"RTC" (space) message & send to 7575

دستور سازی اور دستور شکنی کی کہانی

نواب زادہ صاحب کے الفاظ میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ دستور سازی اور دستور شکنی پر مشتمل ہے۔ یہاں وہ یہ مصرع بھی پڑھا کرتے ع
کہ میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا
1954ء کے آئین کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ یہ آئین اور آئین ساز اسمبلی، بیورو کریٹ گورنر جنرل ملک غلام محمد کی من مانی کی نذر ہو گئی۔ دو سال بعد 1956ء کا آئین منظور ہوا، جس پر ملک کے دونوں حصوں(مشرقی اور مغربی پاکستان) میں جشن کا سماں تھا، سارے ملک میں چراغاں ہوا۔ اس کے تحت 1959ء کے اوائل میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات منعقد ہونا تھے کہ 7اکتوبر کو صدر سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی تائید کے ساتھ شب خون مارا۔ یہ مملکتِ خداداد میں پہلا مارشل لاء تھا...(اس سے پہلے 1953ء کی اینٹی قادیانی موومنٹ میں لاہور جنرل اعظم خان کے مارشل لاء کا مزا چکھ چکا تھا)بیس دن بعد ایوب خان سکندر مرزا کو رخصت کر کے خود سیاہ و سفید کے مالک بن گئے... 1962ء تک ملک میں عریاں مارشل لاء نافذ رہا۔ اسے سیاسی جامہ پہنانے کے لیے 1962ء کا آئین نافذ کیا گیا۔ یہ کسی آئین ساز اسمبلی کا بنایا ہوا نہیں تھا بلکہ فیلڈ مارشل کی طرف سے اپنی قوم کے لیے ''عطیہ‘‘ تھا۔ بنیادی جمہوریت کے فلسفے پر مبنی یہ صدارتی آئین تھا، جس میں صدر اور قومی و صوبائی اسمبلیوںکے انتخاب کا حق، ملک کے دونوں حصوں میں بنیادی جمہورتیوں کے 40،40ہزار ارکان کو حاصل تھا(نواب زادہ صاحب انہیں ''سیاسی پنڈت‘‘ قرار دیتے تھے) 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نو نکاتی منشور میں صدارتی کی بجائے پارلیمانی نظام اور 80ہزار بی ڈی ممبرز کی جگہ بالغ رائے دہی کی بات کی گئی تھی...(ووٹر کی عمر 21 سال مقرر کی گئی تھی) مادر ملت کو بدترین انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے ہرا دیا گیا۔
1968ء کے اواخر میں ایوب خان کے خلاف مہم ڈکٹیٹر کی طلب کردہ رائونڈ ٹیبل کانفرنس پر منتج ہوئی جس میں ایوب خان نے وفاقی پارلیمانی نظام اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخاب کے دونوں بنیادی مطالبات تسلیم کر لیے(وہ آئندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار نہ بننے کا پہلے ہی اعلان کر چکے تھے) مغربی پاکستان سے جناب بھٹو اور مشرقی پاکستان سے عبدالحمید بھاشانی نے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وہ اِسے ایوب خان کے ساتھ سودا بازی قرار دے رہے تھے۔ ادھر جنرل یحییٰ خان کی نظر یں اقتدار پر لگی ہوئی تھیں۔ آخر 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان، جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر ایوانِ اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ تب ایک رائے یہ تھی کہ یحییٰ خان نئی آئین سازی کے چکر میں پڑنے کی بجائے، 1956ء کا آئین بحال کر دیں لیکن ڈکٹیٹر کے اپنے عزائم تھے۔ اس نے ون یونٹ توڑا، مشرقی اور مغربی پاکستان میں پیریٹی(مساوی نمائندگی) کو ختم کر کے آبادی کی بنیاد پر نمائندگی کے اصول کے تحت آئین ساز اسمبلی کے انتخاب کا اعلان کر دیا... انتخابات ہوئے، لیکن آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کی نوبت ہی نہ آئی...جناب بھٹو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکاجانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کر رہے تھے۔... آخر کار نوبت مشرقی پاکستان میں 25مارچ کے فوجی آپریشن تک پہنچ گئی۔ 16دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش ہوگیا۔ اِدھر بھٹو صاحب کا ''نیا پاکستان‘‘ تھا جنہیں یحییٰ خان سے مارشل لاء ورثے میں ملا۔ یوں وہ پاکستان ہی کے نہیں، شاید دنیا بھر کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے۔ اپریل 1972ء میں انہوں نے مارشل لاء کی جگہ عبوری آئین نافذ کیا(جس میں وہ مطلق العنان صدر تھے) ادھر اسمبلی میں آئین سازی کا کام شروع ہوا۔بھٹو صاحب نے بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل کی زیر قیادت نیپ اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومت ختم کر دی تھی(جس پر صوبہ سرحد میں مفتی محمود کی زیر قیادت مخلوط حکومت احتجاجاً مستعفی ہو گئی ) اِدھر جیلوں میں میاں طفیل محمد اور ملک محمد قاسم سمیت کتنے ہی اپوزیشن لیڈربدترین عتاب کا نشانہ بنے۔مارچ 1973ء میں لیاقت باغ راولپنڈی میں اپوزیشن کا جلسہ ''ریاستی دہشت گردی‘‘ کانشانہ بنا۔ اس سب کچھ کے باوجود، خان عبدالولی خاں کی زیر قیادت اپوزیشن نے آئین کی اتفاق رائے سے منظوری میں بھرپور کردار ادا کیا۔(نواب خیر بخش مری اور احمد رضا قصوری سمیت 9ارکان تھے جنہوں نے آئین پر دستخط سے انکار کر دیا تھا)
جمہوریت کو مستقبل میں کسی طالع آزما کے شب خون سے بچانے کے لیے آرٹیکل 6کا اہتمام کیا گیا تھا۔ 14اگست 1973ء کی صبح آئین نافذ ہوا۔ اب بھٹو صاحب آل پاور فل پرائم منسٹر تھے اور اسی شام ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ عوام کے بنیادی حقوق معطل کر دئیے گئے۔ پھر من مانی ترامیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ اتفاق رائے سے منظور ہونے والے آئین میں جولائی 1977ء تک سات ترامیم ہو چکی تھیں۔ ان میں قادیانیوں والی ترمیم سمیت، صرف دو ترامیم متفقہ تھیں۔ باقی پانچوں ترامیم، حکمران پارٹی کی اکثریت کے ذریعے بلڈوز کی گئی تھیں۔ ایک مرحلے پر تو اپوزیشن کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھا کر ایوان سے باہر پھینک دیا گیا تھا(اِن میں مفتی محمود بھی تھے)
1981ء میں ضیاء الحق کے خلاف ایم آرڈی بنی تو 1973ء کے آئین کی بحالی اس کا اہم نکتہ تھا۔ نواب زادہ صاحب کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا جب کوئی گستاخ اخبار نویس سوال کر دیتا‘ جناب! 1973ء کا کونسا آئین؟ وہ جو اتفاق رائے سے منظور ہوا یا وہ جو 4جولائی 1977ء کو نافذتھا(من مانی اور یکطرفہ ترامیم والا آئین)؟ 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی نے 8ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے پارلیمانی کیریکٹر کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ 58/2B کے ذریعے حکومت کی برطرفی اور اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ صدر کو گورنروں اور سروس چیفس کے تقرر کے اختیارات بھی دے دیئے گئے تھے۔ صدر ضیاء الحق اِسے انتقالِ اقتدار کی بجائے اشتراکِ اقتدار کا اہتمام قرار دیتے۔ 4نومبر 1996ء تک چار وزرائے اعظم اور ان کی اسمبلیاں 58/2B کی نذر ہو گئیں(پہلا شکار وزیر اعظم جونیجو بنے، پھر بے نظیر بھٹو، ان کے بعد نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو) نواز شریف 1997ء میں دوبارہ برسرِ اقتدار آئے تو ان کا پہلا کام 13ویں ترمیم تھا۔ قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت، پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ منظور ہونے والی اس ترمیم نے آئین کا حقیقی پارلیمانی کردار بحال کر دیا تھا۔
12اکتوبر 99ء کو نواز شریف حکومت فوجی کارروائی کا شکار ہو گئی۔اکتوبر 2002ء کے انتخابات کے بعد، سال بھر قومی اسمبلی ایک طرح کے ڈیڈلاک کا شکار رہی۔ بالآخر متحدہ مجلس عمل کی تائید کے ساتھ 17ویں ترمیم منظور ہو گئی۔ دسمبر 2004ء تک وردی اتارنے کے زبانی وعدے پر، متحدہ مجلس عمل نے صدر کو ایک بار پھر وہ بے پناہ اختیارات سونپ دیئے تھے، جن کا کسی پارلیمانی جمہوریت میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا(بعد میںمشرف وردی اتارنے کے وعدے سے منحرف ہو گیا) 2008ء والی اسمبلی نے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے 18ویں ترمیم منظور کی جس میں وزیر اعظم کے اختیارات کی بحالی کے ساتھ، صوبائی خود مختاری کے حوالے سے صوبوں کو وہ اختیارات بھی دے دیئے گئے جو وفاقی پارلیمانی نظام کے حامل دنیا کے بیشتر ممالک میں دیئے گئے صوبائی اختیارات سے کہیں بڑھ کر تھے۔
دہشت گردی انتہا کو پہنچی تو 21ویں ترمیم کا ڈول ڈالا گیا۔ فوجی عدالتوں کو جنم دینے والی اس ترمیم کی منظوری کے وقت چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے آنسو نکل آئے تھے۔ ان کی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آرٹیکل 6طالع آزمائی کا راستہ نہیں روک سکا، تو اسے آئین سے حذف ہی کیوں نہ کر دیا جائے؟
اس آرٹیکل کو آئین کا محافظ قرار دیا گیا تھا جس میں آئین کی تخریب سنگین غداری قرار پائی تھی۔ اس کے باوجود فوجی طالع آزمائی کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ مشرف نے تو دوبار آئین شکنی کا ارتکاب کیا، اور دونوں بار کوئی عظیم تر قومی مفاد، کوئی ناگزیر ملی مصلحت اس کا سبب نہیں تھی، صرف اپنا ''ذاتی مفاد‘‘ تھا جو بروئے کار آیا۔3نومبر 2007ء کے PCO کو تو سپریم کورٹ بھی آئین شکنی قرار دے چکی، اس کے تحت ڈکٹیٹر کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہے اور عدالت پوچھ رہی ہے، ملزم بیرون ملک کیسے چلا گیا؟ ادھر بعض ریٹائرڈ عسکری دانشور دھڑلّے کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں، کہ ملک یا آئین میں سے کسی ایک کو بچا لیں، کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ حالانکہ یہ آئین ہی ہے، جو وفاقِ پاکستان کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کی حفاظت کرتا ہے۔
دہشت گردوں کے لیے، پاکستان کے بدخواہوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کا دن کوئی نہیں ہو گا جب اس ملک میں آئین کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور دہشت گردی کے چیلنج سے دوچار، پاک فوج سیاسی تائید و حمایت سے محروم ہو کر گوناگوں مسائل کی دلدل میں اتر جائے گی لیکن راحیل شریف جیسے پروفیشنل، دور اندیش اور حقیقت شناس فوجی کمانڈر کی موجودگی میں یہ خواب کیوں دیکھے جائیں ‘یہ اندیشے کیوں پالے جائیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں