سید مشاہد حسین کے ساتھ برسوں پرانی گفتگو یاد آئی۔ میں نے پوچھا‘ نواز شریف(پہلی بار) وزیر اعظم بنے تو آپ کا شمار ان ترقی پسند دانشوروں اور اخبار نویسوں میں ہوتا تھا جو ان کے سخت ترین ناقد تھے۔ آپ تو انہیں''ہریسہ وزیر اعظم‘‘ بھی لکھتے رہے۔ پھر آپ نہ صرف ان کی سیاست کے معترف ہوئے بلکہ عملی سیاست کے لیے ان کی رفاقت بھی اختیار کر لی۔ یہ قلب ماہیت کیوں کر ہوئی؟ مشاہد صاحب کا جواب خاصا طویل تھا مختصراً یہ کہ ایک تو انہوں نے میاں صاحب کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پروپیل سیاست کا حوالہ دیا‘ دوسرے ان کی جرأت و بہادری اور دلیری و دلاوری کی تحسین کی۔ وہ کہہ رہے تھے‘ ایک خیال یہ تھا کہ میاں صاحب بزنس مین ہیں جنہیں ''راہِ راست‘‘ پر لانے کے لیے انکم ٹیکس وغیرہ کے چند نوٹس ہی کافی ہوں گے لیکن اپنی اصولی سیاست کے لیے انہوں نے بے پناہ کاروباری نقصانات کی بھی پروا نہ کی...پھر یہ بھی کہ پنجاب جرنیل‘بیوروکریٹ اور ایس ایچ او تو پیدا کرتا ہے لیکن سیاسی قیادت کے لیے اس کی کوکھ بانجھ ہے۔ اسی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواز شریف نے ایک قومی لیڈر کی حیثیت سے اپنا آپ منوایا۔ مشاہد نے یہ دانشورانہ نکتہ بھی اٹھایا‘ وہ پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ''انڈر اسٹیمیٹڈ‘‘Under Estimatedلیڈر ہیں۔ وہ چونکہ عموماً بڑھک نہیں مارتے۔''Low Key‘‘میں رہتے ہیں‘ سافٹ سپوکن ہیں‘ شریف الطبع ہیں اور خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں‘ اس لیے وہ بعض لوگوں کی نظر میں لیڈر کے طور پر جچتے نہیں۔ لیکن آزمائش کے دنوں میں یہی شخص فولاد کا بنا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چیلنج کے لمحات میں یہ بالکل مختلف نواز شریف ہوتا ہے۔
نواز شریف کے پہلے دور اقتدار کا آغاز اس عالم میں ہوا تھا کہ خطے کو خلیج کا سنگین بحران درپیش تھا۔ صدام کی ناعاقبت اندیشانہ مہم جوئی نے خطے کے استحکام اور مسلم امّہ کے مفادات کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ ایسے میں پاکستان کے نو آموز وزیر اعظم امن مشن پر روانہ ہوئے ۔وہ اس وار زون میں بھی بے خوف پرواز کرتے رہے جہاں فضا میں میزائل تیر رہے تھے۔
افغانستان سے سوویت یونین کی ذلت آمیز پسپائی اور کچھ ہی عرصے بعد کٹھ پتلی نجیب انتظامیہ کے خاتمے کے بعد افغان مجاہدین کے مختلف گروہ کابل پر قبضے کے لیے باہم برسر پیکار ہوئے تو نواز شریف جنگ کے شعلوں کی جگہ امن کے پھول کھلانے کے لیے عازم کابل ہوئے۔ کابل کا ہوائی اڈہ تباہ ہو چکا تھا‘ شہر میں جا بجا تباہی و بربادی کے مناظر تھے۔ سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے کے دوران تباہی سے محفوظ رہنے والا کابل اب اپنوں کے ہاتھوں تباہی سے دوچار تھا۔ فضا میں گولوں کا راج تھا لیکن وزیر اعظم پاکستان نے اس عالم میں بھی کابل جانے کا فیصلہ کیا تاکہ باہم برسر پیکار مجاہد تنظیموں کی قیادت کو ایک جگہ بٹھا سکیں‘ ان میں مفاہمت کی کوئی راہ نکال سکیں۔C -130میں وزیر اعظم کے ساتھ اس تاریخی مشن پر جانے والے ان کے رفقا اور اخبار نویسوں کو اب بھی وہ سفر یاد ہے۔ تب کابل میں ایوان صدر تک محفوظ نہیں تھا۔ گولہ باری سے اس کی برقی رو معطل تھی اور نیم تاریک ایوان صدر میں وزیر اعظم پاکستان اور ان کے رفقا کی تواضع کے لیے چائے اور باسی روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اور پھر بوسنیا کا پُر خطر سفر۔ تب میاں صاحب وزارتِ عظمیٰ کی پہلی''باری‘‘ لینے کے بعد قائد حزب اختلاف تھے کہ بوسنیا جانے کا فیصلہ کیا‘ جہاں انسانیت بال کھولے رو رہی تھی۔ خانہ جنگی کے شکار بوسنیا جانا بلاشبہ ''شہادت گہہ الفت‘‘ میں قدم رکھنے والی بات تھی۔ شاعر نے کہا تھا ؎
راہروِ راہِ محبت کا خدا حافظ ہو
اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں
لیکن یہاں وحشی سربوں میں محصور بوسنیائی مسلمانوں تک پہنچنے میں دو چار نہیں‘ کئی سخت مقام درپیش تھے۔ بوسنیا کے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے انہیں جس گلی سے گزرنا تھا۔ اس کا نام ہیSniper Alleyتھا۔ ایسی گلی جہاں اندھی گولیوں کا راج تھا۔ یہ اندھی گولیاں چلانے والے سرب تھے اور یہاں جابجا گولیوں کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے۔ میاں صاحب نے کسی خطرے کو خاطر میں لائے بغیر یہاں سے گزرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اور اب کچھ مناظر اندرون ملک سے‘ جاوید ہاشمی نے اپنی خود نوشت میں لکھا؛1993ء میں میاں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے بغاوت کی تو وہ ایک بالغ نظر سیاستدانوں کے طور پر قومی منظر پر ابھرے۔ میں ان کے ہر اول دستے میں شامل تھا۔ ہم ان کے ساتھ محو سفر تھے اور مشکلات کا لق و دق صحرا عبور کر رہے تھے۔ کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو ایک بہت بڑا جلوس استقبال کے لیے موجود تھا۔ ہم قائد اعظم کے مزار پر حاضری دینے کے لیے روانہ ہوئے فوجی حکام نے ہمیں راستہ تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ میاں نواز شریف آگے بڑھتے رہے۔ فوجی جوانوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں اور بندوقوں کا رخ ہماری طرف پھیر دیا۔ شیخ رشید نے اصرار کے ساتھ میاں صاحب سے کہا‘ ہمیں واپس چلے جانا چاہیے۔ اعجاز الحق نے کہا‘ میں فوجی پس منظر رکھتا ہوں۔ جب فوجی اس طرح پوزیشنیں سنبھال لیں تو انہیںShoot to Killکا آرڈر مل چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے بار بار اصرار کیا تو میں نے اور میجر نادر پرویز نے دونوں کو کہا کہ وہ ٹرک سے نیچے اتر جائیں۔ میاں نواز شریف ایک لمحے کے لیے نہیں گھبرائے۔ وہ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ انہوں نے میگا فون مجھے تھما دیا اور کہا کہ جلوس کو پرجوش طریقے سے آگے بڑھائیں۔ مجھے گولی یا لاٹھی کی پروا نہیں۔ شیخ رشید نے کہا‘ میاں صاحب آپ نے پشاور میں جا کر جلسہ کرنا ہے‘ وہ کیسے ہو گا؟ میں نے کہا‘ اگر آج یہاں سے واپس چلے گئے تو کوئی ماڈل ٹائون سے باہر نہ نکلنے دے گا۔ جلوس آگے بڑھا تو فوجی حکام نے غوث علی شاہ کو بلا کر کہا کہ جلوس تیز تیز چلے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ آہستہ ہی چلے گا اور ہم ہنستے ہوئے اسی رفتار سے چلتے رہے ۔ میاں صاحب بعد میں اکثر پوچھتے تھے‘ شیخ رشید کو کیا ہو گیا تھا؟ ہم چپ رہے‘ ہم ہنس دیے‘ مقصود تھا پردہ تیرا۔
کراچی میں ہمارے دوست نصیر سلیمی کو''بھٹوز‘‘ کے شہر لاڑکانہ میں نواز شریف کا وہ جلسہ آج بھی یاد ہے۔ یہ بے نظیر صاحب کی دوسری وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ میاں صاحب قائد حزب اختلاف تھے ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں سخت کشیدگی تھی جیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں۔ سخت اشتعال کے اس ماحول میں نواز شریف نے سندھ کا رخ کیا۔ وہ سندھی اکثریت کے علاقوں میں بھی گئے اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ آخری جلسہ لاڑکانہ کے جناح پارک میں تھا۔ یہ ایک بڑا جلسہ تھا جس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور پیپلز پارٹی نے بھی خوب تیاری کر رکھی تھی۔ میاں صاحب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو اچانک ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی جیالوں نے غلیلوں کے ذریعے بجلی کے بلبوں اور ٹیوب لائٹوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ جلسہ اکھڑ گیا۔ سٹیج پر افراتفری مچ گئی لیکن نواز شریف کسی خوف و خطر کے بغیر مائک پر کھڑے رہے تو لوگ دوبارہ لوٹنے لگے‘ جلسہ پھر جم گیا اور نواز شریف کی وہ تقریر ان کی یادگار تقاریر میں تھی۔
اور آخر میں ذکر‘ لاہور کے ضمنی انتخاب کا۔ محترمہ کے دوسرے دور میں پنجاب میں ان کے اتحادی منظور وٹو کی حکومت تھی۔ 1993ء کے عام انتخابات میں نواز شریف نے لاہور کے علاوہ مانسہرہ سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔ انہوں نے لاہور کی نشست چھوڑ کر مانسہرہ کی سیٹ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ والی سیٹ پر شہباز شریف نے قومی (اور اس کے نیچے پنجاب اسمبلی کی سیٹ بھی) جیتی تھی۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی۔ اور اب ان دونوں نشستوں پر ضمنی انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔ وزیر اعظم بے نظیر نے وزیر اعلیٰ وٹو کو یہ دونوں نشستیں کسی بھی صورت میں جیتنے کا ٹاسک دے دیا تھا۔ شہر میں سخت کشیدگی کا ماحول تھا۔ پروفیسر غفور احمد(مرحوم ) نے اپنی کتاب ''بے نظیر حکومت کا عروج و زوال‘‘ میں اس دن شہر کا نقشہ کچھ یوں کھینچا‘''شہر لاہور ٹھاہ ٹھاہ کی آوازوں سے گونجتا رہا۔(سرکار کی سرپرستی میں) مسلح افراد نے متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر ہلہ بول دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار کھلے عام جعلی ووٹ بھگتا رہے تھے‘‘ اسی ماحول میں اپنے ورکروں اور ووٹروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے میاں نواز شریف دورے پر نکلے۔ دیال سنگھ کالج کے ہاسٹل کی چھت پر ارشد امین چودھری اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ مورچہ زن تھا۔ اخبار نویس اس بات سے آگاہ تھے۔ انہوں نے میاں صاحب کو بھی خبردار کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ فائرنگ سے ان کی گاڑی کا سامنے والا شیشہ ٹوٹ گیا‘ ایک راہگیر بھی زخمی ہوا۔
یہ عجیب شخص ہے‘ یوں لگتا ہے‘ خوف اسے چھو کر بھی نہیں گزرا۔ گزشتہ ماہ وہ دل کے معائنے کے لیے لندن گیا‘ اور 6روز بعد لوٹ آیا۔ اس کے دل کے معاملات ٹھیک نہیں تھے۔ ڈاکٹروں نے ایک ماہ بعد دوبارہ آنے کو کہا تھا‘ اور واپس آ کر وہ جلسوں میں لگ گیا۔ حبس اور گرمی میں بڑے بڑے جلسے اور دل کی خطرناک حالت‘ یہ ایک طرح''خودکش مشن‘‘ تھا وہ 2018ء تک اس معاملے کو موخر رکھنا چاہتا تھا لیکن بیگم صاحبہ اصرار کر کے لندن لے گئیں‘ جہاں وہ ایک‘ دو نہیں‘ اکٹھے چار بائی پاسوں سے گزرا۔ آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہوئے اس نے اپنی چہیتی مریم کو فون کیا‘ اسے حوصلہ رکھنے کی تائید کی۔ لاڈلی بیٹی نے کہا‘ میں آپ کو خدا کے سپرد کرتی ہوں۔ اور31مئی کو اس کے کامیاب آپریشن کے لیے لاکھوں ہاتھ خدا کے حضور دراز رہے۔ لندن سے آمدہ اطلاعات کے مطابق‘ وہ روبہ صحت ہے۔ ماں کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ اور سایہ خدائے ذوالجلال۔