لاکھوں کروڑں لوگوں کا حاکم بن بیٹھنا بہت بڑا فن ہے۔ یہ کام ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر ایک بندہ کسی ملک کا سربراہ بن جاتا ہے تو سمجھ لیں وہ غیرمعمولی ہے۔آج کے دور میں بادشاہتیں تو رہی نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا ہی بادشاہ بنے یا اس کا پوتا اور یوں بیٹھے بٹھائے بادشاہت مل جائے ‘ لہٰذا اس فن کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔بادشاہ بننا خیر اُس وقت بھی آسان نہ تھا‘ جان دائو پر لگانی پڑتی تھی‘ اپنوں کا لہو بہانا پڑتا تھا۔ شہزادہ سلیم (جو بعد میں جہانگیر کے نام سے بادشاہ بنا )کی طرح باپ اکبر سے جنگ کرنا پڑتی تھی۔جہانگیر نے اپنے ایک بیٹے خسرو مرزا کا بغاوت پر سر قلم کروایا۔ باغی بیٹے کو پکڑ کر باپ کے دربار میںلایا گیا تو بیٹے نے جان بخشی کی درخواست کی تو جہانگیر نے مسترد کر دی۔ بیٹا بولا: ابا حضور آپ کو بھی تو دادا جان نے بغاوت پر معاف کر دیا تھا۔ روایت کے مطابق‘ جہانگیر نے تاریخی جواب دیا تھا کہ آج اس تخت پر بیٹھ کر احساس ہورہا ہے کہ آپ کے دادا جان نے بالکل غلط کیا تھا‘ انہیں مجھے معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں کو بھی باپ کی روایت پر چلتے ہوئے بادشاہ بننے کے لیے خونی رشتہ داروں کے سر قلم کرنا پڑے۔جو کچھ شاہ جہاں کے بیٹوں اورنگزیب‘ داراشکوہ‘ مراد اور شجاع نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا وہ تو سب جانتے ہیں۔ ہم شاہ جہاں کو مظلوم سمجھتے ہیں‘ کیونکہ اس کے بیٹے اورنگزیب نے باپ کو قید کر کے او بھائیوں کو قتل کر کے ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کیاتھا‘مگر یہ نہیں جانتے کہ شاہ جہاں نے بھی بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہی لی تھی۔ اورنگزیب نے اپنے باپ سے جو کچھ سیکھا تھا ‘وہی اُس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا۔ جو کچھ شاہ جہاں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا وہی اورنگزیب نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا۔ شاہ جہاں نے اپنے باپ کو قتل کر کے اقتدار نہیں لیا تھا ‘لہٰذا اورنگزیب نے بھی باپ کو قتل نہیں کیا۔ وہ گھر میں جو دستور دیکھتا چلا آیا تھا وہی اس نے بڑے ہوکر کیا۔
ان مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جب بادشاہت عروج پر تھی اس وقت بھی آپ کو بادشاہ بننے کے لیے اقتدار پرست ‘ بے دید اور بے رحم ہونا پڑتا تھا‘ ورنہ آپ کے بھائی یا بیٹے کی جگہ آپ کا سر نیزے پر لٹکا ہوا پایا جاتا۔ انگریزوں کو ہم لاکھ برا کہیں‘ انہوں نے ایک بڑا کام کیا کہ ہندوستان میں اقتدار کی تبدیلی کا ایک طریقہ کار دے دیا جس سے بغیر انسانی لہو بہائے حکمران چنے جا سکتے تھے۔بہادر شاہ ظفر آخری بادشاہ تھا۔ اگرچہ وہ ایک انسان دوست بادشاہ تھا‘ وہ اپنے بزرگوں کی طرح نہیں نکلا‘ لہٰذا سلطنت کھو بیٹھا۔ وہ ایک شاعر تھا جو دلی میں غالب‘ ذوق اور مومن کی کمپنی میں مست رہا۔ شاعروں کے جھگڑے نمٹاتا یا ان سے اپنی شاعری کی تصیح کراتا۔ وہ بادشاہی اور بادشاہت کے تقاضوں سے بہت دور تھا۔ شاہی روایات اور حالات نے اسے بادشاہ بنا دیا تھا۔بہادر شاہ ظفر تو ایسا باشاہ تھا کہ انگریزوں نے دلی سے گوالے اور ان کی بھینسیں باہربھیج دیں تاکہ شہر میں تعفن نہ پھیلے ‘ اس پر گوالوں نے محل کے باہر احتجاج کیا تو بادشاہ نے انگریز سرکار کو دھمکی دی کہ اگر شام تک گوالے واپس دلی نہ لائے گئے تو وہ بھی اپنا شاہی خیمہ دلی سے باہر ان گوالوں کی بستی میں لگا کر وہیں رہیں گے۔اس ڈر کے مارے کے کہیں یہ انسان دوست بادشاہ چل ہی نہ پڑے ‘ انگریز سرکار فوراً گوالوں کو واپس لے آئی ۔ جب بادشاہت کا دور ختم ہوا اورجمہوری طریقوں سے دنیا نے اپنے حکمران چننے شروع کیے تو پھر وہی سوال کھڑا ہوا کہ حکمران کیسے چنا جائے؟ پھر یوں ہوا کہ چند شاطر لوگ آگے بڑھے‘ جنہیں اپنے جیسے انسانوں پر حکمرانی کا جنون تھا‘ ان کے لیے جمہوریت موقع لائی۔آخر ان لوگوں کے پاس کیا ایسا ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں اور لوگ اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر ان پر نچھاور کرتے ہیں۔ ان کے لیے ہر قسم کی تکلیفیں بھگت لیتے ہیں۔دنیا کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو بہت سے کردار ملیں گے جنہوں نے لوگوں کی نفسیات سے فائدہ اٹھایا۔ انسانی نفسیات ہے کہ وہ چند چیزوں کے سہارے زندگی گزارتا ہے اور چالاک بندہ انہی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔بس آپ کو بے دریغ اور بے رحم انداز میں ہر کسی کو استعمال کرنے کا فن آنا چاہیے۔لالچ‘ خوف ‘ اندھی امیدیں اور بے تحاشا خواب ‘یہ وہ ہتھیار ہیں جو ہر چالاک اور سمجھدار بندہ ذہانت سے استعمال کر کے حکمران بن سکتا ہے۔ لالچ ‘ اچھے دنوں کی امیدیں اور ساتھ مستقبل کا انجاناخوف۔ بس لوگوں کو بتاتے رہیں کہ آپ نے اس'' مخلص‘‘ کو اپنا حکمران نہ بنایا تو نسلوں تک کی بربادی پکی ہے۔اس لیے اقتدار کی اس قدیم لڑائی میں جہاں چالاک اور ذہین لوگ عوام کو استعمال کرتے آئے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان یقینا افسردہ ہوں گی کہ برطرفی کے نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی چینلز پر خبروں کی ذرائع سے بھرمار ہوگئی کہ وہ کتنی کرپشن کر رہی تھیں۔ وہی جو کل تک اپنی حکومت کا دفاع کررہی تھیں اب اچانک خود کرپٹ قرار پائی گئی ہیں۔ کسی حکومتی عہدیدار نے بھی ان کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی‘انہیں خود ہی اپنی ''بے گناہی‘‘ کا ٹویٹ کرنا پڑا۔ وہی وزیر جو ایک سال سے ان کے دائیں بائیں بیٹھتے تھے وہ سب اچانک اجنبی بن گئے۔ وزیروں کے جس واٹس ایپ گروپ میں فردوس عاشق اعوان تھیں‘ جونہی اس کے ایڈمن وزیر کو ان کی برطرفی کا پتا چلا ‘اس نے فوراً اس گروپ سے فردوس عاشق اعوان کو نکال دیا۔
میر ظفراللہ جمالی جب وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہوئے اور بلوچستان اپنے آبائی گھر ٹرین کے ذریعے روانہ ہونے کے لیے پنڈی ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو ان کی پچاس ساٹھ وزیروں کی کابینہ میں سے صرف ایک وزیرمملکت (غالباً رضا حیات ہراج) انہیں الوداع کرنے آیا تھا۔ باقی سب وزیر شوکت عزیز کے دربار میں بیٹھے ان کی خوشامد کر رہے تھے۔یہ وہ کلچر ہے جو قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے۔ بہرحال اس رام کہانی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ برسوں کی ریاضت اور محنت کے بعد اقتدار تک پہنچتے ہیں وہ نہ معصوم ہوتے ہیں‘ نہ بھولے اور سادہ ‘ جتنی کہ وہ اداکاری کررہے ہوتے ہیں۔ انہیں ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کی امیدوں‘ خوف اور لالچ کواستعمال کر کے آگے بڑھنا ہے اور اس بے رحم کھیل میں جو بھی ہاتھ لگے اسے ا ستعمال کرتے جانا ہے۔ طاقتور کے پائوں اور کمزور کا گلہ پکڑنا ہے۔ جب وہ اس فن میں طاق ہوجاتے ہیں تو پھر حکمرانی چل کر ان کے پاس آتی ہے۔فردوس عاشق اعوان نے بھی عمر بھر یہی کیا‘ وہ مشرف سے بینظیر بھٹو ‘ زرداری اور اب عمران خان تک یہی طریقہ آزماتی آئی ہیں کہ سیاست میں بے رحمی چلتی ہے ‘وفاداری نہیں۔ اگر آج ان کے ساتھی وزیروں نے وفا نہیں دکھائی تو گلہ کیسا؟ میڈم نے مشرف اور زرداری سے وفداری دکھائی تھی؟ اب ان سے بھی بڑے گُرو اس دنیا میں رہتے ہیں‘ جو جتنا لوگوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا گر جانتا ہوگا وہی سکندر ہوگا۔ کچھ لوگ یہ راز بہت پہلے پا لیتے ہیں‘ جبکہ میرے جیسے بس کڑھتے رہتے ہیں۔
میرے یوسف رضا گیلانی صاحب کے لندن والے کالم پر دنیا اخبار کے زبردست سیاسی رپورٹر طارق عزیز کا میسج تھا کہ آپ نے لکھا گیلانی صاحب کو پیرپگاڑا اور ضیا الحق نے استعمال کیا ‘ جس کا انہیں شدید دکھ تھا۔ طارق نے لکھا کہ آج کل وہی گیلانی صاحب دوسروں کو استعمال کرنے کا کام خود کرتے ہیں۔میں ہنس پڑا اور کہا کہ اگر وہ یہ کام پیرپگاڑا سے نہ سیکھتے تو وزیراعظم نہ بن پاتے۔اگر وہ دوسروں کو استعمال بھی نہ کریں تو وہ کس چیز کے سیاستدان ہیں۔ سیاست ہے ہی لوگوں کے جذبات اور خوابوں سے کھیلنے کا نام۔اگر گیلانی صاحب یہ نہ کرتے تو یقینا مجھے مایوسی ہوتی۔ مجھے اس قدیم سیاسی فلاسفی کے غلط نکلنے پر دکھ ہوتا کہ وہی سکندر کہلاتا ہے جو بڑا فنکار ہو اور دوسروں کو بے رحمی سے استعمال کر سکتا ہو۔
میڈیم ‘اگر مجھ سے پوچھیں تو دل چھوٹا نہ کریں ‘آپ نے بھی اقتدار کا یہ بھیانک اور بے رحم کھیل اتنا بُرا بھی نہیں کھیلا۔