرتے ہیں اور ہمارے ہاں دوسرے کے بھروسے کو قتل کرنے والا خود کو بہت چالاک سمجھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کئی دفعہ دوستوں سے ڈسے گئے۔ ایک دفعہ میرا بھانجا منصور پی اے آر سی میں نوکری کے لیے ریفرنس میں میرا نام دے آیا۔ اس کی مہربانی کہ بتا دیا۔ میں نے کہا: جگر واپس جائو‘ درخواست اُٹھا لو۔ میرا ریفرنس پڑھ کر وہ تمہیں نوکری دے دیں گے۔ میں ان کامزاج جانتا ہوں‘ وہ دوستوں کے لیے رولز کی پروانہیں کرتے۔مگر کل کو مسئلہ بنے گا‘ اورمیری وجہ سے انہیں تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ منصور کی مہربانی ‘وہ درخواست واپس لے آیا۔
امریکہ میں یاد آیا کہ ایک دفعہ ان سے پوچھا: زندگی میں کوئی پچھتاوا بھی ہے؟ بولے ہاں ایک ہے۔ ایک دفعہ امریکہ تھا اور میرے پسندیدہ ادیب کا ایک مکمل آرکائیو سیٹ دو ہزار ڈالرز میں مل رہا تھا اور میری جیب میں صرف آٹھ سو ڈالر تھے۔ آج تک پچھتا وا ہے کہ جیب میں پیسے نہیں تھے۔جب بھی یہاں آئوں ڈاکٹر ظفر الطاف کا وہ پچھتاوا ضرور یاد آتا ہے کہ عمر بھر کہتے رہے کہ یار کیا نایاب سیٹ ہاتھ سے نکل گیا۔ بعد میں بڑا ڈھونڈا لیکن کہیں نہ ملا۔
ڈاکٹر صاحب کی یاد میں آپ کو بتانا ہی بھول گیا کہ مجھے اچانک امریکہ کیوں آنا پڑا۔ اچانک اور ایک تکلیف دہ سفر ؟