خاتونِ خانہ کو ہانڈی چاٹنے کی عادت تھی‘ جو اس کے مہذب میاں کو بہت بُری لگتی۔ یہ عادت چھڑانے کے لیے اس نے لاکھ سمجھایا، کئی جتن کئے لیکن کوئی نصیحت، کوئی حربہ کارگر نہ ہوا‘ تو ایک دِن دھمکی دے دی، تمہیں آئندہ ہانڈی چاٹتے دیکھا تو سمجھو تین طلاقیں ہو گئیں‘ لیکن پرانی عادت آسانی سے تھوڑا چھوٹتی ہے۔ ایک شام صاحب گھر آئے تو دیکھا، محترمہ ہانڈی چاٹ رہی تھیں۔ گویا تین طلاقیں ہو گئیں۔ اس ایک بری عادت کے سوا، خاتون میں سو خوبیاں تھیں۔ اب تین طلاقیں ہو جانے پر موصوف بہت پچھتائے اور واپسی کا کوئی شرعی طریقہ ڈھونڈنے، پیر صاحب کے آستانے پر پہنچ گئے۔ یہاں حاضری کے کسی مسئلے کا حل دریافت کرنے کے اپنے ''ادب، آداب‘‘ تھے، اپنے ''لوازمات‘‘ تھے، پریشان حال شخص کو جن کا خیال نہ رہا تھا۔ سائل جس طرح ''روکھا، سوکھا‘‘ آیا تھا، جواب میں پیر صاحب کا رویّہ بھی ایسا ہی تھا۔ فرمایا: تین طلاقیں تو ہو گئیں، اب علیحدگی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ عقدِ ثانی کے لیے ''حلالہ‘‘ والا مسئلہ سنا دیا۔ سائل مایوسی و نامرادی کے عالم میں حجرے سے باہر آیا‘ تو پیر صاحب کے کارندۂ خاص نے کہا: عجیب آدمی ہو، منہ اُٹھا کے چلے آئے۔ کل پورے ''اہتمام‘‘ سے دوبارہ آؤ، پیر صاحب کو اطمینان سے مسئلہ بتاؤ تاکہ وہ مکمل غور و خوض کے ساتھ اس کا کوئی حل بتا سکیں۔ وہ پورے ''اہتمام‘‘ (نذر نیاز) کے ساتھ اگلے روز دوبارہ حاضر ہوا۔ پیر صاحب نے کہا، تم نے شرط کیا لگائی تھی؟... ہانڈی کو چاٹتے دیکھا تو طلاق!... تو اس شام تم نے کیا دیکھا، کیا وہ اپنا منہ ہانڈی کے اندر ڈال کر زبان سے اُسے چاٹ رہی تھی؟... نہیں جناب! وہ ہانڈی کے اندر انگلی پھیرتی اور اسے چاٹ لیتی!... گویا وہ ہانڈی نہیں، انگلی چاٹ رہی تھی، یوں طلاق تو نہ ہوئی۔ سائل کے من کی مراد بر آئی تھی۔ وہ خوشی خوشی اُلٹے پاؤں حجرے سے باہر نکل آیا۔
ظاہر ہے، دلیل اور منطق الگ چیز ہوتی ہے، حیلہ اور حجت ایک اور شے، ہمیں یہ حکایت مشرف کی بیرون ملک روانگی پر بعض وزرا کے نئے مؤقف پر یاد آئی۔ غداری اور قتل جیسے سنگین مقدمات میں ملوث ڈکٹیٹر بیرونِ ملک چلا گیا، اچھا ہوا، سول ملٹری ریلیشن شپ میں ایک مبینہ irritant ختم ہو گیا۔ دہشت گردی کے خلاف ضربِ عضب اور معیشت کی بحالی سمیت کتنے ہی سنگین مسائل ہیں، جن کے حل کے لیے سیاسی استحکام شرطِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کا ایک ہی صفحے پر ہونالازم! اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر آ گئے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے (اللہ تعالیٰ ہمارے ستم ظریف دوست کو ہدایت دے جو یہاں بھی شرارت سے باز نہیں آیا۔''اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کے صفحے پر کیا آنا تھا، خود حکومت پوری طرح اسٹیبلشمنٹ کے صفحے پر چلی گئی ہے‘‘)۔
مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا یہ مقدمہ 3نومبر 2007ء کے پی سی او پر قائم ہوا تھا۔ وردی کے ساتھ مشرف کے صدارتی انتخاب کی آئینی حیثیت کے کیس کا فیصلہ آنے کو تھا۔ اِدھر ڈکٹیٹر اور اس کے کیمپ میں اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ گمان غالب تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت مشرف کے صدارتی انتخاب کو غیر آئینی قرار دے گی؛ چنانچہ افتخار محمد چودھری والی ''سرکش‘‘ سپریم کورٹ (اور ہائی کورٹس کے بھی) ''ناپسندیدہ‘‘ ججوں سے نجات کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد آیا، یہ جمعہ دو نومبر 2007ء کی شام تھی۔ جدہ میں اپنے اخباری دفتر سے ہفتہ وار چھٹی کے باعث، ہم نمازِ عصر کے بعد شریف پیلس (قصرالشریف) چلے آئے تھے۔ (یہاں کچھ ذکر شریف پیلس کا بھی ہو جائے) 10ستمبر 2007ء کو میاں صاحب کو اسلام آباد سے بالجبر جدہ بھجوا دیا گیا (دوسری بار جلاوطنی) تو سعودی حکام نے بڑے ادب و احترام سے استفسار کیا کہ کیا وہ سرور پیلس میں قیام کرنا پسند کریں گے جہاں وہ دسمبر2000ء سے جنوری 2006ء(لندن روانگی) تک قیام پذیر رہے تھے؟ میاںصاحب کی لندن روانگی کے بعد حسین نواز اپنی فیملی کے ساتھ جدہ ہی میں قیام پذیر تھے۔شاہ کی طرف سے پیشکش تھی کہ حسین، سرور پیلس ہی میں مقیم رہیں لیکن میاں صاحب (اور خود حسین نے بھی) اِسے مناسب نہ سمجھا اور ''الحمرا‘‘ میں ایک جدید ''پیلس‘‘ خرید کر اس میں منتقل ہو گئے جسے اب شریف پیلس (قصرالشریف) کا نام دیدیا گیا تھا۔ 10ستمبر کی دوسری جلا وطنی پر میاں صاحب نے سرور پیلس کی بجائے شریف پیلس میں قیام کا فیصلہ کیا۔
2نومبر کو اُس شام ہم شریف پیلس میں تھے جب پاکستان سے میاں صاحب کو کال آئی۔ باخبر کالر کا کہنا تھا کہ مشرف نے اپنی صدارت کے خلاف متوقع فیصلے سے بچنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے آزاد منش ججوں سے نجات کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا ہے (اس بار منہ زور میڈیا بھی ہدف ہو گا) ادھر میاں صاحب کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم تھی کہ آئین جس ایمرجنسی کی اجازت دیتا ہے، اس کے تحت ججوں سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ اگلے روز پرویز مشرف نے جس اقدام (پی سی او) کا اعلان کیا، وہ کسی آئینی اختیار کے تحت بطور صدرِ مملکت نہیں بلکہ آرمی چیف کے طور پر تھا۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوجی اقدام کی طرح اس غیر آئینی اقدام کو بھی مارشل لا کا نام نہیں دیا گیا تھا بلکہ اسے ''ایمرجنسی پلس‘‘ کہا گیا جس کا ہدف حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا تھا۔ سات سال قبل 12اکتوبر کا اقدام بھی مشرف (اور کارگل کے مس ایڈونچر میں شریک) اس کے دو، تین فوجی رفقا نے اپنی نوکریاں بچانے کے لیے کیا اور اب 3 نومبر کا آئین شکن اقدام بھی ڈکٹیٹر نے مزید 5 سال کے لیے اپنی غیر آئینی صدارت کے لیے کیا تھا۔
مارچ2009ء میں چیف جسٹس افتخار چودھری والی عدلیہ کی بحالی کے بعد، یہاں 3نومبر 2007ء کے پی سی او کا کیس دائر کر دیا گیا۔ جولائی میں عدالتِ عظمیٰ نے اِسے غیر آئینی قرار دے دیا۔ ڈکٹیٹر اس دوران ایوانِ صدر سے (گارڈ آف آنر کے ساتھ) رخصتی کے بعد، ملک بھی چھوڑ چکا تھا۔ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد یہ میاں صاحب کی تیسری وزارتِ عظمیٰ تھی۔ سپریم کورٹ میں 3 نومبر کے پی سی او کے حوالے سے سنگین غداری کا کیس زیر سماعت تھا اور 24 جون کو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو حکومت کا مؤقف بتانا تھا کہ وہ یہ کیس چلانا چاہتی ہے یا نہیں۔صبح کابینہ کے اجلاس میں یہ معاملہ زیر غور آیا جس کے بعد وزیر اعظم نے اس حساس ترین مسئلے پر ملک کے سب سے بڑے منتخب ایوان کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم کہہ رہے تھے: ''نومنتخب حکومت کو جو مسائل ورثے میں ملے ان میں توانائی کا بحران، امن و امان کے سنگین مسائل، بے کاری و بے روزگاری، معیشت کی زبوں حالی، دہشت گردی اور قومی اقتدار اعلیٰ کو درپیش چیلنج شامل ہیں۔ عوام اِن مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ 11مئی کے مینڈیٹ کا مقصد بھی یہی تھا‘‘۔ اب وہ آج کے اصل نکتے کی طرف آئے، '' جناب سپیکر! یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے بیشتر مسائل آئین سے انحراف اور آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی عملداری کا بھی تقاضا ہے کہ اس کی حکم عدولی نہ کی جائے اور عدالتی فیصلوں پر سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ آج پاکستان کے آخری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق معاملہ کرنے کا مسئلہ درپیش ہے جس نے ایک بار نہیں، دو بار آئین کو توڑا اور دونوں بار کوئی نام نہاد قومی مصلحت نہیں، بلکہ ذاتی مفاد اس کا محرک بنا‘‘۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا، حکومت نے مشرف کے تین نومبر کے آئین شکن اقدام کے خلاف کیس کی پیروی کا فیصلہ کیا ہے (ایوان میں ڈیسک بجائے جا رہے تھے)۔ ہم اس روز پریس گیلری میں موجود تھے۔ یاد پڑتا ہے، ایک شیخ رشید کی آواز تھی جو مخالفت میں اُٹھی۔ اُن کا خیال تھا، اس سے سول ملٹری ریلیشن شپ کشیدگی سے دوچار ہو جائے گی، فوج اپنے سابق سربراہ کے ساتھ ''توہین آمیز سلوک‘‘ برداشت نہیں کرے گی۔
11مئی 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ڈکٹیٹر وطن لوٹ آیا۔ الیکشن کے حوالے سے جو بیتی، وہ الگ قصہ ہے اور عدالتی کارروائی ایک الگ کہانی‘ جس سے بچنے کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے۔ 2 جنوری 2014ء کو عدالت جاتے ہوئے ''دل کی تکلیف کے باعث‘‘ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا رُخ کیا‘ اور وہاں 31 مارچ تک ''زیرعلاج ‘‘ رہا۔ اس ''یقین دہانی‘‘ پر کہ فردِ جرم کیلئے وہ ایک بار عدالت آ جائے جس کے بعد وہ بیرونِ ملک جانے کیلئے آزاد ہو گا، وہ ایک پیشی پر حاضر ہو گیا، لیکن ابھی ''قید و بند‘‘ کی کچھ آزمائش باقی تھی۔ اسی دوران خان صاحب اور جناب علامہ کی دھرنا بغاوت کو بھی اس کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ ادھر مختلف مقدمات میںقابل ضمانت اور ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوتے رہے۔ اور اب ''سنگین خرابیٔ صحت‘‘ کے بہانے وہ ایک بار پھر بیرونِ ملک چلا گیا ہے‘ جس پر حکومت (اور بعض وزرا) میڈیا کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں تو یہ خلافِ توقع نہیں، لیکن اس پر پیپلز پارٹی کا احتجاج چہ معنی دارد؟ گزشتہ شب ایک ٹی وی ٹاک شو میں جناب لطیف کھوسہ کا کیس خاصہ مضبوط تھا لیکن جواب میں پرویز رشید نے جو آئینہ دکھایا، اس میں خود پیپلز پارٹی کا چہرہ بھی خاصا داغدار تھا۔
پس حرف: نظریۂ ضرورت پھر زندہ ہو گیا‘‘سوشل میڈیا پر شور بپا ہے، ''ایسے میں افتخار چودھری کہاں ہیں‘‘؟