پشاور مسجد حملے میں سو کے قریب نمازی شہید ہوگئے۔جہاں یہ مسجد واقع ہے وہ علاقہ عام نہیں۔وہاں داخلے سے پہلے دو چیک پوسٹیں ہیں جہاں آپ کو چیک کرکے اور شناختی کارڈ دیکھ کر اندر جانے دیا جاتا ہے۔ان ناکوں پر کھڑے سپاہی کتنے ڈیوٹی فُل ہوتے ہیں وہ ہم جانتے ہیں۔
2006ء میں لندن پہلی دفعہ گیا تھا۔یونیورسٹی جانے کے لیے الفریڈ سٹیشن سے ٹرین پکڑ کر سٹریٹ فورڈ سٹیشن جارہا تھا۔ٹرین میں ایک شناسا چہرے پر نظر پڑی۔وہ پاکستان میں ایک بڑے سرکاری محکمے میں نوکری کرتے تھے۔میں نے پوچھا: آپ اِدھر کہاں؟ کہنے لگے: دو سال کی چھٹی لے کر لندن سٹوڈنٹ ویزے پر آیا ہوں۔ سوچا کچھ پیسے کما لوں گا لیکن یہاں تین ماہ سے نوکری نہیں مل رہی، بہت مشکل میں ہوں، جو کچھ پاکستان سے لایا تھا وہ سب ختم ہورہا ہے۔میرا دوست شعیب بٹھل لندن میں ایک سکیورٹی کمپنی میں منیجر تھا۔ اس کا کام لوگوں کو مختلف سائٹس پر گارڈز کی نوکریاں دینا تھا۔ شعیب نے پاکستان سے جانے والے بہت سے سٹوڈنٹس کو پارٹ ٹائم نوکریاں دلائی تھیں۔میں اُس افسر کے ساتھ ٹرین سے اترا۔باہرنکل کر میں نے شعیب کو فون کیا کہ یار اس پاکستانی بھائی کا بندوبست کرا دو۔ شعیب نے اس افسر سے بات کی۔کچھ تفصیلات لیں۔مجھے کہا: کل سے اسے کام پر لگا سمجھو۔اگلے دن کچھ پراسیس کے بعد شعیب نے مجھے بتایا کہ اسے ایک سائٹ پر ڈیوٹی دے دی ہے۔ وہ اب کمائے اور اپنی پڑھائی بھی کرے۔اس افسر کا بھی مجھے شکریہ کا فون آیا۔میں چند دن بعد بھول گیا۔دو ہفتے بعد مجھے اُس افسر کا فون آیا‘پریشان تھا۔ بولا: جس سائٹ پر کام کررہا تھا انہوں نے نکال دیا ہے۔میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ سب کا بڑا دھیان رکھا کہ بڑی مشکل سے نوکری ملی ہے کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔ میں تو سب سے اچھی طرح پیش آتا رہا‘ بغیر وجہ مجھے نکال دیا گیا ہے۔اس کی آواز میں چھپی مایوسی نے مجھے بھی اداس کر دیا۔مجھے شعیب پر غصہ آیا کہ اگر نوکری دے دی تھی تو چند دن بعد ختم بھی کر دی۔میں نے اس افسر سے کہا: ذرا انتظار کریں‘مجھے شعیب سے بات کرنے دیں۔میں نے شعیب کو کال کی اورناراض ہوا۔شعیب بولا: مجھے چیک کرنے دو۔ تھوڑی دیر بعد شعیب کا فون آیا تو اس نے ہنستے ہوئے کہا: آپ کا پاکستانی بھائی لندن کو بھی پاکستان سمجھ کر ڈیل کر رہا تھا۔میں نے پوچھا: کیا ہوا؟بولا: جو سائٹ اسے دی تھی کہ وہاں داخل ہونے والے مالک ہوں یا ملازم سب کے شناختی یا دفتری کارڈز چیک کرنے ہیں۔ ایک دن اس کی شکایت کی گئی کہ وہ دفتر آنے والے لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کیے بغیر انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے رہا تھا۔اس کی شکایت اس گورے نے جا کر کی جسے کارڈ دیکھے بغیر اندر جانے دیا تھا۔ اس نے کمپنی کو کہا کہ یہ سکیورٹی گارڈ اس ادارے کے لیے سکیورٹی تھریٹ ہے‘ یہ اپنا کام پورا نہیں کررہا‘ اس نے اگر مجھے کارڈ چیک کیے بغیر اندر آنے دیا ہے تو یہ کسی کو بھی اندر آنے دے گا۔ ان دنوں لندن حملوں کی وجہ سے خاصا تھریٹ اور خوف و ہراس تھا۔ اوپر سے ایک ایشین بندہ سکیورٹی پر تھا۔ یوں اس دفتر نے فوری طور پر شعیب کی کمپنی کو شکایت کی اور کہا گیا کہ اسے ہٹا دیں۔میں نے اس افسر کو فون کر کے بتایا۔وہ الٹا ناراض ہوا‘ کہنے لگا: یہ گورے تو بڑے فضول لوگ ہیں‘ یہی دیکھ لیں کہ میں چند دن میں سب کو پہچان گیا تھا کہ اس دفتر میں روز کون آتا ہے‘ میں سب کو چہروں سے جانتا ہوں‘وہ آتے جاتے مجھے مسکراہٹ دے کر جاتے تھے۔ ہیلو ہائے ہوتی تھی‘ بعض سے تو میری اچھی دعا سلام بھی ہوگئی تھی۔ جب میں انہیں جان چکا تھا تو پھر روز کیا کارڈ چیک کرنا۔ میں تو سر کے اشارے سے کہہ دیتا تھا کہ جائیں سر۔ انہوں نے میرا شکر گزار ہونے کے بجائے الٹا شکایت لگائی اور میری نوکری ختم کرا دی۔مجھے لگا اس کا دل ٹوٹ گیا تھا کہ اس نے جن لوگوں کو شناختی یا دفتری کارڈ کی زحمت سے بچایا تھا وہی اس کی نوکری کے دشمن ہوگئے۔میں نے کہا :بات سنیں‘ ان گوروں نے دنیا پر ایسے حکومت نہیں کی‘کچھ تو ایسا ہے ان لوگوں میں جو ہمارے اندر نہیں‘ لہٰذا ہم ان کے ملکوں میں پڑھنے یا نوکریاں ڈھونڈنے آتے ہیں اور یورپ میں داخل ہونے کے لیے جان تک دائو پر لگا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی کوشش ہی سب کچھ ہے۔یہ اتفاقات پر یقین کم ہی رکھتے ہیں۔یہ ہماری طرح تقدیر کی مرضی کہہ کر جان نہیں چھڑاتے۔ میں نے کہا: کبھی آپ کیفے پر جائیں تو وہاں آپ کو دو تین لڑکے لڑکیاں نظر آئیں گی۔ایک آدھ کافی یا سینڈوچ بنانے تو ایک ویٹر سرو کرنے پر لگا ہوگا۔ یہ صبح آٹھ بجے سے پہلے کیفے اوپن کر کے کام شروع کریں گے اور سارا دن بغیر تھکے ہارے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔ان میں جتنی انرجی صبح کے وقت تھی وہی شام کو پانچ چھ بجے ہوتی ہے۔آپ کو دن میں کہیں نہیں لگے گا کہ یہ تھک گئے ہیں یا قدم گھسیٹ گھسیٹ کر اٹھا رہے ہیں یا ان سے چلا نہیں جارہا۔ یہ شام کو کیفے بند کرنے سے پہلے کچن صاف کر کے جائیں گے اور اگلی صبح پھر تروتازہ وہاں موجود ہوں گے۔ان کے ہاں غلطی یا سستی کی گنجائش کم ہوتی ہے۔
اُس وقت گیارہ ستمبر اور لندن حملوں کی بازگشت نئی نئی تھی۔ میں نے کہا: ان کی ایجنسیوں اور فورسز سے ایک دفعہ تو غلطی ہو سکتی ہے لیکن دوسری دفعہ یہ بہت الرٹ ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا: پانچ سال ہوگئے ہیں امریکیوں نے دوبارہ گیارہ ستمبر نہیں ہونے دیا۔ لندن حملوں کو بھی سال ہونے والا ہے لیکن اب یہ بہت الرٹ ہیں۔ وہ ایک غلطی تو اگنور کرتے ہیں لیکن بار بار غلطیوں کی گنجائش ان کے ہاں نہیں ہے۔ آپ انہیں فیور کررہے تھے‘لیکن ان کے نزدیک آپ ایک سکیورٹی تھریٹ ہیں جو اپنا کام پورا نہیں کررہا۔آپ کو ہر وقت الرٹ ہونا چاہیے۔باڈی لینگویج ایکٹو ہو۔ہر ایک کو چیک کر کے اندر جانے دیں۔ جب آپ نے پاکستانی انداز میں سب کو سر کے اشارے سے کہنا شروع کیا کہ کوئی نہیں گزر جائو توانہیں لگا کہ آپ کی یہ کرٹسی انہیں مہنگی پڑے گی۔ گورا اصول پر چلتا ہے۔آپ نے ان سے کوئی کام کرانا ہے آپ پراسیس پورا کریں‘ یہ کر دیں گے۔ ان کے ہاں منت ترلا نہیں چلتا۔ وہ میری بات سن کر بولا :عجیب لوگ ہیں۔ان کے ہاں مروت نام کی کوئی چیز نہیں۔میں ہنس پڑا اور کہا: وہ یہاں سے غائب ہوچکی ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں جس کام کے پیسے ملتے ہیں اسے پورا کریں۔ ہمارے ہاں تو کہا جاتا ہے کہ اتنے پیسوں میں تو اتنا کام ہی ہوسکتا ہے۔ وہ بولا: اب کیا ہوگا؟ میرا کیا بنے گا؟میں نے کہا: اب لندن رہنا ہے تو ڈیوٹی کے وقت کچھ بے مروت بن جائو۔دیکھنا یہی گورے تمہاری عزت کریں گے۔میں نے شعیب کو دوبارہ فون کیا اور کہا: سرکار کہیں اور کرا دو‘اب غلطی نہیں ہوگی۔دو دن بعد شعیب نے اسے کہیں اور سائٹ لے دی۔ میں دو سال بعد لندن سے واپس لوٹا۔کچھ عرصے بعد ایک دن انہی افسر سے اچانک اسلام آباد ملاقات ہوگئی۔ میں نے کہا :سر جی کب واپسی ہوئی؟بولے: تین ماہ ہوئے ڈیوٹی جوائن کر لی ہے۔میں نے پوچھا : لندن سے کیا سیکھ کر آئے؟بولے: ڈیوٹی کے وقت بے مروتی‘ کام پورا‘ کوئی رعایت سستی نہیں‘ جس کام کی تنخواہ ملتی ہے اسے حلال کرو۔
یہ سب یاد آیا کیسے؟ پشاور کے حساس علاقوں میں مسجد میں حملہ کرنے سے پہلے خودکش حملہ آور دو چیک پوسٹ سے گزرا ‘ جہاں سیکورٹی فورسز کا کام شناختی کارڈ چیک کر کے اچھی طرح تسلی کر کے اندر جانے دینا ہوتا ہے۔ہمیں صدیوں پرانی مروت اور سستی مروا گئی۔