وزیراعظم بلدیاتی کونسلروں سے خطاب کے لیے بہاولپور گئے تھے۔ وہاں نیب سے متعلق ان کی گفتگو نے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ایک ہلچل مچا دی۔ تبصروں اور تجزیوں کا طوفان سا اُٹھ کھڑا ہوا۔ سرکاری افسروں کو ڈرانے دھمکانے اور معصوم لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گھس جانے کی شکایت بجا، چیئرمین نیب کو اس صورتِ حال کا نوٹس لینے کی تلقین بھی درست لیکن عمومی طور پر اس کا میسج بہت غلط گیا۔ رہی سہی کسر رانا ثناء اللہ کے بیان نے پوری کر دی، ''دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نیب کو پنجاب میں کارروائی نہیں کرنے دیں گے‘‘، تو کیا سیاسی مخالفین (اور میڈیا کے ایک بڑے حصے میں تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں) کا یہ ''پروپیگنڈا‘‘ درست ہے کہ جناب وزیر اعظم کے نیب کے خلاف دھمکی آمیز ریمارکس (اور اس پر وزیر قانون پنجاب کا ''مور اوور‘‘) پنجاب کو احتساب سے بچانے کے لیے ہے؟
جناب وزیر اعظم کی اس بات پر بھی دور کی کوڑیاں لائی گئیں کہ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں اور توڑتا کوئی اور ہے، اور اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ ماضی میں آئین کے آرٹیکل 58/2B کے تحت یہ کام ایوانِ صدر سے لیا جاتا تھا۔ نواز شریف نے 1997ء میں 13ویں ترمیم کے ذریعے صدر کا یہ اختیار ختم کر دیا تھا۔ مشرف دور میں 17ویں ترمیم کے ذریعے بحال ہونے والا یہ اختیار، 18 فروری کے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کے ہاتھوں دوبارہ انجام کو پہنچا۔ تو کیا اب ''کوئی اور‘‘ نیب کے ذریعے یہ کام کرنا چاہتا ہے؟ اور یہ بھی کہ یہ ''کوئی اور‘‘ کون ہے؟ ظاہر ہے، ماضی میں یہ ''کوئی اور‘‘ اُس دور کی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ تو کیا اب بھی یہ ''کوئی اور‘‘
وہی ہے؟ اگست 2014ء کی دھرنا بغاوت کے پس پردہ کیا کیا کہانیاں عام ہوئیں‘ جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس اور قومی اسمبلی میں ان کی آخری تقریر نے کئی گوشے بے نقاب کر دیے تھے‘ لیکن آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی آئین کے ساتھ کمٹمنٹ غالب رہی اور دھرنا بغاوت کا سکرپٹ مطلوبہ نتائج نہ لا سکا۔ اپنے آئینی حلف سے آرمی چیف کی کمٹمنٹ اب بھی اُسی طرح ہے۔ خود حکومتی حلقے سول اور آرمی قیادت کے ایک ہی پیج پر ہونے پر اصرار کرتے ہیں (ہمارا سوچا سمجھا خیال بھی یہی ہے)۔
آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے حوالے سے مختلف کہانیاں پھیلنے (یا پھیلائی جانے) لگیں تو خود انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کوئی 10 ماہ پہلے یہ اعلان کر دیا کہ وہ ایکسٹینشن کی خواہش رکھتے ہیں، نہ اُسے قبول کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ (ضربِ عضب) سے لے کر چائنہ پاک اکنامک کاریڈور کی تعمیر و تکمیل تک، وزیر اعظم اور آرمی چیف شانہ بشانہ نظر آتے ہیں‘ جس پر وزیر اعظم کو گزشتہ دِنوں آرمی چیف کا سرِعام شکریہ ادا کرنے میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ وہ قومی تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں (آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی کارفرمائی کے اعلیٰ تر تصورات رکھنے والے ہمارے بعض دوستوں کے خیال میں وزیر اعظم کو آرمی چیف کا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ایسا کیا تو اس میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں کتنے آرمی چیف تھے‘ جنہوں نے موجودہ آرمی چیف کی طرح خالص پروفیشنلزم اور آئینی حکومت سے وفاداری کا اس طرح مظاہرہ کیا ہو؟)
بظاہر سطح پُرسکون تھی۔ میاں صاحب کی حکومت کے بُرے دِن گزر گئے تھے۔ خان صاحب بھی تھک ہار کر اپنے صوبے کے پی کے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ درمیانی راستہ نکل آیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی شکایات بھی ایسی سنگین نہیں تھیں کہ کسی بڑے بحران کا سبب بن جاتیں۔ معیشت سنبھل رہی تھی، توانائی کے میگا پروجیکٹس آگے بڑھ رہے تھے۔ سی پیک پر پیش رفت ہو رہی تھی۔ بے روزگاری اور صحت و تعلیم کے مسائل اپنی جگہ، لیکن اصلاحِ احوال کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ سے عوام کی امیدیں برقرار تھیں۔ اور موجودہ حکومت کی باقی ماندہ آئینی مدت کے لیے ''ستّے خیراں‘‘ تھی، محاورے کی زبان میں راوی چین لکھ رہا تھا۔ دُور کی خبر لانے والے تو 2018ء کے عام انتخابات کو بھی مسلم لیگ(ن) کے نام کر رہے تھے اور 2023ء تک سیاسی مخالفین کے لیے کوئی امکان نہیں دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں وزیر اعظم کی اس بات سے کہ عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتوں کا، کسی اور کے ہاتھوں ٹوٹنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے‘ عدم استحکام کا تاثر پیدا ہوا (جسے آپ غیر ضروری اور غیر حقیقی بھی قرار دے سکتے ہیں)۔
حقیقت یہ ہے کہ دونوں میاں صاحبان اپنی اور اپنی مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ کے حوالے سے ہمیشہ بہت حساس رہے ہیں۔ سیاست میں perception کی اہمیت کا انہیں شدت سے احساس رہا ہے؛ چنانچہ سیاست میں ''گُڈوِل‘‘ اور ''کریڈیبلٹی‘‘ کی ضرورت اور افادیت کو انہوں نے کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ ووٹروں میں بھی ان کی کریڈیبلٹی برقرار رہی، جنہوں نے کرپشن کے الزامات پر یقین نہ کیا۔ میاں صاحب کے گزشتہ دور (1997-1999ء) میں انہوں نے بجلی چوری کو چیک کرنے کا معاملہ فوج کو سونپا، اِسے مکمل فری ہینڈ دیا اور اس میں کسی سیاسی و جماعتی تعلق کی پروا نہ کی۔ میاں معراج الدین لاہور کی معزز اور بزرگ سیاسی شخصیت تھے‘ جو میاں برادران کے عملی سیاست میں آنے سے پہلے بھی سیاست میں ایک بڑا نام تھے۔ وہ لاہور کی ارائیں برادری میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ ہم نے کئی بار دیکھا، ماڈل ٹاؤن کی کھلی کچہری میں وہ لیٹ آئے تو میاں صاحب نے اپنی تقریر روک کر ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں سٹیج پر اپنے ساتھ جگہ دی۔ بجلی چوری کے خلاف مہم کے دوران گڑھی شاہو لاہور میں ان کے سینما میں بجلی چوری پائی گئی، انہوں نے سینما ٹھیکے پر دیا ہوا تھا اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی ٹھیکیدار کے ذمے تھی لیکن وہ اس ناکردہ گناہ پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی صوبائی وزارت سے مستعفی ہو گئے۔
جھنگ میں یہی معاملہ بیگم عابدہ حسین کے ساتھ ہوا (جو میاں صاحب کی وفاقی کابینہ کی اہم رکن تھیں)۔ ان کے اصطبل میں بجلی کے میٹر درست نہیں پائے گئے تھے۔ سوئی گیس کے نادہندہ صنعتی صارفین کے معاملے میں بھی میاں صاحب نے اِسی ''بے لحاظی‘‘ کا مظاہرہ کیا اور اس میں کسی سیاسی یا خاندانی رشتے کو کوئی اہمیت نہ دی۔
بدقسمتی سے ان کے موجودہ عہد میں شاندار روایات کا یہ سلسلہ آگے نہ بڑھا۔ ایک دو صوبائی وزرا پر لگنے والے الزامات غلط ہوں گے لیکن وزارت واپس لے کر انہیں قانون کے سپرد کر دیا جاتا تو یہ مسلم لیگ کی قیادت اور ان ''معصوموں‘‘ کے حق میں بھی مفید ہوتا۔ میاں صاحب کے گزشتہ دور میں سیف الرحمن والے احتساب بیورو کے ہاتھوں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب آصف زرداری کے خلاف کرپشن مقدمات (جو سوئس عدالتوں تک بھی پہنچے) اور پھر مشرف نے انہیں جس طرح سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کیا (این آر او)، وہ ایک الگ کہانی ہے۔
میثاقِ جمہوریت کی تیاری کے دوران ایک مرحلے پر، محترمہ نے میاں صاحب سے درخواست کی کہ وہ سیف الرحمن سے بیان دلوا دیں کہ ان کے خلاف یہ مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے لیکن میاں صاحب طَرح دے گئے۔ انہوں نے میثاقِ جمہوریت میں ''ماضی میں سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے کرپشن مقدمات‘‘ کے خاتمے کی شق ڈالنے سے بھی اتفاق نہ کیا، اس کی بجائے Truth and Reconciliation Commission کی شق رکھی گئی۔
سیاسی مقاصد سے بالاتر احتساب کے غیر جانبدارانہ و آزادانہ نظام کی تشکیل پر بھی اتفاقِ رائے ہوا۔ زرداری صاحب کے گزشتہ (5 سالہ) دور میں احتساب بل پر اس لیے اتفاقِ رائے نہ ہو سکا کہ پیپلز پارٹی اس کا آغاز اکتوبر 1999ء سے چاہتی تھی (یوں میاں صاحب اور محترمہ کے گزشتہ دونوں ادوار احتساب سے مستثنیٰ ہو جاتے) لیکن میاں صاحب اِسے 1988ء سے شروع کرنا چاہتے تھے‘ جس میں دونوں کی، دونوں حکومتیں بھی آجاتی تھیں۔ چیئرمین نیب کو طاقتور بنانے کے لیے میاں صاحب اس کی مدت کو آئینی تحفظ دینے پر مصر تھے کہ اس کی علیحدگی کے لیے وہی طریق کار اختیار کیا جائے جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے سلسلے میں بروئے کار آتا ہے۔
احتساب کے حوالے سے ایسا جاندار مؤقف اور شاندار ریکارڈ رکھنے والی سیاسی قیادت نے نیب کے طریق کار کی شکایت کی ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت اپنی جگہ لیکن اِس سے انکار شاید ممکن نہ ہو کہ اس کے لیے پراپر فورم وہ نہیں تھا، جہاں میاں صاحب نے یہ بات کہی اور یہ بھی کہ اس سے تاثر بہت غلط گیا۔ سیاست اور اہلِ سیاست سے بیزار ہمارے دانشور دوستوں کو یہ پروپیگنڈا آگے بڑھانے کا موقع ملا کہ سیاسی و جمہوری دور میں احتساب ممکن ہی نہیں اور اس کارِ خیر کے لیے کسی ''مسیحا‘‘ کی ضرورت ہے۔