"RKC" (space) message & send to 7575

میانوالی کا امجد خان نیازی

میانوالی سے سابق ایم این اے امجد علی خان نیازی سے میرا شناسائی اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات کے بعد اُن کے والد ڈاکٹر شیر افگن نیازی صاحب سے ہونے والی ایک ملاقات میں ہوئی جو بعد میں گہری دوستی میں بدل گئی جو 2012ء میں شیر افگن نیازی کی وفات تک جاری رہی۔
امجد خان کے بھائی بیرم خان کا اسلام آباد میں ایک کار حادثے میں انتقال ہو گیا تھا جس نے شیر افگن کو توڑ کر رکھ دیا۔ مضبوط اعصاب کے مالک شیر افگن اکثر پارلیمنٹ لاج کے کمرے میں میری موجودگی میں دل بھر کر رو لیتے تھے۔ بیرم خان کی ایک چھوٹی سی بیٹی تھی جسے وہ جان سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ اسے ہر وقت گلے سے لگائے رکھتے۔ بیرم خان کی وہی آخری نشانی تھی۔ اکثر وہ بیرم خان کی باتیں کرتے کرتے رو پڑتے۔ میں ان کے گھر کا فرد ہی تھا۔ میری کڑوی کسیلی باتیں بھی سن لیا کرتے تھے۔ نواز شریف ستمبر 2007ء میں لندن سے لوٹے تو شیر افگن شوکت عزیز کے وزیر تھے۔ اُنہی دنوں نواز شریف کے قریبی ساتھی افضال اٹھا لیے گئے۔ افضال کے برادر نسبتی عمران سے میری لندن میں اچھی دعا سلام تھی۔ عمران نواز شریف کے لندن آفس کو چلاتا تھا۔ وہ شریف اور اچھا انسان تھا۔ ایک دن عمران کا مجھے فون آیا کہ افضال غائب ہے۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ نواز لیگ تب پرویز مشرف کے زیر عتاب تھی۔ عمران بتانے لگا کہ پورا گھر بہت ڈسٹرب ہے۔ کہنے لگا کہ اگر آپ کچھ مدد کر سکیں؟ میں فوراً ڈاکٹر شیر افگن کے پاس ان کے دفتر چلا گیا۔ میں نے کہا کہ مہربانی فرمائیں اور افضال کو برآمد کرائیں۔ کہنے لگے کہ جب نواز شریف اقتدار میں تھے تو مجھے سزا دینے کیلئے میانوالی میں میرا پٹرول پمپ بلڈوز کر دیا گیا تھا لیکن میں تمہیں ناں نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اُسی وقت تب کے آئی جی پنجاب کو فون کیا۔ آئی جی نے بتایا کہ افضال کو ایجنسی والے اٹھا کر لے گئے ہیں۔ آئی جی کے بعد انہوں نے متعلقہ ایجنسی کے ڈپٹی سربراہ کو فون ملایا اور اسے کہا کہ مہربانی فرمائیں‘ افضال کو چھوڑ دیں۔ اس افسر نے آگے سے کچھ کہا تو شیر افگن کہنے لگے کہ آپ نے اسے چھوڑنا ہے یا میں پرویز مشرف کو فون کروں؟ اس بے چارے کا کیا قصور ہے۔ گھنٹے بعد لندن سے عمران کا فون آگیا کہ افضال کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہی افضال بعد میں شہباز شریف دور میں اوورسیز کمشنر لگا اور مجال ہے کبھی بھول کر فون بھی کر لیا ہو۔
مجھے ڈاکٹر شیر افگن کی بات یاد آئی کہ اکثر لوگ کام نکلنے تک ہی یاد رکھتے ہیں۔ کام نکل جائے تو رات گئی بات گئی والا حساب ہوتا ہے۔ خیر امجد خان کی اپنے باپ کے سیاسی نظریات سے کم ہی نبھ سکی۔ امجد خان عمران خان کو پسند کرتے تھے اور والد شیر افگن اتنے ہی عمران خان کے نام سے چڑتے تھے۔ ڈاکٹر شیر افگن کو دکھ ہوتا تھا کہ بیرم خان ‘ جو فوت ہوگیا تھا‘ ان کا اصل سیاسی جانشین تھا۔ ان کا خیال تھا کہ امجد خان ایک ملنگ اور بے ضرر انسان ہے‘ محبت سے بھرا‘ جو سیاست کی باریکیوں اور نزاکتوں کو نہیں سمجھتا۔ امجد خان کو اکثر میرے سامنے ڈانٹ پڑتی تھی۔ امجد خان مجھے چچا کہہ کر پکارتا ہے کیونکہ میری اس کے والد سے دوستی تھی۔
امجد خان کا پی ٹی آئی میں جانا میرے لیے حیران کن نہ تھا۔ والد کی وفات کے بعد یہ ہونا ہی تھا۔ اس نے میانوالی سے دو دفعہ الیکشن جیتا۔ کبھی نہ سنا کہ اس نے مخالفوں کا جینا حرام کیا ہو۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے امجد خان سے ملاقات کی اور اسے وزیر بنانے کا عندیہ دیا تو درویش ٹائپ امجد خان نے انکار کر دیا۔ جس کے بعد عمران خان نے امجد خان کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا چیئرمین بنانے کی پیش کش کی‘ جو سب سے طاقتور کمیٹی سمجھی جاتی ہے‘ تو امجد خان راضی ہوگیا۔ اسلام آباد سے پی ٹی آئی کا ایک ایم این اے اس کمیٹی کا چیئرمین بننا چاہتا تھا۔ خان نے اسے کہا کہ چیئرمین تو امجد خان ہو گا۔ وہ ایم این اے امجد خان کے پاس گیا اور اسے درخواست کی۔ جس پر امجد خان نے اس کمیٹی کی چیئرمین شپ‘ جو وفاقی وزارت سے زیادہ طاقتور تھی‘ اس ایم این اے کو دے دی۔ ایک دفعہ میں نے اسے طعنہ دیا کہ امجد خان تم دو دفعہ میانوالی سے ایم این اے بنے لیکن تمہیں عمران خان نے کچھ نہیں دیا۔ امجد خان بولا: عمران خان نے آفرز کی تھیں لیکن رؤف چچا میں نے وزیر بن کر کیا کرنا تھا۔ مزے سے زندگی گزر رہی ہے۔ وہی درویش ٹائپ مزاج۔ یاروں کا یار۔ ہنس مکھ۔ خوش مزاج۔ اب چند دن پہلے امجد خان کے بچوں کا میسج آیا کہ ہمارے بابا آپ کو چچا سمجھتے ہیں۔ ہمارے دادا آپ کے دوست تھے۔ ہمارے بابا پر گرفتاری کے بعد تشدد ہو رہا ہے۔آپ کچھ کریں۔
امجد خان کے بچے بہت ڈسڑب تھے۔ اس کی پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان بچوں نے اپنے باپ کی نو مئی کی وڈیوز بھیجیں جس میں امجد خان سب کو روک رہا تھا کہ تشدد نہیں کرنا۔ لڑائی جھگڑا نہیں کرنا۔ مجھے بھی امجد خان سے یہی توقع تھی کیونکہ میں 20سال سے اسے جانتا ہوں‘ وہ متشدد مزاج والا بندہ نہیں ہے۔ لیکن نو مئی کے واقعات کے تناظر میں نہ صرف اس پر بلکہ اس کے 22سالہ بیٹے ہارون پر بھی مقدمہ درج ہوا۔ دونوں باپ بیٹا مفرور تھے۔ پولیس نے ان کے میانوالی میں آبائی گھر پر دھاوا بولا‘ جہاں پورا خاندان رہتا ہے۔ گھر کے کئی حصے گرائے۔ نقصان کیا۔ ایک دن گھر والوں کو یہ پیغام ملا کہ اگر امجد خان نے گرفتاری نہ دی تو اس کے بیوی بچوں کو اٹھا لیا جائے گا۔ اپنی بیوی اور پانچ چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کو بچانے کیلئے امجد خان نے خود سرنڈر کر دیا۔ وہاں اس پر بے رحمانہ تشدد شروع ہوا۔ امجد خان کے بچوں نے مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ میرا ان کے دادا اور باپ سے کتنا گہرا تعلق تھا۔ میں نے وہ نو مئی والی وڈیوز ٹویٹ کیں۔ ان ٹویٹس کے بعد امجد خان پر جسمانی تشدد بند ہو گیا۔ امجد خان کی بچیاں بہت تکلیف میں تھیں کہ ان کے باپ پر مسلسل تشدد ہو رہا تھا۔ جسمانی تشدد تو بند ہو گیا لیکن پھر نفسیاتی تشدد شروع ہوا اور اسے رات کو سونے نہیں دیا جاتا تھا تاکہ اسے توڑا جا سکے۔ اب امجد خان کی ایک وڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ تحریک انصاف اور سیاست کو چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے۔ اب اس کا جیل میں ہی ٹرائل ہو رہا ہے حالانکہ ایسی درجنوں وڈیوز موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نو مئی کوکسی توڑ پھوڑ یا حملے میں ملوث نہیں تھا بلکہ سب کو روک رہا تھا۔ اب اسے الیکشن سے باہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں ہو سکتے۔ اب امجد خان کی بیوی الیکشن کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا امجد خان جیسے ماڈریٹ سیاستدان‘ جو سیاست میں تشدد سے دور رہتے ہیں‘ جو وزارت کے بھی خواہش مند نہیں‘ جو اقتدار میں رہتے ہوئے درویش بن کر رہتے ہیں‘ انہیں زبردستی سیاست باہر کر دیا جائے؟ کیا پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد ختم ہو گئی تھی یا نواز شریف کو پرویز مشرف نے سزا دلوا کر باہر بھیج کر (ن) لیگ کو ختم کر دیا تھا؟ امجد خان کی چھوٹی چھوٹی پانچ بیٹیوں پر جو گزر رہی ہے وہ تو وہی جانتی ہیں۔ میں آج تک کبھی اس پیچیدہ انسانی نفسیات کو نہیں سمجھ سکا کہ کچھ لوگ کسی بے قصور انسان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دکھ درد دے کر اپنے گھروں میں‘ اپنے بچوں کو گلے سے لگا کر کیسے آرام سے سو سکتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں