"RTC" (space) message & send to 7575

’’مقدر کا سکندر‘‘

وہ جو اُردو کا محاورہ ہے 'بلّی کے بھاگو ں چھینکا ٹوٹا‘ 4 اپریل کو پانامہ لیکس میں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کی دو آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا آیا، عمران خان کی سیاست کو نئی زندگی مل گئی۔ خان اسے اللہ کا عطا کردہ ایسا عظیم موقع قرار دے رہا تھا‘ جو قوموں کو روز روز نصیب نہیں ہوتا‘ لیکن ہمارے ایک تقدیر پرست دوست کے بقول، قدرت نواز شریف پر بھی کچھ ایسی نامہرباں نہیں تھی۔ وہ بحران کے کلائمیکس پر خود عمران خان کی آف شور کمپنی کے انکشاف کو بطورِ مثال پیش کرتا ہے جس سے حکومت پر دبائو میں خاطر خواہ کمی آئی اور خود خان ڈیفنسو پوزیشن میں چلا گیا۔
2014ء کے دھرنوں کو بھی خان نے Defining Moment قرار دیا تھا۔ تب اس نے امپائر کی انگلی اُٹھ جانے کا وقت بھی دے دیا تھا، ہفتے کی شام‘ لیکن قسمت نے یاوری نہ کی۔ امپائر نے انگلی اُٹھانا تھی، نہ اُٹھائی۔ اب پانامہ لیکس کو وہ اللہ کی طرف سے پاکستانی قوم کی قسمت سنورنے کا ایک اور موقع قرار دے رہا تھا۔ پاکستانی قوم پر اس کا خالق و مالک کتنا مہربان تھا‘ جو اسے بار بار ایسے مواقع عطا کر رہا تھا‘ لیکن وہ میاں صاحب پر بھی ایسا نامہربان نہیں تھا۔ تیسری وزارت عظمیٰ کے تین برسوں میں کتنے ہی مواقع آئے جب بعض میڈیا پرسنز، ریٹائرڈ عسکری دانشور اور فرزندِ لال حویلی جیسے سیاسی نجومی رخصتی کی باقاعدہ تاریخیںدیتے رہے۔ بعض ''روحانی بابے‘‘ بھی وزیر اعظم کے لئے نہایت مشکل دنوں کی بری خبریں دے رہے تھے۔ گزشتہ سال جون کی بات ہے۔ ہم اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تین چار دوستوں کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر تھے، شفیق و محترم الطاف حسن قریشی بھی موجود تھے۔ روحانی بابوں سے ذاتی روابط رکھنے والا ہمارا اسلام آبادی دوست ان بزرگوں کے حوالے سے آئندہ دو تین ماہ کو نہایت خطرناک قرار دے رہا تھا۔ جولائی میں وسیع پیمانے پر خون خرابے کا خطرہ تھا‘ جس میں ایک بڑی شخصیت کی جان کے لئے بھی سنگین اندیشہ موجود تھا۔ وزیر اعظم کے ستارے بھی کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے تھے‘ لیکن ان کی حکومت کی سروائیول امکانات بھی موجود تھے کہ بیگم صاحبہ کا طاقتور ستارہ مدد کو آ جائے گا۔ اگلے روز لاہور واپسی کے سفر میں بھی یہ اندیشے ہمارے ساتھ تھے۔ پھر جون کے بعد کا سارا عرصہ (دہشت گردی کے کچھ واقعات سے قطع نظر) خیریت سے گزر گیا۔ یہاں تک کہ اپریل کے پہلے ہفتے پانامہ لیکس آ گئیں‘ اور میاں صاحب کی حکومت ایک بار پھر بھنور میں نظر آئی۔ اس دوران طبّی معائنے کے لئے لندن روانگی افواہوں کا نیا طوفان لائی لیکن‘ صرف چھ روز بعد وہ وطن لوٹ آئے۔ 
ادھر سِول ملٹری تعلقات بھی ایک بار پھر موضوع بحث تھے۔ بعض احباب پیمانۂ صبر لبریز ہو جانے کی اطلاع دے رہے تھے۔ چونتیس، پینتس روز کے وقفے کے ساتھ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات بھی نئے افسانے کا باعث بن گئی۔ آرمی چیف نے پانامہ کا مسئلہ جلد حل کرنے کا کہہ دیا ہے، ایک طرح کی ڈکٹیشن۔ جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے چیف جسٹس کے جوابی خط پر بھی طوطا مینا کی کہانیاں بن گئیں۔ اس دوران سولہ مئی (سوموار) کو قومی اسمبلی سے وزیر اعظم کے خطاب کی خبر بھی آ چکی تھی‘ لیکن بعض ٹی وی چینلز پر ہاہاکار مچی ہوئی تھی، سوموار تک بہت دیر ہو جائے گی، ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، حکومت نے دیر کر دی تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اسی ہائو ہو میں وزیر اعظم، صدر اردوان کی صاحبزادی کی شادی پر ترکی کا چکر بھی لگا آئے، اس سے پہلے ''کاسا 1000‘‘ کی افتتاحی تقریب کے سلسلے میں دوشنبے بھی ہو آئے تھے۔
اور آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، کروڑوں آنکھیں اور کان قومی اسمبلی کی طرف لگے ہوئے ہیں‘ جہاں وزیر اعظم پانامہ لیکس کے حوالے سے اپنا موقف بیان کریں گے۔ ادھر اپوزیشن کی تیاری بھی مکمل ہے لیکن اس دوران قدرت نے وزیر اعظم کے لئے بھی شاندار موقع فراہم کر دیا تھا، خان کی آف شور کمپنی... جس کے اعتراف میں اس نے تاخیر نہ کی‘ حالانکہ اس کے لئے گجرات کے چھوٹے چودھری صاحب کی مثال موجود تھی، پانامہ لیکس پر بغلیں بجانے والوں میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھے، پھر مونس کا نام بھی نکل آیا تو ان کا کہنا تھا، یہ نام نون لیگ والوں نے ڈلوا دیا ہے۔ خان کو یہ کہنے میں کوئی عار نہ تھی کہ برطانیہ کے بھاری ٹیکسوں سے بچنے کے لئے اُنھوں نے یہ کمپنی اپنے اکائونٹنٹ کے مشورے پر بنائی تھی (سوشل میڈیا پر ایک ستم ظریف کا تبصرہ تھا، تو کیا حسن اور حسین نے آف شور کمپنیاں اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے بنائی تھیں؟) البتہ خان سے کچھ چُوک ہو گئی، ان کے بقول اُنھوں نے 2003ء میں لندن کا فلیٹ بیچ کر یہ کمپنی تحلیل کر دی تھی‘ لیکن متعلقہ دستاویزکے مطابق یہ کمپنی یکم اکتوبر 2015ء تک موجود تھی۔ فروری 2014ء تک خان اس کے سالانہ ریٹرن جمع کراتے رہے تھے۔ 
خان کے ساتھ ایک اور بدقسمتی یہ ہوئی کہ پانامہ لیکس کے خلاف مہم میں ڈرائیونگ سیٹ پیپلز پارٹی نے سنبھال لی ہے، آف شور کمپنی کے انکشاف نے خان کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہمارے تقدیر پرست دوست کو اس سب کچھ میں نواز شریف کے مقدر کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے، ماں کی دعائیں بھی ان پر سایہ کئے رکھتی ہیں جس کی خوشنودی کو اطاعت گزار بیٹا سب سے بڑی عبادت سمجھتا ہے۔
میاں صاحب کے مقدر نے کہاں کہاں یاوری کی؟ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ موضوع ہے۔ اپریل 1993ء کے اوائل میں جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم کے درمیان کشمکش نقطہء عروج کی طرف بڑھ رہی تھی، اسمبلی کیفے ٹیریا میں کچھ مسلم لیگی ارکانِ پارلیمنٹ میں یہ بحران زیرِ بحث تھا۔ ایک بزرگ رکن کو تشویش تھی کہ جواں سال وزیر اعظم کا پالا ایک جہاندیدہ صدرسے پڑگیا ہے‘ کہنے والے جسے اسٹیبلشمنٹ کا گاڈ فادر بھی کہتے تھے۔ اس نے آغاز تحصیل داری سے کیا تھا اور آج ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہے۔ یوں لگتا ہے وہ مقدر کا سکندر ہے۔ اس پر ایک نوجوان رکن پارلیمنٹ جذباتی ہو گیا، ''لیکن میاں صاحب نے بھی کس تیزی سے سیاسی منزلیں طے کی ہیں‘ اور چند سال میں کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔ بابا مقدر کا سکندر ہے تو میاں مقدر کا سکندر اعظم ہے‘‘۔
محترمہ کی پہلی حکومت کے خاتمے پر نگران وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی ہی مستقل وزیر اعظم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کی چوائس تھے‘ لیکن 1990ء کا آئی جے آئی کا مینڈیٹ تو بنیادی طور پر نواز شریف کے لئے تھا‘ بالآخر ''فیصلہ سازوں کو‘‘ سر جھکاتے ہی بنی، پرائم منسٹر ہائوس کی جانب نواز شریف کا راستہ روکا نہ جا سکا۔ وزارتِ عظمیٰ کے ابتدائی دنوں میں ہی خلیج کے بحران کے مسئلے پر آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ساتھ کشمکش میں بھی وزیر اعظم سرخرو ٹھہرے۔ حزبِ اختلاف کے بعض مہم جو، جنرل بیگ کے ''زخموں‘‘ کو مسلسل چھیڑتے رہتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے چار ماہ قبل ہی ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا۔ آئوٹ گوئنگ آرمی چیف کی کسی مہم جوئی کا سدِباب ہو گیا تھا ۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے بحالی کے باوجود نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ جاری نہ رہ سکی کہ ایوانِ صدر میں اس کیخلاف سازشیں مسلسل جاری تھیں۔ اس بحران کا حل بالآخر دونوں کے استعفوں کی صورت میں نکلا۔ نئے الیکشن میں محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں، اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کا راستہ روکنے میں کامیاب رہی تھی لیکن نوازشریف بھی خسارے میں نہ رہے، اپوزیشن لیڈر کے طور پر ان کا سیاسی قد کہیں سے کہیں پہنچ گیا تھا۔ محترمہ کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد انتخابی مہم کی ایک سرد صبح نواز شریف کا ہیلی کاپٹر گجرات کی پرواز کیلئے تیار تھا‘ لیکن شدید بارش سدِراہ بنی ہوئی تھی۔ ماڈل ٹائون میں اپنے اخباری دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں سنجیدہ ہو گئے، ''بعض حلقوں کی طرف سے پہلے یہ کوشش تھی کہ انتخابات ہی نہ ہوں۔ وہ عبوری حکومت کو اڑھائی تین سال تک لے جانا چاہتے تھے۔ یہ ممکن نہ ہوا تو ہمیں انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش ہوئی۔ اس میں بھی ناکامی ہوئی تو اب ہمیں Curtail کرنے کے کوشش کی جا رہی ہے، اللہ اب بھی کرم کرے گا‘‘۔ اور پھر میاں صاحب کی دو تہائی اکثریت کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ اور یہ تو کل کی بات لگتی ہے ۔ ڈکٹیٹر کس رعونت کے ساتھ کہا کرتا تھا، میرے ہوتے ہوئے وہ واپس نہیں آئے گا، وہ آئے گا تو میں نہیں ہوں گا۔ وہ تیسری بار وزیر اعظم ہے اور سنگین غداری کا ملزم ڈکٹیٹر اپنے ملک میں نہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں