"RTC" (space) message & send to 7575

واپسی اور صرف ایک ہفتے بعد واپسی !

وزیراعظم نواز شریف گزشتہ بدھ کو لندن روانہ ہوئے اور آج (منگل کی سہ پہر) جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، وہ لندن سے پاکستان روانہ ہو چکے ہیں۔ روانگی سے قبل انہوں نے وفاقی وزراء کی اسلام آباد میں موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وفاقی دارالحکومت میں واپسی کی پہلی صبح ہی انہوں نے وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا تھا۔
سوموار کی شام، شامی صاحب کے ''نقطۂ نظر‘‘ کا آغاز ہوا ہی تھا کہ جامی نے لندن میں دنیا نیوزکے نمائندے کے پاس ایک بڑی بریکنگ نیوزکی اطلاع دی۔ وزیراعظم نوازشریف کی وطن واپسی کی نیوز۔ ایک بڑا سرپرائز۔ وقفے کے دوران ایک دوست کا فون آیا، میاں صاحب کی صرف ایک ہفتے بعد واپسی اور بطور وزیراعظم واپسی؟ کیا تم میڈیا والوں کو شرمندہ کرنے کے لیے ہے؟ وقفہ ختم ہوگیا، جناب شامی اور جامی پھر سکرین پر تھے۔ہمیں اپنے ستم ظریف دوست کو ٹالنے کا موقع مل گیا تھا، شامی صاحب کا پروگرام ختم ہو گا تو بات کریں گے۔ لیکن اس کا فون نہ آیا۔ شاید اس دوران اس نے کچھ اوردوستوں کو جلی کٹی سنا کر کتھارسس کرلیا ہو۔ 
توکیا اب بیماری بھی پوچھ کر آیا کرے؟ گزشتہ کالم میں ہم میاں صاحب کو لندن میں پیش آنے والے دل کے حادثے کا ذکر کر چکے۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا سوئے اتفاق کہ پانامہ لیکس کے بعد وہ ''ہفتہ وارچھٹی‘‘ پر لاہور میں تھے کہ جاتی عمرہ میں ایک میٹنگ کے اختتام پر انہوں نے اُٹھنے کی کوشش کی تو بائیں ٹانگ نے جواب دے دیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ خون میں کلاٹ تھا جو ٹانگ میں آکر رک گیا، یہ دل یا دماغ تک نہیں پہنچا تھا ورنہ خدانخواستہ صورتحال سنگین تر ہو جاتی۔ لاہور میں اور خود میاں صاحب کے اپنے دونوں ہسپتالوں میں امراضِ دل کے معالجے کا بہت اچھا اہتمام ہے، لیکن یہاں کے ڈاکٹروں نے لندن کے انہی ڈاکٹروں سے رابطے کا مشورہ دیا جنہوں نے پانچ سال قبل ان کا علاج کیا تھا۔
اب افواہوں، خواہشوں، تبصروں اور تجزیوں کا طوفان تھا۔ کینیڈا سے آواز آئی، یہ دل والی بات تو محض بہانہ ہے، اصل کام پانامہ کے کھاتوںکو ٹھیک ٹھاک کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ممتاز آئینی ماہر (جنہوں نے بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ میں پنجاب کی وزارت، پھر بی بی کی حکومت میں وفاقی وزارت داخلہ انجوائے کرنے کے علاوہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ڈرائیور کے طور پر مقبولیت کی انتہا دیکھی لیکن بدقسمتی سے 2013ء کے عام انتخابات میں لاہور سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اپنی اہلیہ محترمہ کی ضمانت بھی نہ بچاسکے) فرمایا، بیماری شِماری کچھ نہیں ، اصل میں تو زرداری صاحب کے دربار میں حاضری کے لئے جا رہے ہیں کہ وہ 2014ء کے دھرنوں کی طرح اب پانامہ بحران میں بھی انہیں بچا لیں۔ 
سیاست دانوں اور اپنے ہاں کے سیاست دانوں سے تو آپ کسی بھی لن ترانی کی توقع کر سکتے ہیں، لیکن میڈیا میں موجود ہمارے بعض دوستوں کا رویہ بھی مختلف نہیں ہوتا۔ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیںخیال میں۔ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ سے رخصتی کا فیصلہ ہو چکا، اب ان کا متبادل کون ہو گا؟ کیا معاملہ قبل از وقت انتخابات کی طرف جا رہا ہے؟ ایک صاحب ٹیکنوکریٹس کی تین سالہ عبوری حکومت کی خبر دے رہے تھے جو پہلے ''گند‘‘ صاف کرے گی، پھر الیکشن کرائے گی۔
''مائنس ون‘‘ اپنے ہاں بعض حلقوں کا پرانہ فارمولہ رہا ہے۔۔۔۔ پیپلز پارٹی مائنس بھٹو فیملی، ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین، مسلم لیگ مائنس نواز شریف۔ عدلیہ کے بحران میں سپریم کورٹ مائنس افتخار محمد چوہدری فارمولا بھی تھا، جس پر خود امریکی بھی اصرار کرتے۔ معاون وزیر خارجہ بائوچر سے لے کر امریکی سفیر این پیٹرسن تک نواز شریف کو اس پر آمادہ کرتے رہے لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا، یہ کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بغیر وہ سپریم کورٹ کی بحالی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ دورکی کوڑی لانے والے ہمارے دوست کا اصرار تھا ''ماضی کو چھوڑو، آج کی بات کرو اور آج کی بات یہ ہے کہ مائنس ون ہو چکا۔ نواز شریف بطور وزیراعظم جا تو رہے ہیں لیکن ان کی واپسی۔۔۔اور بہت دیر بعد واپسی۔۔۔ وزیراعظم کے طور پر نہیں ہوگی‘‘۔
دسمبر 2011ء یاد آیا۔ صدر زرداری کو میموگیٹ سکینڈل نے آلیا تھا، یہ ان کی زندگی کا بدترین بحران تھا۔ر پھر 6 دسمبرکی شام ان کی دبئی روانگی کی خبر آگئی۔ اس کے ساتھ ہی افواہوں، خواہشوں،تبصروں اور تجزیوں کا طوفان۔ دشمنوں کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی اور اپنوں کو اندیشہ ہائے دوردراز نے آلیا تھا۔ اپنے ہاں کے میڈیا کو تو چھوڑیئے، امریکہ کا سنجیدہ اور ثقہ''فارن پالیسی میگزین‘‘ بھی اسے ایوانِ صدر سے رخصتی کا محفوظ اور باعزت راستہ قرار دے رہا تھا۔ زرداری صاحب دبئی کے ہسپتال میں دس دن زیرعلاج رہنے کے بعد گھر منتقل ہوگئے تو وہاں صدارتی کیمپ آفس کے قیام اور ایوانِ صدر سے سٹاف کی دبئی منتقلی کی''خبریں‘‘ آنے لگیں لیکن گھر پر صرف دو روز آرام کے بعد زرداری صاحب وطن لوٹ آئے۔
اور اب وزیراعظم نواز شریف کا سرپرائز ریٹرن۔ نوازشریف کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو جانے اور تین سال کی ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبر لانے والا ہمارا دوست ریٹائرڈ عسکری دانشور آج صبح اپنے مارننگ شو میں ہفتے بھرکے ان واقعات کو ایک ڈرامہ قراردے رہا تھا۔ لند ن روانگی سے قبل والدہ صاحبہ کی دست بوسی کی تصویر اس کے خیال میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا حربہ تھا۔ لندن میں ڈاکٹر سے معائنے کی تصویر بھی اس کے نزدیک مشکوک تھی۔
گزشتہ بدھ کو لندن پہنچنے پر وزیراعظم کی باڈی لینگویج کسی بھی دبائو سے آزاد تھی۔ اخبار نویسوں سے گفتگو میں''مائنس ون‘‘ ہو جانے کی کوئی علامت، کوئی تاثر نہیں تھا۔ پوچھا گیا، آپ اپنے''معاملات‘‘ درست کرنے یہاں آئے ہیں؟ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، اس کے لیے تو مجھے پانامہ جانا چاہیے تھا۔ عمران خاں کی تیسر ی شادی؟ انہوں نے اسے بھی انجوائے کیا اورکہا، کسی کے ذاتی معاملات پر گفتگو مناسب نہیں۔ اور یہ بات کہتے ہوئے وہ بڑے پرُعزم اور پرُاعتماد تھے کہ اپنے طبی معائنے کے بعد واپس جا کر وہ زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ (2018ء تک) اپنے اقتصادی ایجنڈے کو آگے بڑھائیںگے۔ اور آج منگل کی سہ پہر لندن سے روانگی پر اخبار نویسوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس میںاگر چہ ان کا نام نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔ 
پانامہ پیپرز اس وضاحت ((Disclaimerکے ساتھ منظر عام پر آئے کہ یہ آف شورکمپنیاں غیر قانونی نہیں۔ یہ بھی لازم نہیں کہ ان میں لگا ہوا سرمایہ غیر قانونی ہو۔ ان کمپنیوں میں حسین، حسن اور مریم نواز کا نام بھی ہے۔ پانامہ لیکس سے پہلے خود حسین نواز اپنے انٹر ویوز میں ان کمپنیوں کی اونر شپ کا''اعتراف‘‘کر چکے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ خود پانامہ لیکس میں اسے قانونی یا غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا اور خود وزیراعظم کو بھی اس کی تحقیقات سے انکار نہیں۔ قوم کے نام اپنے 5 اپریل کے خطاب میں وہ ریٹائرڈ جسٹس کے بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقات کی درخواست کر دیتے تو مناسب ہوتا۔ اس صورت میں Initiative عمران خان کے ہاتھ میں نہ جاتا۔ جوڈیشل کمشن کے حوالے سے خان کا ریکارڈ اگر چہ چنداں قابل ِرشک نہیں۔ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن کی فائنڈنگ آنے کے بعد بھی وہ انہی الزامات کا اعادہ کرتے رہے جنہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے تین سینئر ترین جج غلط قرار دے چکے تھے۔ اب پانامہ لیکس کے سلسلے میں وزیراعظم کی طرف سے اسی طرح کے جوڈیشل کمشن کے اعلان سے اتمام ِ حجت تو ہو جاتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں