ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے۔۔۔۔ آج جن لوگوں پر علّامہ کا یہ مصرع صادق آتا ہے، مقبوضہ کشمیر کے سیّد علی گیلانی ان میں نمایاں ترین ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی تحریک ِ آزادی کی تاریخ لکھی جائے گی تو سیّد کی خدمات اس کا روشن اور ضخیم باب ہوںگی۔ 87 سالہ حیاتِ مستعار کے پندرہ سولہ برس قید و بند کی نذر کر چکے، اس جدوجہد میں کئی قریبی عزیزوں کے لاشے اپنے ہاتھوں سپردِ خاک کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تحریک کے ایک لاکھ شہداء میں سے ہر ایک کو اپنا عزیز جانتے ہیں۔ یوں بھی ہوا کہ حریت کانفرنس میں جو لوگ ان کے دائیں بائیں تھے، ان میں سے بیشتر نے نئی راہ کا انتخاب کر لیا، سہولتوں اور آسانی والی راہ، لیکن سیّد اپنے راستے پر گامزن رہا جس میںہر گام پر شہداء کے خون کی قندیلیں روشن ہیں۔
پاکستان جنابِ سیّد کے خوابوں کی سر زمین ہے۔ چنانچہ یہاں کے حالات و معاملات میں ان کی دلچسپی فطری ہے۔ اِدھر کی اچھی خبر ان کے لئے وجۂ مسرت اور کوئی بری خبر باعثِ ملال ہوتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف بائی پاس کے عمل سے گزرے تو دنیا بھر سے انہیں مزاج پرسی کے پیغامات موصول ہوئے۔ لاکھوں ہاتھ ان کی صحت کی دعائوں کے لئے بلند ہوئے۔ ان میں سیّد علی گیلانی بھی تھے۔ اس موقع پر انہیں برسوں پہلے جدہ میں ہونے والی ملاقات بھی یاد آئی۔
یہ دسمبر 2005ء کی بات ہے۔ جنابِ سیّد فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جدہ میں تھے۔ وہ اس سے پہلے 1995ء میں حج کے لئے آئے تھے اور اب دس سال بعد حکومتِ ہند نے انہیں حج کی اجازت دی تھی۔ ہمیں خبر ہوئی تو ملاقات کے لئے پہنچ گئے۔ سیّد علی گیلانی مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال پر دل گرفتہ تھے، جہاں دس لاکھ کے قریب ہندوستانی فوج خصوصی اختیارات کے ساتھ موجود تھی۔ وہ کسی بھی گھر میں داخل ہو سکتے تھے، تلاشی لے سکتے تھے، کوئی بھی چیز چھین سکتے تھے، کسی کو بھی گرفتار کر سکتے تھے اور کسی کو بھی شہید کر کے اس کی لاش پھینک سکتے تھے۔ گرفتار شدگان کوتفتیشی مراکز لے جایا جاتا جہاں انہیں الٹا لٹکایا جاتا، ان کے جسموں پر رولر پھیرے جاتے، خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی ہوتے۔
مقبوضہ کشمیر میں ''عسکریت‘‘ کی بات ہوئی تو بزرگ رہنما کا کہنا تھا، یہ تو ایک Compulsion تھا، ایک مجبوری تھی۔ ہم نے 1947ء سے 1988ء کے اواخر تک (جب عسکریت کا آغاز ہوا) تمام پر امن ذرائع اختیار کر کے دیکھ لیے۔ الیکشن بھی لڑا، میں خود جموں و کشمیر اسمبلی کا پندرہ سال تک رکن رہا لیکن ہندوستان نے مسئلے کے پرامن حل کی طرف کوئی توجہ نہ دی، بلکہ اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھیں۔ کچھ لوگوں کو خریدا، کچھ کو دبایا، بعض کو زیرکیا۔ ہماری طرف سے تما م پر امن سیاسی ذرائع استعمال ہو چکے تو پھر وہ جو کہا جاتا ہے، تنگ آمد بجنگ آمد، ہمارے نوجوان اپنی آزادی کے لئے جانوں کے نذرانے دینے پر تل گئے۔ اس ملاقات میں میاں نواز شریف کا ذکر بھی ہوا۔ داخلی وخارجی دبائو پر ڈکٹیٹر نے انہیں حسن کے علاج کی خاطر لندن جانے کے لئے پاسپورٹ جاری کر دیا تھا اور اب وہ روانگی کے لئے تیاریوں میں مصروف تھے۔ بزرگ کشمیری رہنما ان سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔ ہم نے اسی شام سرور پیلس پہنچ کر میاں صاحب کو جنابِ گیلانی کی جدہ میں موجودگی اور ملاقات کی خواہش کا بتایا تو ان کا جواب تھا، اس سے زیادہ مسرت اور سعادت کی
بات کیا ہوگی۔ میاں صاحب کے خواہش تھی کہ معزز مہمان نمازِ مغرب یہیں آکر پڑھیں اور ڈنر کے بعد تک تشریف رکھیں۔ انھوں نے جنابِ گیلانی کو لانے کی سعادت ہمیں سونپی۔ ہم نے انہیں فون پر اطلاع کر دی۔ اگلے روزمیاں صاحب نے ہمیں یاد دہانی کے لئے دو بار فون کیا۔ ہم نے ''حئی العزیزیہ‘‘ سے جنابِ گیلانی کو لیا اور''حئی الرویس‘‘ میں سرور پیلس پہنچ گئے جہاں میاں صاحب پورچ میں معزز مہمان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ پرجوش مصافحہ اور معانقہ معمول سے زیادہ طویل تھا۔
سرور پیلس میں معمول یہ تھا کہ باجماعت نمازِ مغرب کے بعد محفل جمتی۔ گفتگو زیادہ تر حالاتِ حاضرہ اور مستقبل کے امکانات پر ہوتی۔ اخبارات کے اداریے، کالم، تبصرے اور تجزیے بھی زیر بحث آتے۔ کبھی ماضی کا تذکرہ بھی ہوتا۔ کہیں کہیں کوئی چٹکلا، کوئی ''فقرہ‘‘ بھی ہو جاتا۔ نمازِ عشاء کے بعد ڈائننگ ہال کا رخ ہوتا۔ حاضرین کی تعداد پچیس تیس سے کم نہ ہوتی۔ یہاں نشستوں میں حفظِ مراتب کا اہتمام ہوتا۔ مہمانِ خصوصی کی نشست میاں صاحب کے ساتھ ہوتی اور یوں یہ سلسلہ ڈائننگ ٹیبل کے دونوں طرف آخر تک چلا جاتا۔ پاکستان سے حج اور عمرے کے لئے آنے والے سیاسی رہنما، اخبار نویس اور دانشور بھی اس سفر میں سرور پیلس کو ضرور شامل کرتے۔ یورپ اور امریکہ سے آنے والے مسلم لیگی بھی سرور پیلس آمد کو ''مناسک‘‘کا حصہ سمجھتے۔ میاں صاحب کا دھیان اپنی پلیٹ پر کم اور مہمانوں کی پلیٹوں پر زیادہ ہوتا۔ پاکستانی اور سعودی خدّام مہمانوں کی خدمت کے لئے مستعد کھڑے ہوتے۔ ادھرکوئی پلیٹ خالی ہونے لگتی، ادھر میاں صاحب ''مزید‘‘کا حکم جاری کر دیتے۔
جنابِ گیلانی اور نوازشریف کی یہ پہلی ملاقات تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ میاں صاحب انہیں واجپائی کی بس یاترا اور اس موقع پر ہونے والے اعلانِ لاہور اور پھر کارگل کے مس ایڈونچرکا بتا رہے تھے۔ جنابِ گیلانی مشرف کی کشمیر پالیسی پر نالاں تھے ان کا کہنا تھاکہ ''آئوٹ آف باکس‘‘ حل کے نام پر مشرف کی طرف سے نت نئے اور رنگ برنگے فارمولے کشمیر کاز کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔ نائن الیون اور خصوصاً جنوری 2004ء میں اسلام آباد میں مشرف، واجپائی ملاقات کے بعد پاکستان کی سرکاری پالیسی کو وہ کشمیر موومنٹ کے لئے سخت نقصان دہ قرار دے رہے تھے۔ اعلانِ اسلام آباد اس با ت کا اعتراف تھا کہ پاکستان کی سر زمین ٹیررزم کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ 1947ء سے نائن الیون تک پاکستان کا یہی موقف رہا کہ جموں
کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور یہاں کے عوام کو استصوابِ رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کے تعین کا موقع ملنا چاہیے، لیکن نائن الیون کے بعد فوجی حکومت نے دبائو میں آکر اس بنیادی موقف میں تبدیلی شروع کر دی۔ پہلے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوںکو بائی پاس کر کے کوئی حل تلاش کرتے ہیں۔ پھر سات، آٹھ ریجنز کی بات ہوئی۔ چناب فارمولا بھی پیش کیا گیا اور یوں ڈھلوان کے اس سفر نے کشمیر کازکو بہت نقصان پہنچایا۔ جنابِ گیلانی بتا رہے تھے کہ انہوں نے اس سال 17اپریل کو دہلی میں مشرف سے ملاقات میں واضح کر دیا تھاکہ ان کی ادلتی بدلتی پالیسیاں کشمیرکاز کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔ میاں صاحب نے پوچھا، کشمیری عوام اس کا کیا اثر لے رہے ہیں؟انہیں اس کا بہت دکھ ہے، سیّد علی گیلانی کا جواب تھا، ہم نے دخل در معقولا ت کی، اقوامِ متحدہ کی قراردادوںکے مطابق استصواب میں تو دو ہی آپشن ہیں، پاکستان یا ہندوستان سے الحاق۔ آزاد و خودمختارکشمیر کے تیسرے آپشن کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ بزرگ کشمیری رہنما کا جواب تھا، اگر تینوں فریق (پاکستان، ہندوستان اورکشمیری عوام) اس پر راضی ہو جائیں کہ پوری ریاست جموں و کشمیر کو آزاد و خود مختار حیثیت دے دی جائے تو ہم اسے بھی قبول کر لیںگے۔
کھانا چلتا رہا، گفتگو بھی ہوتی رہی، وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔ ڈائننگ ٹیبل پر دو گھنٹے گزر گئے تھے۔ گیلانی صاحب طواف کے لئے مکہ جانا چاہتے تھے۔ میاں صاحب انہیں پورچ تک چھوڑنے آئے، ایک بار پھر پر جوش مصافحہ اور طویل معانقہ۔ میاں صاحب پورچ میں موجود رہے یہاں تک کہ معز ز مہمان کی گاڑی طویل راہ داری سے ہوتے ہوئے سرور پیلس کا صدر دروازہ عبو رکر گئی۔