ٹاک شو میں چارسدہ کا سانحہ موضوعِ گفتگو تھا۔ اینکر پرسن بڑی معصومیت سے پوچھ رہی تھی، ''سر! لیکن ایسے میں ہمارے پرائم منسٹر کہاں ہیں؟‘‘ ریٹائرڈ عسکری دانشور نے تُرت جواب دیا، ''سوئٹزرلینڈ میں ایک جگہ ہے ڈیووس، جہاں دُنیا بھر سے سرمایہ کار جمع ہوتے ہیں‘ تفریح کا ماحول ہوتا ہے‘ اچھے اچھے کھانے ہوتے ہیں۔ ہمارے پرائم منسٹر صاحب وہیں ہیں‘‘۔ ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کی شرکت پہلے سے طے تھی کہ اس سے پہلے دو برادر ملکوں میں جنگ کے سے گرماگرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے ریاض اور تہران کا قصد کیا۔ مسئلے کی عسکری نوعیت کے پیشِ نظر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی، خیر کے اس سفر میں وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ یہ امن مساعی رائیگاں نہیں رہی تھی۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کی قیادت کو اتفاق تھا کہ نہ صرف سرد جنگ، گرم جنگ میں تبدیل نہ ہو‘ بلکہ سرد جنگ کی ''حرارت‘‘ کو بھی کم کیا جائے۔
سعودی عرب اور ایران میں بھائی چارے کے مثالی تعلقات نہ سہی، ان کے درمیان کشیدگی کم سے کم سطح پر رہے‘ اور اس کارِ خیر میں پاکستان نے اپنے حصے کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہ کی تھی۔ 1997ء میں یہ نواز شریف کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کا دور تھا، مملکتِ خداداد کا گولڈن جوبلی سال‘ جسے شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے حکومت نے مختلف پروگرام وضع کئے تھے۔ اسلام آباد میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے خصوصی اجلاس کا انعقاد بھی ان میں شامل تھا۔ (اسی سال تہران اسلامی کانفرنس کے معمول کے اجلاس کا میزبان تھا۔ ایرانی دوستوں میں اس خدشے نے سر اُبھارا کہ اسلام آباد میں سربراہ کانفرنس کے انعقاد سے تہران کی او آئی سی سمٹ کی اہمیت کم ہو جائے گی لیکن انہیں مطمئن ہونے میں دیر نہ لگی۔ اسلام آباد سربراہ اجلاس میں ایران کی اعلیٰ سطحی شرکت بھرپور اور پُرجوش تھی۔ ادھر سعودی عرب سے ولی عہد عبداللہ ایک بڑے وفد کے ساتھ آئے۔ (شاہ فہد کی علالت کے باعث عبداللہ ہی مملکت کے داخلی و خارجی امور میں ان کی نمائندگی کرتے تھے)۔ 2005ء میں شاہ فہد کے انتقال کے بعد 2015ء تک، شاہ عبداللہ کا دس سالہ دور تعمیر و ترقی کے لحاظ سے اپنے پیشرو کا تسلسل تھا۔ عبداللہ سعودی عرب کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ قدامت پسند قبائل میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے۔ سعودی عرب کے دینی حلقوں (خصوصاً آلِ الشیخ) میں بھی وہ خاص قدر و منزلت رکھتے تھے۔ سعودی عرب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (KAUST) شاہ عبداللہ کا اپنے وطن اور اس کی آئندہ نسلوں کے لیے عظیم الشان تحفہ ہے جس پر اربوں ڈالر خرچ آئے۔
پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی، پاک سعودی تعلقات پر کبھی اثر انداز نہیں ہوئی۔
بہار ہو کہ خزاں لااِلٰہ اِلاّاللہ
البتہ خارجہ امور پر عمیق نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب زرداری کے ادوار میں سرکاری سطح پر تو پاک سعودی تعلقات ٹھیک تھے، لیکن دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے درمیان گرم جوشی میں پہلے والی بات نہ تھی‘ حالانکہ خود بھٹو صاحب کے سعودی قیادت کے ساتھ تعلقات نہایت پُرجوش رہے تھے۔ 1977ء کے سیاسی بحران میں بھٹو صاحب اور اُن کے سیاسی حریف (پی این اے کی قیادت) کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سعودی سفیر ریاض الخطیب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ (بدقسمتی سے یہ بحران 5 جولائی کے مارشل لاء پر منتج ہوا)۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے خلاف ''رحم کی اپیل‘‘ کرنے والے عالمی رہنمائوں میں سعودی شاہ بھی شامل تھے۔ افغان جہاد کے باعث جنرل ضیأالحق کے ساتھ سعودی قیادت کا معاملہ یک جان دو قالب والا ہو گیا تھا۔ یہی چیز نواز شریف کو ورثے میں ملی‘ پھر ایٹمی دھماکوں نے میاں صاحب کو سعودیوں کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔ سعودی عرب کی تاریخ میں یہ پہلا (اور اب تک آخری) موقع تھا‘ جب ایٹمی دھماکوں کی عوامی سطح پر Celebration کے لیے جدہ میں جلسۂ عام کی اجازت ملی۔ نواز شریف کی تقریر سننے کے لیے، یوں لگتا تھا، سارا جدہ اُمڈ آیا ہے، دور دراز سے بھی لوگ چلے آئے تھے۔ ریاض کے قصرِ شاہی میں نواز شریف کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیے میں عبداللہ، وزیر اعظم پاکستان کو اپنا ''فل برادر‘‘ قرار دے رہے تھے۔ عبداللہ، اپنی ماں کے اکلوتے بیٹے تھے، شاہ فہد اور موجودہ شاہ سلمان سمیت، ''سدیری برادرز‘‘ ان کے سوتیلے بھائی تھے۔
12 اکتوبر کو نواز شریف حکومت کی برطرفی سعودی قیادت کے علاوہ سعودی عوام کو بھی بڑی ناگوار گزری تھی۔ سعودی قیادت، ایک عرصے تک پرویز مشرف کو ملاقات کا وقت دینے میں پس و پیش کرتی رہی۔ پھر میاں صاحب کی جلاوطنی (اور اپنے ہاں میزبانی) میں بھی سعودی قیادت نے اہم رول ادا کیا۔
میاں صاحب 2007ء کے این آر او کا حصہ نہیں تھے۔ محترمہ بینظیر 18 اکتوبر کو وطن واپس آ گئیں تو میاں صاحب نے بھی واپسی کے لیے کمر کس لی۔ انہیں روکنے کے لیے شاہ عبداللہ سے پرویز مشرف کی درخواستیں بے اثر رہیں۔ واپسی سے چار روز قبل پرویز مشرف کی ریاض میں شاہ سے ملاقات بھی بے ثمر رہی‘ اور شاہ نے ڈھیروں نیک خواہشات اور سعودی روایات کے مطابق تحفے تحائف کے ساتھ خصوصی طیارے میں میاں صاحب کو پاکستان کے لیے روانہ کیا۔
پاک ایران تعلقات، حالات و واقعات کی گرمی و سردی کے ساتھ نشیب و فراز کا شکار رہے‘ لیکن تہران اور اسلام آباد، دونوں کو ان تعلقات کی اہمیت کا ہمیشہ احساس رہا؛ چنانچہ اسلام آباد، تہران کی آواز کو، اور تہران اسلام آباد کی پکار کو ضروری اہمیت دیتا رہا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حالیہ امن مساعی عرب ایران تعلقات کے اُفق پر تاریکی کے بادلوں میں، اُمید کی نئی کرن لانے کا باعث بنی۔ وزیر اعظم پاکستان کی ریاض سے تہران آمد پر ایرانی قیادت نے معزز مہمان کا پُرجوش خیر مقدم کیا۔ ایرانی قیادت نے اپنے مہمان کو مایوس نہیں کیا تھا۔ صدر روحانی تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کر چکے تھے (اس حملے نے دونوں ملکوں میں کشیدگی کو انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا، بعض عرب ریاستوں نے بھی اس کی پیروی کی تھی)۔
سعودی عرب سے کشیدگی کے خاتمے اور مذاکرات کے لیے تہران نے فوکل پرسن کے تقرر پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔ ادھر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کہہ رے تھے ''سعودی عرب سے محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں‘‘۔ انہیں یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ ''تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہماری سلامتی پر حملے کے مترادف تھا‘‘، وہ اس حملے کے ذمہ داروں کے محاسبے کا بھی اعلان کر رہے تھے۔ اور تازہ ترین اطلاع کے مطابق سعودی عرب نے بھی ایران کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے، فوکل پرسن کے تقرر پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔
ہمارے دانشور دوست نے نواز شریف پر طنز کے لیے فرمایا، ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس دراصل تفریح اور سیر سپاٹا کا
بہانہ ہوتا ہے، جس میں مزے مزے کے کھانے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا فاضل دوست کیا واقعی نہیں جانتا کہ اس اجلاس میں دُنیا بھر سے تین ہزار کے لگ بھگ سرکاری اور غیر سرکاری شخصیتیں جمع ہوتی ہیں۔ یہ کسی ملک کا سرکاری فورم نہیں اور نہ ہی یہ کسی حکومت کے زیر اثر ہے۔ دُنیا بھر سے اقتصادی ماہرین یہاں جمع ہوتے ہیں، سر جوڑ کے بیٹھتے ہیں۔ اقتصادی امور پر غور و خوض اور مختلف خطوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں سازگار ماحول کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ اُنہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی چین سے بلا لیا تھا (جہاں وہ ایک بینک کے افتتاح کے سلسلے میں گئے تھے)۔ وزیر اعظم نے یہاں اپنا مؤقف بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے ضربِ عضب سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا بھی تذکرہ کیا۔ چارسدہ کے سانحہ کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا، اِکّادُکّا واقعات کا یہ مطلب نہیں کہ دہشت گردوں نے پورے ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔ وزیر اعظم نے یاد دِلایا کہ دہشت گردی کے واقعات پر سکیورٹی اِداروں کے بروئے کار آنے میں دیر نہیں ہوتی اور دہشت گرد چند گھنٹوں میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں۔
چارسدہ سانحہ کی سنگینی سے کس باشعور شخص کو انکار ہوگا۔ حالیہ دِنوں میں، ان واقعات میں اچانک اِضافہ بھی ہوا ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں دو پولیس اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔ یہ ایک طویل اور مختلف جنگ ہے، ہمیں اس جنگ میں اپنی کمزوریوں کو رفع بھی کرنا ہے اور حوصلوں کو توانا بھی رکھنا ہے۔ سانحہ چارسدہ سے اگلے روز ملک بھر میں یومِ سوگ منایا گیا، اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں رکھا گیا۔ لیکن اِدھر خیال کی ایک اور لہر اُبھری، یومِ سوگ کی بجائے، یومِ عزم کیوں نہیں؟ جس میں قومی پرچم سرنگوں کرنے کی بجائے، اِسے بلند تر کرنے کا اہتمام کیا جاتا کہ ستارہ و ہلال والے سبز پرچم کی سربلندی، دُشمنوں کے حوصلوں کی پستی کا باعث بنتی ہے۔