جنرل راحیل شریف کی تصویر کے ساتھ ''خدا کے لیے آ جائو‘‘ والے پوسٹر سے اظہارِ لاتعلقی میں فوج کے ترجمان نے تاخیر نہیں کی۔ حالیہ دنوں میں یہ پاک فوج کی طرف سے آئینِ پاکستان اور جمہوری نظام سے وفاداری کا دوسرا غیر مبہم اعلان ہے۔ وزیراعظم علاج کے لیے بیرونِ ملک تھے تو ملک کے اندر افواہوں‘ تجزیوں اور تبصروں کا ایک طوفان تھا جو اٹھا دیا گیا۔۔۔۔ ''بیماری تو محض بہانہ ہے۔ اصل میں یہ سب کچھ ایک ارینجمنٹ کے تحت ہے۔ وہ لمبے عرصے کے لیے گئے ہیں۔ یہ ایک اور طرح کی جلاوطنی ہے۔ اِن ہائوس تبدیلی کا فیصلہ ہو چکا‘‘۔ مسلم لیگ نون کے بعض ارکانِ اسمبلی کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے شکایات تھیں۔ بعض کو ایک دو وزراء کی طرف سے نظرانداز کئے جانے کا گلہ تھا۔ بجٹ سیشن کے دوران وزیر اعظم برطانیہ میں تھے تو خصوصاً اسحاق ڈار سے اظہار ناراضی کا یہ اچھا موقع تھا۔ چنانچہ ایوان میں ان ارکان اسمبلی کی عدم موجودگی اور وزیرِ خزانہ کی کھانے کی دعوت میں غیر حاضری کو مسلم لیگ کے اندر فارورڈ بلاک کے قیام کا عنوان دے دیا گیا۔ راولپنڈی والے شیخ صاحب اسے ''اِن ہائوس تبدیلی‘‘ کا استعارہ قرار دے رہے تھے۔ ان کے بقول ناراض ارکان ''وِسل‘‘ کے، ''گرین لائٹ‘‘ کے منتظر تھے (یہ وسل اور گرین لائٹ کدھر سے؟) حکومت ایوان کے اندر مشکلات سے دوچار ہو‘ تو بجٹ کی منظوری اس کے لیے ایک نازک مرحلہ ہوتا ہے۔ کٹوتی کی ایک تحریک کی منظوری بھی ایوان میں اکثریت کا اعتماد کھو دینے کی علامت ہوتی ہے اور حکومت کی رخصتی کا پروانہ‘ ناراض ارکان نے اس نازک مرحلے پر کوئی مشکل پیدا نہ کی اور حکومت نے پُل صراط کا یہ مرحلہ بآسانی طے کر لیا۔
ہسپتال سے گھر منتقلی کے بعد وزیراعظم وطن واپسی کے لیے بیتاب تھے لیکن ڈاکٹر اجازت دینے پر آمادہ نہ تھے۔ اس دوران بعض ''مہربان‘‘ ہارٹ سرجری ہی کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ کینیڈا سے آئے ہوئے علامہ صاحب نے کل ہی لاہور میں فرمایا‘ وہ تو بال اگانے والا کلینک تھا۔گورے ڈاکٹروں کو ساتھ ملا کر نوازشریف نے شیکسپیٔرکے دیس میںکمال ڈرامہ کھیلا تھا۔ دنیا بھر سے سربراہانِ حکومت و ریاست نے بھی جسے حقیقت سمجھ لیا تھا اور وزیراعظم کو گلدستے اور نیک تمنائوں کے پھول ارسال کئے تھے۔ خود برطانیہ کے جہاندیدہ ولی عہد پرنس چارلس بھی اپنے باغ کے شہد کے خصوصی تحفے کے ساتھ‘ بنفسِ نفیس عیادت کے لیے تشریف لائے تھے۔
تبدیلی کی کہانیاں گھڑنے اور افواہیں پھیلانے والوں کے مطابق فوج اس کھیل کے پیچھے تھی‘ جو بعض داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سے پہلے بھی سویلین حکومت کے ساتھ ''سیم پیج‘‘ پر نہیں تھی اور پاناما لیکس کے بعد تو پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا تھا۔بعض تجزیہ نگار جن میں ریٹائرڈ عسکری دانشور پیش پیش تھے‘ اِن ہائوس تبدیلی کی بجائے اڑھائی تین سال کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی خبر دے رہے تھے‘ جو پہلے گند صاف کرے گی اور اس کے بعد انتخابات کرائے گی۔
تب آرمی چیف جنرل راحیل شریف جرمنی میں تھے اور جنرل عاصم سلیم باجوہ اپنے ادارے کی طرف سے جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا واشگاف اعلان کر رہے تھے: ''فوج جمہوریت کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت پنپ رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط تر ہوتی جائے گی‘‘۔ ان کے بقول سکیورٹی معاملات سمیت تمام اہم امور پر فیصلے حکومت اور فوج میں مشاورت کے ساتھ طے پاتے ہیں۔
سات جون کو سرتاج عزیز‘ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف سمیت سویلینز کے ساتھ جی ایچ کیو میں آرمی قیادت کی ملاقات پر بھی افسانے تراشے گئے۔ بعض دیدہ وروں کو اس میں سویلینز‘ فوجی قیادت کے سامنے بھیگی بلی بنے نظر آئے۔ جناب سرتاج عزیز نے اس وضاحت میں کچھ تاخیر کر دی کہ یہ میٹنگ تو خود ان کی تجویز پر ہوئی تھی۔ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے میں طالبان سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کا واقعہ ہو چکا تھا۔ وزیراعظم ملک سے باہر تھے۔ صدر کے خطاب کے موقع پر پارلیمنٹ ہائوس میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس نازک صورتِ حال پر تبادلہ خیال کے لیے مشاورت کی تجویز پیش کی۔ اس حوالے سے پزیزنٹیشن کے لیے جی ایچ کیو زیادہ مناسب جگہ تھی‘ چنانچہ اس کا اہتمام بھی وہیں ہو گیا۔ اس ملاقات کے لیے اپنے سویلین رفقا کو اطلاع بھی خود سرتاج عزیز صاحب نے دی تھی۔
دنیا بھر سے وزیراعظم کو ان کی ہارٹ سرجری پر ٹیلی فون کال موصول ہو رہی تھیں۔ سول ملٹری اختلاف کے افسانہ طرازوں کا کہنا تھا‘ جنرل راحیل شریف نے اپنے وزیر اعظم کو کال نہیں کی۔ حقیقت یہ تھی کہ سپہ سالار نے سرجری سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی وزیراعظم کو کال کی تھی۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمشن کے ملٹری اتاشی‘ جنرل صاحب کی طرف سے گلدستہ بھی پیش کر آئے تھے۔ بیگم صاحبہ بھی‘ مریم بی بی سے فون پر خیر خیریت دریافت کرتی رہی تھیں۔
ڈاکٹروں کے خیال میں ابھی مزید آرام کی ضرورت تھی‘ لیکن وزیراعظم کے اصرار پر انہوں نے سفر کی اجازت دے دی۔ بیرونِ ملک 49 روز قیام کے بعد عید کے تیسرے روز وزیراعظم لاہور ائرپورٹ پر اترے۔ دل کی بڑی سرجری کے بعد وہ قدرے کمزور نظر آ رہے تھے لیکن صحت یابی کی بشاشت چہرے سے عیاں تھی۔ کسی سہارے کے بغیر وہ معمول کی رفتار سے سیڑھیاں اترے۔ اپنے سیاسی رفقائ، سرکاری حکام اور میڈیا والوں سے فرداً فرداً ہاتھ ملایا۔ شاعر نے گلہ کیا تھا‘ وہ ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو سرد تھا، لیکن یہاں ہاتھ میں وہی روایتی گرمی بھی تھی اور گرم جوشی بھی۔ وہ تقریباً آدھ گھنٹے تک رن وے پر رہے۔ ''وطن واپسی پر اب آپ فنکشنل کب ہوں گے؟‘‘ پہلے بھی فنکشنل تھا‘ اب بھی فنکشنل ہوں‘‘ وزیراعظم کا تُرت جواب تھا۔ ''اور اب زیادہ توانائی کے ساتھ قوم کی خدمت کروں گا‘‘۔
ناقدین نے اب وزیر اعظم کی واپسی کے لیے خصوصی طیارے کو ایشو بنا لیا تھا‘ جس پر ان کے بقول غریب قوم کے چالیس کروڑ اُٹھ گئے تھے۔ حبیب اکرم حساب کتاب میں بھی طاق ہیں۔ بتایا‘ 350 سیٹوں والے بوئنگ 777 کی ایک سیٹ بھی خالی نہ ہو‘ تو کل کرایہ چار کروڑ سے زیادہ نہیں بنتا۔ چالیس کروڑ میں تو نیا جہاز آجاتا ہے۔
اِدھر وزیراعظم واپس آئے‘ ادھر عمران خان لندن روانہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کے ساتھ ٹیسٹ میچ دیکھنے آئے ہیں۔ وہ ایدھی کو اپنا رول ماڈل قرار دے رہے تھے‘ لیکن ان کے جنازے میں شرکت کے لیے لندن روانگی میں ایک دن کی تاخیر نہ کر سکے۔ ریحام خان سے شادی اور پھر طلاق کی بریکنگ نیوز کا اعزاز رکھنے والے جناب عارف نظامی تیسری شادی کی تصدیق تو نہیں کر سکے البتہ خان صاحب کی لندن روانگی کا مقصد تیسری شادی کے لیے بچوں سے مشاورت بھی بتاتے ہیںکہ دوسری شادی پر بہنوںکی طرح بچے بھی ناراض تھے۔
ادھر وفاقی دارالحکومت سمیت بڑے بڑے شہروں میں ''اب آ بھی جائو‘‘ کے مہنگے اور خوبصورت پینا فلیکس سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بڑا ایشو بن گئے۔ بعض دوستوں کو میجر رشید وڑائچ (مرحوم) یاد آئے‘ لاہور شہر کی دلچسپ شخصیت...سروسز ہسپتال والے انڈر پاس کے قریب نہر کنارے اپنے گھر پر جنرل اسلم بیگ کی بڑی سی تصویر اس مصرعے کے ساتھ لگا دی تھی ''تُم ہی نے درد دیا ہے‘ تُم ہی دوا دینا‘‘۔ جنرل آصف نواز آئے تو ان کی تصویر کے ساتھ ''مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘ والا بورڈ لگا دیا۔ لیکن سارے شہر میں یہ ایک ہی تصویر‘ ایک ہی بورڈ ہوتا‘ اب جنرل راحیل شریف کو صدا دینے والے یہ بینر ہزاروں کی تعداد میں بڑے بڑے شہروں میں تھے۔ ان کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ یہ کہاں تیار ہوئے؟ ملک بھر میں کیسے پہنچائے گئے اور راتوں رات کیسے لگ گئے؟
اچھا ہوا‘ جنرل باجوہ نے اظہار لاتعلقی میں تاخیر نہیں کی۔ لیکن فوج کو سیاست میں گھسیٹنے والوں کا کھیل جاری ہے۔ 2014ء کی دھرنا مہم جوئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے بھی فوج کی حمایت کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اب ''کرپشن کے خلاف مہم‘‘ کے نام پر بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
فرزند لال حویلی‘ زرداری دور میں بھی طعنے دیتا رہا‘ یہ بوٹوں والے نہیں‘ جو گرز والے جرنیل ہیں جنہوں نے ستّو پی رکھے ہیں۔ گزشتہ شب وہ پھر کہہ رہا تھا‘ کیا فوج ملک کو تباہ ہوتے دیکھتی رہے گی؟ پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے ان بینرز کی مذمت اور جمہوریت سے اظہار وابستگی پر اس کا تبصرہ تھا: بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران نوابزادہ صاحب بھی مارشل لاء کو قبول نہ کرنے کا اعلان کرتے تھے‘ مارشل لاء لگ گیا تو انہوں نے بھی اپنے دو وزیر دے دیے۔ گویا حزب اختلاف کی طرف سے کسی غیر جمہوری‘ غیر آئینی اقدام کی مخالفت زبانی کلامی ہے‘ مارشل لاء آ گیا تو یہ اس کی حمایت کریں گے؟