برادرم خورشید ندیم اپنے ادارے آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (ORE) کے ساتھ، پھر بروئے کار آئے۔ لاہور میں میڈیا سے وابستہ بعض احباب کے مل بیٹھنے کا اہتمام کیا کہ پاکستان میں پُرامن معاشرے کے لیے میڈیا کے کردار پر مکالمہ ہو سکے، ایک ایسا معاشرہ جس میں فکر و نظر کے اختلاف اور اس کے اظہار کی آزادی ہو، تحمل و برداشت کا حامل معاشرہ، انگریزی میں Tolerant Society کہہ لیں۔ اس نشست میں میڈیا کی جیّد شخصیات بھی تھیں اور نوجوان لوگ بھی۔ ان میں ہر ایک صاحب الرائے تھا لیکن 2 گھنٹے کی نشست میں جناب مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، حفیظ اللہ نیازی، وجاہت مسعود، فرخ سہیل گوئندی، عامر خاکوانی، یاسر پیرزادہ، سلمان عابد، اجمل شاہ دین، حسنین جمال، انور سمرا، حنیف قمر اور عدنان کاکڑ ہی اظہارِ خیال کر سکے۔ ''نصف آبادی‘‘ کی نمائندگی کے لیے صرف فرزانہ ارشد موجود تھیں۔ میڈیا کے کردار کے حوالے سے، یہ ایک طرح سے خود احتسابی کا اہتمام تھا، بے رحمانہ احتساب۔ اس میں بات بے بات ''بریکنگ نیوز‘‘ کرائم کو glorify کرنے والے پروگرام، شور شرابے اور مخالفین کے لیے توہین و تضحیک کے حامل ٹاک شوز اور نیم عریاں اشتہارات زیر غور تھے۔ ایک رائے یہ تھی کہ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کا ادارہ غیر مؤثر ہو چکا تو الیکٹرانک میڈیا میں بھی ''پروڈیوسر‘‘ محض ''سہولت کار‘‘ بن کر رہ گیا ہے جس کا کام ''اینکر‘‘ کے لیے مہمانوں کا اہتمام کرنا ہے۔ ادھر ''اینکر‘‘ (حضرات و خواتین) over grow کر گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سکرین پر وہی بِکتے ہیں ( شامی صاحب اس کے لیے مدھو بالا کی مثال لائے جس پر ہم نے عرض کیا، برادرِ محترم اپنے دور سے مثال لائے ہیں، آج کترینہ کیف کا دور ہے۔) اپنی حیثیت اور اہمیت کا یہ احساس من مانی اور منہ زوری میں ڈھل جاتا ہے۔ میڈیا کے ریگولیٹر اِداروں کے حوالے سے بات PEMRA تک پہنچی، کچھ عرصہ قبل جس کی بے بسی کا اعتراف خود وزیر
اطلاعات اِن الفاظ میں کر چکے ۔ پیمرا کے مقابلے میں میڈیا ہاؤسز بہت طاقتور ہو گئے ہیں (سنا ہے، اب ابصار عالم کی سربراہی میں پیمرا نے کچھ کچھ دانت نکالنے بلکہ دِکھانے شروع کئے ہیں۔) اور پھر بات ''Narrative‘‘ تک جا پہنچی، ہمارے لبرل اور سیکولر دوستوں کا پسندیدہ موضوع، جن کے خیال میں دہشت گردی کا سبب یہ ہے کہ ریاست کا کوئی Narrative ہی نہیں۔ اگر ہے تو اسے بدلنے اور نئے حالات، نئے چیلنجز کے مطابق از سرِ نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے‘ لیکن پاکستان نامی ریاست کا Narrative تو اس کے جنم سے پہلے ہی تشکیل پا چکا تھا... ''پاکستان کا مطلب کیا، لااِلہٰ اِلاّاللہ‘‘ ۔اصغر سودائی نامی ایک شاعر کا مصرع سہی جو مسلم لیگ کے جلسے، جلوسوں میں چل نکلا لیکن بانیٔ پاکستان کی ان تقاریر کا کیا کریں‘ جن میں انہوں نے پاکستان کو جدید دور میں اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا تھا، اسلامی ثقافت، اسلامی تہذیب، اسلام کے اخلاقی، سماجی، سیاسی، معاشی اور قانونی نظام کا اتنا ذکر کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے بقول یوں لگتا تھا، قائد اعظم اسلام کی قوالی کر رہے ہوں۔ قائد کی گیارہ اگست کی تقریر سے سیکولرازم ڈھونڈ نکالنے والے ہمارے دانشور دوست، اس کے بعدکی اِن تقاریر پر کیا کہیں گے‘ جن میں بانیٔ پاکستان نے پھر اسلامی نظام کی بات کی۔ وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں نئی مملکت کو پریمئر اسلامک سٹیٹ قرار دے ڈالا۔
مارچ 1949ء کی قراردادِ مقاصد میں قائد اعظم کے رفقا اور تحریکِ پاکستان کے قائدین پر مشتمل پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ایک بار پھر مملکتِ خداداد کے Narrativeکا اعادہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ کو کائنات کا مقتدرِ اعلیٰ تسلیم کرنے والی یہ قرار داد ہمارے بعض دوستوں کو شاق گزرتی ہے لیکن وہ یہیں رُک کر سیاپا کرنے کی بجائے ذرا آگے بڑھیں تو دیکھیں گے کہ اسی قرارداد میں اس اقتدار و اختیار کو ایسی مقدس امانت قرار دیا گیا ہے جسے ریاست پاکستان ''عوام کے منتخب نمائندوں ‘‘ کے ذریعے بروئے کار لائے گی(کسی مذہبی گروہ کی پاپائیت اور کسی فرد یا اِدارے کی ڈکٹیٹر شپ سے صریح انکارکے ساتھ) جمہوریت، آزادی ، مساوات ، برداشت اور سماجی انصاف کی کارفرمائی اور اقلیتوں ، پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کے جائز حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
ہمارے روشن خیال دوست قراردادِ مقاصد کو قدامت پسند بزرگوں کی سوچ قرار دے سکتے ہیں لیکن بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں 1973ء کا آئین تو قوم کے تمام سیاسی و مذہبی مکاتبِ فکر کے اتفاقِ رائے سے تشکیل پایا تھا جس میں بھٹو اور اُن کے رفقا جیسے روشن خیال بھی تھے، ولی خاں جیسے نیشنلسٹ اور مفتی محمود ، نورانی میاں اور پروفیسر غفور صاحب جیسے مذہبی بھی۔ نئے پاکستان میں اتفاقِ رائے کے ساتھ تشکیل پانے والے اس آئین میں بھی ریاست کا Narrative وہی پرانا ہے۔ یہ ''اسلامی جمہوریہ‘‘ پاکستان کا آئین ہے جس کا سرکاری مذہب اسلام ہے (اور اس کے بعد متعدد اسلامی شقیں۔) ہمارے دانشور دوست جنہیں ریاست کے نام ہی پر اعتراض ہوتا ہے
''اسلامی جمہوریہ کیوں؟‘‘ اوراس کے ساتھ ان کا استدلال کہ آئین میں ترمیم بھی تو ہوسکتی ہے۔ جی ! بالکل ہوسکتی ہے لیکن آئین کا بنیادی ڈھانچہ(Basic Structure Theory) تبدیل نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ ظفر علی شاہ کیس میں بنیادی ڈھانچے کی وضاحت بھی کرچکی... آئین کا اسلامی، وفاقی اور پارلیمانی کردار، عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق ۔ دوتہائی اکثریت تو کجا، پارلیمنٹ 100فیصد اکثریت کے ساتھ بھی اِسے تبدیل نہیں کرسکتی۔ ہمارے دوست اس کے لیے پارلیمنٹ کی ساورنٹی کا فلسفہ لاتے ہیں لیکن معاف کیجئے، ساورن ، پارلیمنٹ نہیں، کانسٹی ٹیوشن ہے جو آئین ساز اسمبلی نے بنایا۔ اب یہاں اختیارات کی تقسیم ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ، ریاست کے تین ستون ( دِل کے بہلانے کو ہم میڈیاوالے چوتھا ستون ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔) تقسیم ِ اختیارات کا یہ اہتمام چیک اینڈ بیلنس کے فلسفے پر مبنی ہے۔ آپ ریاست کا Narrative بدلنا چاہتے ہیں تو اس میں 1973ء کا آئین حائل ہے۔ نئے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ آپ نیا آئین بنالیں لیکن یہ کارِ خیر پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں، نئی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے ہوگا اور کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکے گا؟
انصاف پر مبنی پُرامن معاشرے کے لیے (برادرم خورشید ندیم اور ان کا OREجس کی تلاش میں نکلے ہیں) ایک ہی Narrative ہوسکتا ہے،آئین کی بالادستی، اس کی پابندی اور اس کی کارفرمائی کا Narrative۔ ''دہشت گردوں ‘‘ کے خلاف ہمارا مقدمہ کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ بندوق کے ذریعے اپنا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا Narrative یہ ہے کہ ہم ''بندوق‘‘ کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے، یہ ''افراد‘‘ کے ہاتھ میں ہو یا کسی ''گروہ ‘‘ کے ہاتھ میں۔ جس کسی کو بھی اپنا ایجنڈا نافذ کرنا ہے، وہ اس کے لیے آئین اور قانون کا راستہ اختیار کرے۔ ''بُلٹ ‘‘ کا نہیں، ''بیلٹ‘‘ کا راستہ۔
یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ دوست (جن کی بڑی تعداد ''ریٹائرڈ‘‘ حضرات پر مشتمل ہے) آئین اور جمہوریت کے حوالے سے مایوسی پھیلا کر (کہ موجودہ نظام میںاصلاح ممکن ہی نہیں) بندوق کے ذریعے تبدیلی لانے والے دہشت گردوں کا مقدمہ توآگے نہیں بڑھاتے؟ شامی صاحب نے گزشتہ دِنوں کیا خوب بات کہی ، آئینی نظام کی بساط لپیٹ کر کسی ''مسیحا‘‘ کو آواز دینے والوں کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلانے کی بات۔
برادرم خورشید ندیم سے شروع ہونے والی بات، انہی کے آج (ہفتہ 27فروری) کے کالم پر ختم کرتے ہیں، ''شریف خاندان کا نظری تشخص‘‘جس میں غور و فکر کا خاصا اہتمام ہے اور بحث کا نیا موضوع بھی۔ اِن کے خیال میں لبرل طبقہ پیپلزپارٹی سے تمام تر مایوسی کے باوجود ، کبھی شریف خاندان کی سیاسی قیادت تسلیم نہیں کرے گا(چند موقع پرستوں کا معاملہ دوسرا ہے) تو کیا جماعتِ اسلامی اور اس کی سوچ سے متاثر، جو ووٹ بینک 1993ء میں(قاضی صاحب مرحوم کی ''اسلامک فرنٹ‘‘ والی پالیسی سے اختلاف کے باعث) میاں صاحب سے آملا تھا، مایوس ہو کر واپس بھی جاسکتا ہے(اگر جماعتِ اسلامی اپنی حکمتِ عملی میں چند تبدیلیوں پر آمادہ ہوا۔) ''قوس‘‘ اور ''بارش‘‘ کے بعد، منفرد لب و لہجے کے شاعر برادرم سعود عثمانی نے گزشتہ روز اپنی تیسری تخلیق''جل پری‘‘ ہدیہ کی، ان کی غزل کے دواشعار ، جو شاید آپ کو یہاں حسبِ حال محسوس ہوں:
یہاں مکین تھے پہلے سے میرے خواہش و خواب
میں بے کشش تو خرابات میں نہیں آیا
میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی
میں تم سے شوقِ ملاقات میں نہیں آیا