ان تین برسوں میں لاہور میں جناب وزیر اعظم کی یہ پہلی پریس بریفنگ تھی۔ وہ حسبِ معمول خوشگوار موڈ میں تھے، کسی ذہنی یا نفسیاتی دباؤ کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ہفتے کی دوپہر گورنر ہاؤس لاہور میں مدیران جرائد، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور سینئر میڈیا پرسنز سے یہ ملاقات دو گھنٹے تک پھیل گئی تھی۔ اس سے قبل انہوں نے تین گھنٹے یہیں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی تھی، جس میں گورنر رفیق رجوانہ، وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید، پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر خاقان عباسی اور وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کے علاوہ متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران بھی شریک تھے اور اب ذرائع نشر و اشاعت سے وابستہ افراد کو بجلی، گیس، انفراسٹرکچر اور اکانومی کے حوالے سے گزشتہ تین سال میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرنا مقصود تھا۔ اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی گئی یہ تصاویر بلاشبہ خوشنما تھیں، وہ جو انگریزی میں Rosy Pictures کہا جاتا ہے، لیکن یہاں معاملہ محض اعداد و شمار سے بنائی جانے والی خوش رنگ اور خوشنما تصاویر کا نہ تھا، تعصب کی عینک نہ ہو تو یہ سب کچھ زمین پر بھی نظر آتا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بیوروکریٹ حضرات یہ تفصیلات ملٹی میڈیا کے ذریعے پیش کر رہے تھے، لیکن وزیر اعظم کو یہ تمام اعداد و شمار زبانی یاد تھے۔ کون سا منصوبہ کس مرحلے میں ہے، یہ کب تک پایہ تکمیل کو پہنچے گا، سب کچھ ان کی فنگر ٹپس پر تھا، یہ ان منصوبوں میں وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کا اظہار تھا۔ وہ یاد دلا رہے تھے کہ 2013ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ 12 سے 15 گھنٹے ہوتی تھی، پھر سال بہ سال اس میں کمی آتی گئی اور جنوری 2018ء میں وہ زیرو لوڈ شیڈنگ کی بات کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران‘ میں نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے کبھی سال یا چھ مہینے کی بات نہیں کی تھی (انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے بائیں جانب بیٹھے شہباز شریف کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا) میری ایک ہی کمٹمنٹ تھی، اپنی حکومت کے پانچ سال میں لوڈ شیدنگ کے خاتمے کی کمٹمنٹ اور الحمدللہ ہم اس کمٹمنٹ پر پورا اتریں گے۔ انہوں نے ایک اور بات کی طرف توجہ دلائی۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا وعدہ میں نے انتخابی مہم میں بھی نہیں کیا تھا، لیکن آج میں یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے ساتھ بجلی کی قیمت بھی گھٹائیں گے۔ یہاں انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ انڈسٹری کو آج بھی بجلی اور گیس کی فراہمی 100 فیصد ہے، وہاں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں۔
انفراسٹرکچر کی بات ہوئی تو وزیرِ اعظم نے بتایا کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ ایکٹیوٹی بلوچستان میں ہو رہی ہے۔ سڑکوں کا ایک جال ہے جو بچھ رہا ہے۔ اس سے بلوچستان کے احساس محرومی کے خاتمے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اسی طرح کی ایک سڑک کا افتتاح کچھ عرصہ قبل خود انہوں نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ کیا تھا۔ یہاں انہوں نے چائنہ پاک اکنامک کوریڈور کا بھی ذکر کیا۔ گوادر سنٹرل ایشیا سے Connect ہو گا‘ یہ ہمارے لئے بھی ضروری ہے اور خود سنٹرل ایشین ریاستیں بھی گوادر سے استفادہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہاں انہوں نے اپنے چینی دوستوں کی ستائش بھی ضروری سمجھی جو مشکل کی گھڑی میں کام آئے۔ 2013ء میں پاکستان کی اقتصادی مشکلات بے پناہ تھیں۔ ہمارے پاس تو 2000 میگاواٹ بجلی کا کارخانہ لگانے کے پیسے نہیں تھے، ایسے میں چینی دوستوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا CPECکا منصوبہ چین کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی چیلنجز کا جواب بھی تھا۔ انفراسٹرکچر کے حوالے سے لواری ٹنل کا ذکر بھی ہوا۔ 1975ء میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا، 2013ء تک اس پر صرف 7 ارب روپے خرچ ہوئے۔ موجودہ حکومت کے تین سال میں اس کے لیے سولہ، سترہ ارب روپے دیے جا چکے ہیں، اگلے سال مارچ تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق نے پاکستان ریلوے کے مردے کو زندہ کرنے کی کہانی سنائی اور داد پائی، اس کے ساتھ مستقبل کے خوابوں کا ذکر بھی۔
میڈیا میں اپنے لاہوری دوستوں سے وزیر اعظم کی گفتگو ''ہارٹ ٹو ہارٹ‘‘ تھی، ان کی حسِ مزاح کے تڑکے سے، جس کا لطف دوچند ہو گیا تھا۔
مختلف منصوبوں کی ڈیڈ لائن کے سوال پر وزیرِ اعظم نے کہا، اکثر منصوبے 2018ء کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں (موجودہ حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل اور نئے انتخابات کا سال) یہاں سلمان غنی نے سوال اٹھایا، کیا سیاسی مخالفین آپ کو 2018 ء تک جانے دیں گے؟ سوال معقول تھا، خود وزیرِ اعظم بھی یہ بات کہتے رہتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین نہیں چاہتے کہ ان کے شروع کردہ قومی تعمیر و ترقی اور عام آدمی کی فلاح و بہبود کے منصوبے پایہ ٔ تکمیل تک پہنچیںکہ اس صورت میں آئندہ الیکشن میں بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وزیرِ اعظم 2018ء تک ان منصوبوں کی تکمیل کے لئے سرگرم ہیں، یہی غم ان کے مخالفین کو کھائے جا رہا ہے۔
تو اور آرائش خم کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت پر تنقید اپوزیشن کا حق ہی نہیں، اس کا فرض بھی ہے۔ اپوزیشن کی بیشتر جماعتیں اپنا یہ فرض سیاسی بلوغت (Politial Maturity) کے ساتھ ادا کر رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک صاحب ہیں، ایک پارٹی ہے، میچورٹی سے محروم۔ اسے بس ایک ہی فکر ہے، نواز شریف کو جتنی جلدی ممکن ہو اسلام آباد سے نکال باہر کرو۔ اس نے تو گزشتہ دھرنوں میں اپنے دل کی بات صاف صاف کہہ دی تھی، ''میاں صاحب! ہُن ساڈی واری وی آن دیو‘‘ (میاں صاحب! اب ہماری باری بھی آنے دیں) انہیں باری مل جائے، چاہے ملک کا کباڑہ ہو جائے لیکن اس طرح تو باری نہیں ملے گی۔ ان mmature لوگوں کو اندازہ ہی نہیںکہ پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے اور گرد و پیش میں اور دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ داخلی استحکام کے علاوہ ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہیں اور یہ خوشگوار تعلقات ہمارے ہمسایوں کے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے وزیر اعظم نواز
شریف کہہ رہے تھے کہ امریکہ کے سرکاری دوروں میں صدر اوباما سے ان کی ملاقاتیں بہت خوشگوار رہیں، دونوں طرف سے نیک توقعات اور اچھی خواہشات کا اظہار کیا گیا۔ لیکن وہاں ایڈمنسٹریشن کچھ اور طرح سوچتی ہے، کانگریس والوں کے خیالات کچھ اور ہیں جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بہرحال ہمیں ایک دوسرے کے Concerns کو سمجھنا اور ان کے ازالے کی کوشش کرنا ہو گی۔ پاناما تحقیقات کی بات ہوئی تو وزیر اعظم نے کہا، ہم اس سے بھی آگے چلے گئے ہیں۔ صرف پاناما کیوں؟ آج تک ہم نے کسی سودے میں کوئی کک بیگ لیا ہے، کوئی کمیشن، کوئی کرپشن، کوئی ٹیکس چوری، کوئی منی لانڈرنگ، پاناما کے ساتھ اس سب کی تحقیقات بھی ہو جائے۔ ہم نے احتساب کے لیے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ ہم نے چیف جسٹس صاحب کو جو ڈیشل کمیشن بنانے کے لیے لکھا، ٹرمز آف ریفرنس بھی بھجوا دیے، وہ ان میں ترامیم اور توسیع بھی کر سکتے ہیں، وہ ترکی سے واپس تشریف لا چکے ہیں۔ امید ہے اپنے رفقا سے صلح مشورے کے بعد ایک دو دن میں جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے ان کا فیصلہ بھی سامنے آئے گا۔
کرپشن کے الزامات کے حوالے سے انہیں قاسمی صاحب کا برسوں پرانا ایک کالم یاد آیا، موٹر وے 27 ارب کا منصوبہ تھا اور اپوزیشن اس میں 427 ارب کا الزام لگا رہی تھی۔ جناب عارف نظامی نے مختصراًََ دو سوال اٹھائے، عمران خان کل لاہور میں میلہ لگا رہے ہیں، پھر رائیونڈ جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، کچھ اس کا علاج؟ میاں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا، آپ کو مجھ سے بہتر پتا ہے کہ خان صاحب لاعلاج ہیں یا ان کا کوئی علاج ہے۔۔۔۔
اور سول ملٹری تعلقات کا معاملہ، کیا دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں؟ وزیر اعظم صاحب نے کہا، اس کا جواب (باقی صفحہ13 پر)
خواجہ سعد رفیق زیادہ بہتر انداز میں اور بہتر الفاظ کے ساتھ دیں گے۔ خواجہ نے مائیک کھولے بغیر جواب دیا۔ عارف صاحب کا کہنا تھا، جواب سنائی نہیں دیا۔ میاں صاحب نے کہا، خواجہ صاحب آپ کو لکھ کر دیدیں گے۔ وزیرِ اعظم ٹال گئے لیکن اخبار نویس ٹلنے والے کہاں؟ اب سہیل وڑائچ تھے، انہوں نے بھی وہی سول ملٹری ریلیشن شپ کی بات کی اور یہ بھی کہ عمران خان تو محض ایکٹر ہے، ان کے پیچھے ڈائریکٹر کون ہیں؟ میاں صاحب نے یہ کہنے پر اکتفا کی، پتا نہیں، یہ کہاں کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہیں شاید مسائل کا، حقائق کا شعور ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو شامی صاحب اور ضیا شاہد کی اس بات سے اتفاق تھا کہ ان میگا پروجیکٹس کے ساتھ عوام کی بنیادی ضروریات خصوصاًََ صحت اور تعلیم، مہنگائی اور بے روزگاری کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ شامی صاحب نے تو یہاں لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کی کسمپرسی کا رونا بھی رویا۔
وزیرِ اعظم کی اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں تھا کہ آج حالات 2013ء کی نسبت بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا، آئندہ 2 سال انشاء اللہ اس سے بھی بہتر ہوں گے۔ وزیرِ اعظم کا اصرار تھا، عوام کا مینڈیٹ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے اور منتخب حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ٹارگٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اپوزیشن اپنا کام کرے، ہم اپنا کام کر رہے ہیں، فیصلہ 2018ء میں ہو گا۔ ''2018‘‘ کی بات انہوں نے زور دے کر کہی اور پورے اعتماد کے ساتھ کہی۔ اٹھتے اٹھتے شہباز صاحب بھی ایک اہم بات کہہ گئے: ''حسین اور حسن اپنا کیس خود پیش کریں گے اور سرخرو ہوں گے، لیکن ان کے متعلق آپ کیا کہیں گے جن کے قرضوں کی معافی کی خبریں بینک دستاویزات کے ساتھ شائع ہو چکیں اور جنہوں نے آج ہی کے اخبار میں لندن میں اپنے بچوں کی آف شور کمپنی کا اعتراف بھی کر لیا‘‘۔ نام لئے بغیر شہباز صاحب کا اشارہ عمران خان کے دستِ راست جہانگیر ترین کی طرف تھا۔
خواجہ سعد رفیق زیادہ بہتر انداز میں اور بہتر الفاظ کے ساتھ دیں گے۔ خواجہ نے مائیک کھولے بغیر جواب دیا۔ عارف صاحب کا کہنا تھا، جواب سنائی نہیں دیا۔ میاں صاحب نے کہا، خواجہ صاحب آپ کو لکھ کر دیدیں گے۔ وزیرِ اعظم ٹال گئے لیکن اخبار نویس ٹلنے والے کہاں؟ اب سہیل وڑائچ تھے، انہوں نے بھی وہی سول ملٹری ریلیشن شپ کی بات کی اور یہ بھی کہ عمران خان تو محض ایکٹر ہے، ان کے پیچھے ڈائریکٹر کون ہیں؟ میاں صاحب نے یہ کہنے پر اکتفا کی، پتا نہیں، یہ کہاں کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہیں شاید مسائل کا، حقائق کا شعور ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو شامی صاحب اور ضیا شاہد کی اس بات سے اتفاق تھا کہ ان میگا پروجیکٹس کے ساتھ عوام کی بنیادی ضروریات خصوصاً صحت اور تعلیم، مہنگائی اور بے روزگاری کی طرف توجہ بھی دی جائے۔ شامی صاحب نے تو یہاں لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کی کسمپرسی کا رونا بھی رویا۔
وزیرِ اعظم کی اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں تھا کہ آج حالات 2013ء کی نسبت بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا، آئندہ 2 سال انشاء اللہ اس سے بھی بہتر ہوں گے۔ وزیرِ اعظم کا اصرار تھا، عوام کا مینڈیٹ سبھی کو تسلیم کرنا چاہیے اور منتخب حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے ٹارگٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اپوزیشن اپنا کام کرے، ہم اپنا کام کر رہے ہیں، فیصلہ 2018ء میں ہو گا۔ ''2018‘‘ کی بات انہوں نے زور دے کر کہی اور پورے اعتماد کے ساتھ کہی۔ اٹھتے اٹھتے شہباز صاحب بھی ایک اہم بات کہہ گئے: ''حسین اور حسن اپنا کیس خود پیش کریں گے اور سرخرو ہوں گے، لیکن ان کے متعلق آپ کیا کہیں گے جن کے قرضوں کی معافی کی خبریں بینک دستاویزات کے ساتھ شائع ہو چکیں اور جنہوں نے آج ہی کے اخبار میں لندن میں اپنے بچوں کی آف شور کمپنی کا اعتراف بھی کر لیا‘‘۔ نام لئے بغیر شہباز صاحب کا اشارہ عمران خان کے دستِ راست جہانگیر ترین کی طرف تھا۔