"RTC" (space) message & send to 7575

نواب زادہ کی سیاست اور برجستہ گوئی

بسا اوقات ایک شعر یا ایک مصرع لمبی چوڑی تقریر یا تحریر پر بھاری ہوتا ہے۔ اشعار کا بروقت اور برمحل استعمال تحریر اور تقریر میں ایسا حُسن پیدا کر دیتا ہے کہ پڑھنے‘سننے والا داد دیئے بغیر نہیں رہتا۔
نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم اس فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ مختلف مواقع پر استعمال کیے گئے نواب زادہ صاحب کے یہ فقرے‘ مصرعے اور اشعار آج بھی وہی لطف دیتے ہیں۔ یہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے زوال کے دن تھے ''صبح گیا کہ شام گیا‘‘ والی کیفیت تھی جب بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں کہا‘ ''ہاتھی کو میں نے گرایا‘ یہ گر گیا تو کیڑے مکوڑے بھی نکل آئے‘‘ اگلے روز نواب زادہ صاحب کا بیان تھا‘ ''ہم نے جب ہاتھی سے لڑائی کا آغاز کیا‘ تم اس کی دم کے ساتھ بندھے ہوئے تھے‘‘ اس ایک فقرے میں پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر کے خلاف 1962ء سے شروع ہونے والی جمہوری جدوجہد اور 1966ء میں ایوب خاں کی کابینہ سے اخراج تک‘ بھٹو صاحب کی طرف سے فیلڈ مارشل کی مدح و ستائش سب سمٹ آئی تھی۔ (یہاں گوہر ایوب کا ایک فقرہ بھی یاد آیا۔ 1990ء والی قومی اسمبلی میں نواز شریف وزیر اعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو قائد حزبِ اختلاف تھیں۔ فیلڈ مارشل کے صاحبزادے گوہر ایوب سپیکر تھے۔ اعجازالحق اور ہمایوں اختر بھی اس اسمبلی کے ممبر تھے۔ ایک دن محترمہ نے پھبتی کسی‘ ''ماشاء اللہ یہاں جرنیلوں کے بیٹے بھی موجود ہیں‘‘۔ گوہر ایوب خاں کو سپیکر کی کرسی کے تقاضوں کا احساس رہتا‘ تاہم یہاں وہ یہ کہے بغیر نہ رہے‘ ''محترمہ! ہمارا ایک بھائی ذوالفقار علی بھٹو بھی تھا‘‘ (بھٹو صاحب ایوب خاں کو ڈیڈی کہا کرتے تھے) نواب زادہ صاحب کے مذکورہ بالا فقرے میں ایوب خاں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنے والے حزبِ اختلاف کے 9 قائدین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ‘ جماعت اسلامی پر پابندی اور مولانا مودودی سمیت اس کے لیڈروں کی گرفتاری‘ جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ایوب خاں سے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا مقابلہ اور بدترین دھاندلی کے ذریعے ان کی شکست‘ پھر پاکستان تحریکِ جمہوریت کے پلیٹ فارم سے ایوب خاں کے خلاف نئی جمہوری جدوجہد اور قید و بند کی وہی صعوبتیں اور دوسری طرف جناب بھٹو کی طرف سے فیلڈ مارشل کی تعریف و توصیف اور ان کے آمرانہ نظام کی وکالت اور مدافعت‘ سب کچھ شامل تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد یہ بھٹو صاحب کا ''نیا پاکستان‘‘ تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں نواب زادہ نصراللہ خاں سمیت‘ کتنے ہی سیاستدان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کھا چکے تھے اور اب ''نئے پاکستان‘‘ میں وہ اسمبلی سے باہر رہتے ہوئے بھی حزبِ اختلاف کا مؤثر رول ادا کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب ان پر ''شکست خوردہ‘‘ ''عوام کے مسترد شدہ‘‘ ''مایوس اور ناکام‘‘ کی پھبتی کستے۔
ایک دن نواب زادہ صاحب کہہ رہے تھے‘ ''جناب! یہ شکست خوردہ‘ مسترد شدہ اور ناکام لوگوں کا کلب‘ بڑا محترم کلب ہے۔ اس میں تاریخ کے بڑے بڑے نام آتے ہیں‘ ان میں چرچل بھی ہے‘ ڈیگال بھی ہے اور ہاں! اس کلب کا ایک سینئر ممبر سر شاہنواز بھٹو بھی تھا (بھٹو کے والدِ محترم) وہ سینئر ممبر اس لیے تھے کہ ان کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی‘ الحمدللہ ہماری کبھی ضمانت ضبط نہیں ہوئی‘‘۔
بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کی موومنٹ ضیاء الحق کے مارشل لاء پر منتج ہوئی اور کچھ ہی دنوں بعد جناب ایئر مارشل اصغر خاں اور ان کی تحریک استقلال نے پی این اے کو خیرباد کہہ دیا۔ پی این اے کے لیڈر تحریکِ نظام مصطفی کے دوران جلسوں جلوسوں میں گلے میں قرآن پاک اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ نظامِ مصطفی کے نفاذ تک متحد رہیں گے۔ جنابِ اصغر خاں کا یہ اقدام پی این اے کے حامی عوام کے لیے بھی سخت صدمے کا باعث تھا۔ نواب زادہ صاحب اسے شہدائے تحریکِ نظامِ مصطفی کے خون سے غداری قرار دے رہے تھے جن کے کفن بھی ابھی میلے نہیں ہوئے تھے۔ ایئر مارشل صاحب کا کہنا تھا‘ ''نواب زادہ کہاں کا سیاستدان ہے؟ اس کے ہاں 80 فیصد شاعری‘ دس فیصد سیاست اور باقی سازش ہے‘‘۔ اگلے دن ایک جلسے میں نواب زادہ صاحب کا خطاب تھا۔ انہوں نے رقاصہ گوہر جان کا ذکر چھیڑا جس نے ایک بار اکبر الٰہ آبادی سے فرمائش کی کہ آپ نے بہت کچھ لکھا‘ کبھی ''بندی‘‘ کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے۔ حضرتِ اکبر نے فوراً تعمیل کی ؎
کون خوش بخت ہے اس شہر میں گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
اب نواب زادہ صاحب نے جناب اصغر خاں کا رخ کیا‘ ''قائدِ تحریک استقلال کو بھی اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے ‘ نہیں دیا تو استقلال نہیں دیا‘‘۔
قارئین کی یاد دہانی کے لیے‘ ایوب خاں کے آخری دنوں میں ایئر مارشل نے آزاد سیاستدان کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا۔ پھر جسٹس پارٹی بنائی جسے چار جماعتی اتحاد (پاکستان جمہوری پارٹی) میں ضم کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عملی سیاست سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہو گئے۔ اس میں شکست کے بعد تحریک استقلال بنائی اور بڑی ہمت و جرات کے ساتھ بھٹو صاحب کی سول آمریت کا مقابلہ کرتے رہے۔ 1977ء کے عام انتخابات کے لیے پی این اے بنا تو اس میں شامل ہو گئے۔ انتخابی مہم اور اس کے بعد احتجاجی تحریک میں وہ بلاشبہ بھٹو صاحب کے خلاف مقبول ترین لیڈر تھے۔ اسی مہم میں انہوں نے بھٹو صاحب کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ بھٹو صاحب کی رخصتی اور ضیاء الحق کی آمد کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ انہوں نے پی این اے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس پس منظر میں نواب زادہ صاحب کی طرف سے گوہر جان والا شعر اور اس کے بعد یہ فقرہ بہت مزہ دے گیا۔ ''قائد تحریک استقلال کو بھی اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے‘ نہیں دیا تو استقلال نہیں دیا‘‘۔
جنرل ضیاء الحق 90 روز کے لیے آئے تھے لیکن یہ 90 روز گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ ان کے اقتدار کی اس طوالت میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ وہ اندرون ملک ایک بڑے حلقے میں اپنی دینداری اور بعض دینی اقدامات کی وجہ سے بھی پسند کئے جاتے تھے۔ حزب اختلاف ضیاء الحق کے اسلامی اعلانات کو طولِ اقتدار کے لیے نمائشی اقدامات قرار دیتی۔ نواب زادہ اس حوالے سے یہ شعر پڑھتے اور جلسہ گاہ تالیوں سے گونج اٹھتی ؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بُولہبی
یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ اقتدار تھا۔ انہیں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے کہ گورنر بلوچستان جنرل موسیٰ خاں نے بلوچستان اسمبلی توڑ دی‘ جس پر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف سراپا احتجاج بن گئی۔ وہ اسے جمہوریت کے نئے سفر میں پہلا دھماکہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی جبکہ محترمہ اس سے اظہار بریت کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر نے یہ اقدام وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر کیا ہے‘ حزب اختلاف کی طرح انہیں بھی اس کا علم‘ خبر آنے پر ہی ہوا۔ نواب زادہ صاحب کہاں چوکنے والے تھے‘ محترمہ کے جواب میں کلیم عاجز کا شعر پڑھ دیا ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ‘ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ اکتوبر 1999ء کے اوائل کی بات ہے‘ ہم جدہ سے چھٹی پر لاہور آئے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور فوج (جنرل مشرف) میں کشیدگی کی خبریں عام تھیں۔ آرمی چیف‘ کور کمانڈر کوئٹہ جنرل طارق پرویز کو وزیر اعظم سے ملاقات کے ''الزام‘‘ میں معزول کر چکے چکے تھے۔ ایک شام ہم نواب زادہ صاحب کی خدمت میں حاضر تھے۔ منتخب وزیر اعظم اور ''فوجی قیادت‘‘ میں کشیدگی کا ذکر چھڑا تو ہم نے بزرگ سیاستدان سے جاننا چاہا‘ آخر اس کا انجام کیا ہو گا؟ نواب زادہ صاحب وزیر اعظم سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنا رکھا تھا۔ ''گو نواز گو‘‘ کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اس اتحاد میں جناب عمران خاں اور طاہرالقادری بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم اور فوج میں کشیدگی پر نواب زادہ صاحب خوش تھے۔ وہ اس کی ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد کرتے (ظاہر ہے''بابائے جمہوریت‘‘ کا یہ طرزِ فکر ہمارے لیے دکھ کا باعث تھا) یہاں انہوں نے کلیم عاجز کا ایک شعر پڑھا ؎
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے‘ ہے
جو گزر جائے‘ گزر جانے کو جی چاہے‘ ہے
ہماری فرمائش پر انہوں باقی ماندہ غزل بھی سنا دی۔ دو اشعار یاد ہیں ؎
رسن و دار اُدھر کاکل و رخسار اِدھر
دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے‘ ہے
درد ایسا ہے کہ جی چاہے‘ ہے زندہ رہیے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے‘ ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں