"RTC" (space) message & send to 7575

’’جل پری‘‘

1997ء میں سعود عثمانی کا پہلا مجموعۂ کلام ''قوس‘‘ منظرِ عام پر آیا اور ادبی دُنیا میں ایک تہلکہ سا مچاگیا۔ اس سے قبل اصحابِ نقد و نظر میں سے بعض کی رائے تھی کہ صنفِ غزل میں اب کہنے کو کچھ نہیں رہا۔ ''قوس‘‘ آئی تو اس صنف سے الرجک افراد کے لیے جناب احمد ندیم قاسمی کا مشورہ تھا کہ وہ کم از کم سعود عثمانی کو تو پڑھ لیں کہ اس نے غزل کے پیکر میں نئی روح پھونک دی ہے۔ قاسمی صاحب کا مزید کہنا تھا، جب بعض حضرات یہ کہنے پر بضد نظر آتے ہیں کہ جدید غزل کہنے کے مدعی سب شعرا کی غزلیں ایک ہی سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں تو میں سعود عثمانی کی غزلوں کے متعدد اشعار سنا کر انہیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ سعود عثمانی صرف جدید غزل گو نہیں، جدید ترغزل گو ہے، جس کی غزلوں کے بین السطور مجھے اس صنف کے نئے امکانات جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ ادھر ڈاکٹر خورشید رضوی کہہ رہے تھے،'' اردو غزل کے جدید تر نمائندوں میں بہت کم لوگ ہیں جو سعودعثمانی کی نفاستِ کلام کو پہنچ سکتے ہیں، اس نے کوئی نام نہاد جدّت طرازی نہیں کی، کوئی مضحکہ خیز تجربہ نہیں کیا، نئی صنف یا ہیئت ایجاد کرنے کا روگ نہیں پالا، برتے ہوئے اسالیب کو برتا ہے مگر اس کے زندہ لمس سے خوابیدہ الفاظ اور غنودہ تر اکیب جاگ اُٹھی ہیں اور ان میں زندہ مفاہیم لَو دینے لگے ہیں‘‘۔ اپنی اسی انفرادیت کے باعث ''قوس‘‘ اکادمی ادبیات کے زیراہتمام اس سال کے ''وزیراعظم ادبی ایوارڈ (اوّل )‘‘ کا مستحق قرار پایا۔
سعود کے دوسرے مجموعہ کلام ''بارش ‘‘ کی آمد دس سال بعد ہوئی جو ادبی حلقوں میں نئی حیرت لایا۔ جناب مشفق خواجہ جیسے بے رحم اور بے لحاظ نقاد کو بھی اس اعتراف میں عار نہ تھی کہ'' سعود کا یہ مجموعۂ کلام ، شاعری کے عام مجموعوں سے مختلف نکلا اور مجھے لفظ بہ لفظ پڑھنا پڑا۔میرا حاصلِ مطالعہ مسرت بھی ہے اور حیرت بھی۔ مسرت اس بات کی کہ اس کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جو دامن کشِ دل نہ ہو اور حیرت اس پر کہ ایسا شاعر کہاں سے آگیا جس نے غزل کے مستقبل سے میری مایوسی کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ موجودہ دور میں غزل گوؤں کی کثرت اور غزل کے گِرتے ہوئے معیار کی وجہ سے میرا خیال تھا کہ اب اس صنف سے کوئی خوش گمانی نہیں رکھنی چاہیے مگر اب میں غزل کے مستقبل سے پُراُمید ہوں۔ کلاسیکی روایت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی منفرد انداز اختیار کرنا ناممکنات میں سے ہے لیکن سعود نے کیسی آسانی سے ناممکن کو ممکن بنادیا ہے‘‘۔''بارش‘‘ کو بھی دُنیائے ادب میں بے حد مقبولیت ملی اور ''احمد ندیم قاسمی ایوارڈ 2007ء‘‘ سمیت کئی ادبی ایوارڈز اس کے حصے میں بھی آئے۔ 
اور اب نو سال بعد سعود نے ادبی دُنیا کو ''جل پری‘‘ کے نام سے تیسرا مجموعۂ کلام پیش کیا ہے لیکن اس پر گفتگو سے پہلے خود سعود عثمانی سے ایک طویل ملاقات کا مختصر احوال۔ یہ جون 2005ء کی بات ہے ، سعود عالمی اردو مرکز جدّہ کے زیراہتمام ایک مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ ایک دِن فرصت پا کر ہم نے انہیں جالیا۔ ادبی معاملات و مسائل کے ساتھ خود اُن کی ذات کے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ سعود کہہ رہے تھے:
ہمہ قبیلۂ من عالمانِ دیں بودند
مرا معلمِ عشق تو شاعری آموخت
''قبیلہ تو ہمارا عالمانِ دین کا تھا لیکن شاعری تیرے عشق نے سکھائی‘‘ ۔ سعود کا خاندانی پس منظر بھی دینی اور ادبی تھا۔ برصغیر کے مشہور عالمِ دین مفتی محمد شفیع (جنہیں مفتیٔ اعظم پاکستان بھی کہا گیا) اس کے دادا تھے۔ جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب جن کا اسلامی فقہ اور اسلامی بینکنگ پر خاصا کام ہے، اس کے چچا ہیں۔ مفتیٔ اعظم، صاحبِ کتاب شاعر تھے۔ ''کشکول‘‘ کے نام سے ان کے شعری مجموعے میں فارسی، عربی اور اردو ، تینوں زبانوں کے اشعار شامل ہیں۔ اس میں حمد و نعت سمیت دینی موضوعات کے ساتھ غزل بھی ہے، اپنے پورے تعزل کے ساتھ، کمال کی غزل ؎
آثار سارے صبحِ قیامت کے ہو گئے
محفل میں آج کون سرِشام آ گیا
ایک اور شعر ؎
ڈھونڈیں ہم اب نقوشِ سبک رفتگاں کہاں
اب گردِ کارواں بھی نہیں، کارواں کہاں
سعود کے والد ذکی کیفی بھی صاحبِ کتاب تھے۔ اُن کی ''کیفیات‘‘ اہل نقد و نظر میں وسیع پیمانے پر پذیرائی کی مستحق ٹھہری۔
1947ء کی ہجرت میں سعود کے دادا نے کراچی کا رُخ کیا تو والد صاحب نے لاہور کو مسکن بنایا۔ یہاں بڑے نامور لوگ اُن کے احباب میں شامل تھے، شورش کاشمیری، احسان دانش، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب ۔۔۔اور جنابِ مجیب الرحمن شامی بھی قریبی رسم و راہ رکھتے۔ کیفی صاحب کی ''کیفیات‘‘ کا ایک ذائقہ ؎ 
قدم قدم پہ ذرا کوئی جاں کو ہارے تو
ہماری طرح کوئی زندگی گزارے تو
بہت قریب سے دیکھا ہے میں نے آج ان کو
مری نگاہ کا صدقہ کوئی اتارے تو
سعود کے چچا جسٹس تقی عثمانی صاحب بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔ سعود انہیں اپنا استاد بھی کہتے ہیں، جنہوں نے اُن کی شاعری کے ابتدائی دور میں بہت مفید مشورے دیئے۔ تقی صاحب کا نمونۂ کلام ؎
ہر تارِ پیرہن ہے کمندِ فصیلِ شوق
اُلجھے گی ہم سے گردشِ دوراں کہاں کہاں
بہت سے رہنما ہیں کارواں میں
یہ احساسِ زیاں ہے اور میں ہوں
میں ہر محفل میں انساں ڈھونڈتا ہوں
یہ سعیٔ رائیگاں ہے اور میں ہوں
''بارش ‘‘ کو نو سال ہونے کو آئے تھے، سعود سے ملاقات میں، ہم اس کے اگلے مجموعے کا پوچھتے تو وہ کہتا، تقریباً تیار ہے، بس نام کی تلاش ہے۔ اب یہ ''جل پری‘‘ کے نام سے آیا ہے، تو ہم جیسے تشنگانِ ادب کے لیے سیرابی کا اہتمام ہوگیا ہے۔ زندگی کی گہماگہمی اپنی ساری جہات اپنے ساتھ لے کر چلتی ہے۔ ہم قلم کے مزدوروں کی بھی روز مرہ زندگی روزگار ، سیاست اور صحافت کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ ایسے میں اگر معمول سے ہٹ کر فکرونظر کی شادابی اور آسودگی کا کوئی سامان ہو تو وہ تپتے صحرا میں ٹھنڈے میٹھے چشمے کے کنارے سرسبز درختوں کے درمیان وقت گزارنے جیسا لگتا ہے۔ ''جل پری‘‘ اس وقت ایسے ہی ایک نخلستان کی طرح دِل میں ٹھنڈک ڈالے ہوئے ہے۔ ''جل پری ‘‘ کا نام اچھوتا بھی ہے اور دلکش بھی۔شاعر نے شاعری کو'' جل پری‘‘ کیوں کہا ،یہ ان نثری ٹکڑوں سے بھی واضح ہوتا ہے جو کتاب میں موجود ہیں اور دیگر غزلوں کے اشعار سے بھی ۔ اور ایک نظم جس کا عنوان ہی ''جل پری‘‘ ہے اس گہرے شاعرانہ تخیل کو کمال طریقے سے واضح کرتی ہے جو کسی فنکار کی ذات کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھنے کا عمل ہے ۔یہ خیال بھی منفردہے اور اسے جس فنکارانہ مہارت سے نظم میں سمویا گیا ہے، وہ بھی کمال ہے ۔ 
پوری کتاب میں سعود عثمانی عجیب دنیاؤں اور نرالی کیفیات کی سیر کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ سیر اس کا قاری بھی کرتا ہے ۔ کالم میں زیادہ گنجائش نہ ہونے کے باعث غزلوں کے محض چند شعرشامل کرتا ہوں جو کفِ گُل فروش کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
میں جال سیتا ہوا مطمئن مچھیرا ہوں 
بھلے کہیں مرا رزقِ رواں چلا جائے
ترا کرم ہے کہ تعریف کے لیے تو ہے
جو تو نہ ہو تو یہ سب رائیگاں چلا جائے
......
اے عشقِ سینہ سوز مرے دل سے دل ملا
اور یوں کہ بس کلام ہو اور گفتگو نہ ہو
......
وہ برف پوش محبت اِدھر نہیں آتی 
اور اس پہاڑ کا لاوا اُدھر نہیں جاتا 
قیام جیسی کوئی حالتِ سفر ہے مری
ہوا میں جیسے پرندہ ٹھہر نہیں جاتا
......
یہ مون سون تو پھر آبسا ہے آنکھوں میں 
اور اب کی بار یہ برسات میں نہیں آیا
میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی 
میں تم سے شوقِ ملاقات میں نہیں آیا 
''جل پری‘‘ کا ایک گوشہ ننانوے اشعار پر مشتمل ایک غزلِ مسلسل پر مشتمل ہے جسے سعود نے عشق گرد کا نام دیا ہے۔ یہ اردو شاعری میں ایک نیا اور منفرد ذائقے کا تجربہ لگتا ہے ۔ 
میں ایسے پڑا تھا عشق کے پاؤں 
جیسے کوئی آبلہ پڑا تھا
اس شعلۂ خوش بدن کا پرتَو
مجھ پر بھی ذرا ذرا پڑا تھا
اے عشق مجھے تری قسم ہے 
میں کب سے بے نشہ پڑا تھا
''جل پری‘‘ ایک بار پڑھ کر سیری نہیں ہوتی اور یہی اعلیٰ شاعری کی پہچان ہے۔ سعود عثمانی اور اردو شاعری کو ''جل پری‘‘ مبارک ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں