کچھ دنوں کے لیے ملک سے باہر تھا۔ وہاں ہر ایک یہی گلہ کرتا تھا کہ پاکستان کا عام آدمی مارا گیا ہے۔بس اب ملک کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اتنے لاکھ پاکستانی چھوڑ گئے ہیں‘ بعض نے تو مجھے بھی کہا کہ سنا ہے آپ بھی ملک چھوڑ آئے ہیں؟
لندن میں ایک بھائی نے کہا: سنا ہے آپ یہاں کاروبار سیٹل کرنے آئے ہیں؟ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میرے لندن میں کچھ سولیسٹرز دوست ہیں جن سے پرانا تعلق ہے تو ان سے ملاقاتوں سے انہیں تاثر ملا ہوگا کہ شاید کوئی لیگل طریقہ کار پوچھ رہا ہوں۔ شعیب بٹھل ہوں‘ رضوان سلہریا یا انعام رانا۔ جب ان بڑے بڑے وکیلوں سے تعلق ہوگا اور ملاقات بھی ہوگی تو یقینا لوگ پاکستان کے موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر یہی کہیں گے کہ شاید لندن شفٹ ہونے کا پلان ہے۔میرا کہیں شفٹ ہونے کا پلان نہیں ہے۔ مزے کی بات ہے‘ اگربندے نے شفٹ ہونا ہو اور پرسکون لائف گزارنی ہو تو مجھے ذاتی طور پر عمان پسند آیا ہے۔ مسقط اچھا لگتا ہے جہاں ایک طرف خوبصورت سمندر تو دوسری طرف پہاڑ اورساتھ طویل صحرا اور درمیان میں انسانی آبادی اور دنیا کی ہر جدید سہولت موجود۔کوئی رَش نہیں‘ کوئی ٹریفک جام نہیں‘ شام کو سمندر کنارے خوبصورت کیفے جہاں عرب ورلڈ کی مشہور کافی دستیاب‘ گھنٹوں آپ بیٹھے گم رہیں‘ دور نیلے پانیوں سے گزرتے بحری جہاز یا کشتیاں گنتے رہیں اور ان کے اوپر خوبصورت پرندے اور ان کی مچھلیاں پکڑنے کیلئے ڈبکیاں یا پھر نظریں پہاڑ کی طرف موڑ لیں۔ یا پھر دل کرے تو صحرا میں نکل جائیں۔ ایک طویل خوبصورت سڑک اور ہر طرف خاموشی کا راج۔ آپ آنکھیں موندے پسنجر سیٹ پر ٹکے رہیں۔
خیر بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ اب کوشش کرتا ہوں لوگوں سے بحث نہ کروں۔ ہماری چند منٹ کی دھواں دھار بحث سے ان کا ذہن بدلنا ہے نہ شاید ہماری سوچ۔ آخر میں شاید ہم کچھ تلخی لے کر ہی جدا ہوں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بات سن لی جائے۔ اگلے کی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ وہ بھی خوش ہو جائے گا۔ اگرکوئی کہتا ہے کہ آپ ہوں ہاں میں جواب دے رہے ہیں تو میں ہنس کر کہتا ہوں: اگر میں نے کچھ کہا تو پھر آپ ایک گھنٹہ مجھے سمجھائیں گے کہ آپ کا لیڈر کتنامہان ہے اور میں اس کی عظمت کے گیت نہ گا کر ملک و قوم کے ساتھ زیادتی کررہا ہوں۔ بہتر ہے پہلی دفعہ مل رہے ہیں‘ چند منٹ کا ساتھ ہے تو کیوں کوئی تلخی لے کر اٹھیں۔ آپ کو اچھا نہیں لگ رہا کہ میں آپ کی باتوں سے متفق ہورہا ہوں؟ یاآپ میری باتوں سے قائل ہو جائیں گے؟
خیر‘ ایک جگہ بیٹھے تھے تو دو مہربان بڑی دیر سے عام آدمی کا رونا رو رہے تھے۔ عام آدمی کے ساتھ ظلم ہوگیا‘ زیادتی ہوگئی۔ میں چپ رہا۔ میری طرف دیکھ کر بولے: آپ بھی کچھ کہیں۔میں نے مسکرا کر کہا: میری باتیں آپ کو پسند نہیں آئیں گی۔ میں وہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا جس سے آپ کا موڈ خراب ہو۔ کچھ دیر کی ملاقات ہے۔ بولے :نہیں کیا عام آدمی کے ساتھ پاکستان میں زیادتی نہیں ہورہی؟ میں نے کہا: آپ عام آدمی کسے کہتے ہیں ؟میں نے کہا: میں اس ملک میں پلا بڑھا ہوں۔ یہ عام آدمی اُس وقت تک مظلوم ہے جب تک وہ جمپ لگا کر اس کلاس میں شامل نہیں ہوجاتا جسے وہ ظالم سمجھتا ہے۔ جس دن اسے نوکری مل جاتی ہے وہ آدمی عام نہیں رہتا۔اب عام لوگ وہ ہیں جو اس اگلی کلاس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ وہی رولا ڈالے رکھتے ہیں۔ یہ جو لاکھوں سرکاری ملازمین اس وقت سروس میں ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب ملازم بننے سے پہلے عام لوگ تھے۔ سب نارمل انسان تھے۔ یہ بھی دکھی تھے۔ انہیں بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر دکھ ہوتا تھا۔ یہ بھی بجلی‘ پانی اور گیس کے بلوں سے تنگ تھے۔ یہ بھی پولیس کی زیادتیوں کا نشانہ بنتے تھے۔ انہیں بھی تھانوں میں مارا پیٹا جاتا تھا۔ ان کو بھی دفتروں میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ یہ عام آدمی پہلے سفارش تلاش کرتا تھا اور پھر کسی دفتر کام کے لیے جاسکتا تھا۔ کیا وہی عام آدمی جب پولیس کانسٹیبل بنا‘ محرر یا ائے ایس ائی یا ایس ایچ او بنا یا واپڈا میں ملازم ہوا تو کیا وہ عام آدمی ہی رہا؟ یا پھر اگلے روز وہ وردی پہن کر اُس کلاس میں شامل ہوگیا جسے وہ چند روز پہلے ظالم سمجھتا تھا ‘جو عام لوگوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آپ بتائیں‘ جو لوگ آپ کے بقول عام آدمی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کے ذمہ دار ہیں ‘یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کہاں سے آئے ہیں؟کیا یہ آپ کے یا میرے رشتہ دار یا دوست نہیں ہیں؟ ہم نہیں جانتے کہ اب یہ عام سے خاص بن گئے ہیں؟ آپ کی ننانوے فیصد پولیس عام انسانوں سے بھری ہوئی ہے۔ جو ایک فیصد پولیس افسران مقابلے کا امتحان دے کر خاص ہوتے ہیں‘ ان میں بھی نوے فیصد سے زائد عام آدمی یا عام خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران بھی نوے فیصد عام بیک گراؤنڈ سے ہیں۔ سول سروس میں جتنے افسران جاتے ہیں یہ کوئی بہت بڑے بیک گراؤنڈ سے نہیں آتے۔ وہ انہی سکولوں‘ کالجوں یا یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں جن سے ہم سب پڑھے ہیں۔ میرے اپنے سکول فیلوز مقابلے کا امتحان پاس کرکے افسر بنے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ وہ بھی میری طرح عام بیک گراؤنڈ سے ہیں۔ اگر ایک عام آدمی بھی نوکری لے کر اپنے جیسے عام انسانوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک نہیں کرتا تو پھر ان عام انسانوں کیساتھ بندہ کیا ہمدردی کرے؟جب عام آدمی ہی عام آدمی کا دشمن ہے تو پھر اس معاشرے میں کیا تبدیلی لائیں؟ جو تھانے کچہریوں میں ظلم زیادیتاں ہوتی ہیں‘ تسلی رکھیں‘ کرنے والے وہ سب عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اگر اختیار یا عہدہ ملنے سے وہ فرعون بن گئے ہیں تو پھر قصور عام آدمی کا ہی ہے۔
خیر انہوں نے میری باتوں سے اتفاق نہیں کیا جس کا انہیں پورا حق تھا۔ آج ہی ایک خبر چھپی ہے اور دل چاہ رہا ہے کہ اپنے ان امریکن دوستوں کو بھیجوں کہ عام آدمی خود کتنا ظالم بن جاتا ہے‘ جب اسے اختیار ملتا ہے۔خبر یہ ہے کہ صدرِ پاکستان عارف علوی نے ای او بی آئی کو سکیورٹی گارڈ سے معافی مانگنے کی ہدایت کی ہے۔صدر علوی نے کہا ہے وہ صدر کی حیثیت سے شہری سے معافی مانگتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ پنشن کے حصول کیلئے سکیورٹی گارڈ کو دفترکے احاطے میں داخلے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔ یہ واقعہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کا ہے جس کا کام ان عام لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ وہ گارڈ کئی سال اپنی پنشن لینے کے لیے دھکے کھاتا رہا۔ صدر نے کہا :ایک عام مزدور کو پنشن کیلئے برسوں انتظار کروانا شرمناک ہے۔ اس مزدور کی فائل گم ہونے کی وجہ سے کئی سال بیت گئے۔ آخر فائل سفارش کروانے پر ڈھونڈی گئی۔سکیورٹی گارڈ ‘ افتخار حسین ‘ ایک پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسی میں کام کرتا تھا۔2008 ء میں سروس کے دوران حادثے میں معذور ہوگیا۔اس نے پنشن کیلئے ای او بی آئی سے رجوع کیا۔ ای او بی آئی نے پنشن گرانٹ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔اب آپ بتائیں ‘ ای او بی میں بیٹھے ملازمین اور افسران‘ سب عام لوگ ہیں۔یقین کریں یہ عام لوگ ہی تھے جو اب فرعون بن بیٹھے ہیں۔ سب سرکاری محکموں میں عام لوگ ہی نوکریاں لے کر شامل ہوئے ہیں۔ جو سرکاری اہلکار‘ تاجر‘ دکانداراور دیگر کاروباری لوگ دن رات عام لوگوں کو لوٹ رہے ہیں یہ سب عام لوگ ہیں۔ یہ ظالم لوگ خود کو اس وقت فوراً عام آدمی کا درجہ دے کر رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں جب انہیں اپنے سے بڑا فرعون ٹکر جائے۔ اس وقت یہ مظلوم اور عام آدمی بن جاتے ہیں اور رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھا اب ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔