عوامی مزاحمت بروئے کار آئی‘ بندوق بردار اور ٹینک سوار شکست کھا گئے۔ ترکی میں باغی فوجیوں کے ایک ٹولے نے سرکاری ٹی وی پر قبضے کے بعد ملک بھر میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے اردوان کی منتخب حکومت کے وفادار آرمی چیف کو بھی یرغمال بنا لیا۔ ایسے میں صدر اردوان نے اپنے عوام کو جمہوریت کے تحفظ کے لیے میدان میں نکل آنے کی صدا دی اور ترک عوام اپنے قومی پرچم اٹھائے گھروں سے نکل آئے‘ ٹینکوں کے سامنے دیوار بن گئے‘ باغیوں کے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ بھی ان کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں میدان چھوڑنے پر مجبور نہ کر سکی۔ آئین اور جمہوریت کی وفادار اعلیٰ فوجی قیادت اور پولیس نے باغی ٹولے کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا تھا۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھی بغاوت کی مذمت کر رہی تھی‘ لیکن یہ بعد کی باتیں تھیں۔ مزاحمت کا آغاز عوام نے کیا تھا اور صدر اردوان نے بھی سب سے پہلے انہی کو آواز دی تھی۔
جدید ترکی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی آمریتوں اور جمہوری قوتوں کے درمیان کشمکش کی تاریخ ہے۔ اپنے جمہوری حقوق کے لیے‘ فوجی‘ نیم فوجی اور سول آمریت کے خلاف اہلِ پاکستان کی جدوجہد اور اس راہ میں ان کی قربانیاں تاریخ کا شاندار باب ہیں۔
گزشتہ شب انقرہ اور استنبول میں مزاحمت کے مناظر دیکھ کر ہمیں 1977ء کی تحریک یاد آئی۔ پاکستانی عوام نے انتخابی مینڈیٹ پر ڈاکے کی واردات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ چنداں قابلِ رشک نہیں رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ ملک کے مغربی حصے میں ہونے والے صوبائی انتخابات نے سیاسی لُغت کو ''جھرلو‘‘ کا نیا لفظ دیا تھا‘ لیکن 1977ء میں ایک سویلین حکومت کے کرائے گئے انتخابات نے تو دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ لاڑکانہ میں وزیر اعظم کے مقابل حزبِ اختلاف کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے سے قبل اغوا کر لیے گئے اور یوں قائد عوام ''بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہو گئے۔ شامی صاحب کے ہفت روزے کے سرورق پر دو تصاویر تھیں‘ نیچے کیپشن تھے: ''بھٹو صاحب بلا مقابلہ جیت گئے‘‘ ۔ ''مولانا جان محمد عباسی بلا مقابلہ ہار گئے‘‘۔
صوبوں میں وزراء اعلیٰ نے اسی روایت کو آگے بڑھایا۔ پنجاب میں تو سینئر وزیر بھی ''بلا مقابلہ‘‘ جیت گئے تھے۔ یہ سب کچھ ''پری پول‘‘ تھا ۔ پولنگ کا دن بدترین دھاندلیوں کا دن تھا۔ تب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی کے انتخاب کے دو دن بعد ہوتے تھے۔ قومی اسمبلی کے انتخاب میں بدترین دھاندلیوں کے بعد پی این اے نے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا اور 10 مارچ کو پولنگ سٹیشنوں پر کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔
پی این اے نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تب ملک میں تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا‘ جسے کچلنے کے لیے ریاستی تشدد کا ہر حربہ روا رکھا گیا۔ آغاز لاہور کی مسلم مسجد سے ہوا۔ پھر 9 اپریل ''نومنتخب‘‘ پنجاب اسمبلی کی حلف برداری کا دن‘ اس روز بھٹو صاحب خود لاہور میں موجود تھے۔ لاہور کی مال روڈ پر اس روز 17 لاشیں گریں۔ خواتین کے ساتھ ''نتھ فورس‘‘ کے ذریعے شرمناک سلوک کیا گیا۔ پی این اے نے پہیہ جام کی کال دی تو لوگ ریلوے ٹرینوں کا پہیہ روکنے کے لیے پٹڑیوں پر کود گئے۔ پولیس‘ ایف ایس ایف اور پیپلز گارڈ سمیت تمام سول ادارے بے بس ہو گئے تو بھٹو صاحب نے لاہور اور کراچی سمیت ملک کے بڑے بڑے شہروں کو جزوی مارشل لاء اور کرفیو کے سپرد کر دیا۔
کرفیو کے دوران وہ لاہور میں پہلا جمعہ تھا۔ نمازِ جمعہ کے لیے کرفیو میں وقفے کا اعلان کیا گیا تھا۔ نیلا گنبد کی جامع مسجد لاہور میں احتجاجی تحریک کا مرکز تھی۔ مسجد کے سامنے ایف سی کالج کے یوئنگ ہال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی دیوار کے
ساتھ فوج کی بھاری نفری قطار اندر قطار موجود تھی۔ نماز ختم ہوئی تو نوجوانوں کا ایک گروہ باہر آ کر نعرہ زن ہو گیا۔ ادھر ایک کیپٹن ہاتھ میں میگا فون لیے اعلان کر رہا تھا‘ کرفیو میں وقفے کا وقت ختم ہونے کو ہے‘ منتشر ہو جائیے‘ گھروں کو چلے جائیے‘ ورنہ گولی مار دی جائے گی۔ اب ہجوم نے جلوس کی شکل میں انارکلی کا رخ کیا۔ فوجی دستہ ٹرک پر سوار ہو کر‘ دھنی رام روڈ کے راستے انار کلی میں داخل ہو گیا۔ ادھر فوجی ٹرک سے منتشر ہو جانے کا اعلان‘ ادھر ہجوم میں جوش و خروش تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر فوجی جوانوں نے پوزیشن لے لی۔ نوجوانوں نے قمیصیں پھاڑ کر سینے کھول دیے۔ گولیاں چلیں اور تین نوجوان جاں بحق ہو گئے مگر ہجوم خوف زدہ ہونے کی بجائے مزید بپھر گیا تھا۔ تب فوجی بھائیوں نے بندوقیں نیچی کر لیں۔ اسی شام لاہور میں تین بریگیڈیئروںنے استعفے دے دیے۔ اپنے جمہوری حقوق کے لیے برسرِ پیکار اپنی قوم پر وہ گولی چلانے پر آمادہ نہ تھے۔ کہا جاتا ہے‘ یہی وہ دن تھا جب ضیاء الحق اور ان کے فوجی رفقا نے بھٹو صاحب پر اپوزیشن سے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار کرنے اور مسئلے کا سیاسی حل نکالنے پر زور دینا شروع کیا۔
5جولائی1977ء کے مارشل لاء کا قوم کی طرف سے خیر مقدم دراصل ایک فاشسٹ حکومت سے نجات کا خیر مقدم تھا۔ انتخابات تبدیلی کا پُرامن آئینی راستہ تھے۔ بدقسمتی سے یہ راستہ بند ہوا تو قوم کو مارشل لاء نجات دھندہ لگا جس نے 90 روز میں آزادانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کا وعدہ کیا تھا۔ یہ 90 روز 8 سال پر کیسے محیط ہو گئے (فروری 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات) وہ ایک الگ کہانی ہے۔
مارچ 2007ء میں چیف جسٹس کے خلاف ڈکٹیٹر کی کارروائی پر احتجاجی مہم ... اور پھر 3 نومبر کو (دوسرے) پی سی او کے خلاف نئی ملک گیر تحریک (جب ڈکٹیٹر نے عدلیہ کے ساتھ میڈیا پر بھی شب خون مارا) قوم کی جمہوری امنگوں کا ایک اور شاندار اظہار تھا۔ یہی وہ دور تھا جب راولپنڈی جیسے گیریژن سٹی میں فوجیوں کو حکم جاری کیا گیا کہ وہ یونیفارم میں شہری علاقوں کا رخ نہ کریں۔ وہ تو اللہ بھلا کرے جنرل کیانی کا‘ جس نے فوج کو سیاست سے نکال کر اس کے اصل کام پر لگایا اور یوں قوم میں اپنی فوج کے لیے احترام اور محبت کا روایتی جذبہ عود کر آیا۔
جنرل کیانی کی جانشین قیادت بھی ضربِ عضب جیسی عظیم الشان کارروائی کے ذریعے عوام کے دلوں میں بستی ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ قوم اپنی مسلح افواج کو دوبارہ سیاست کی دلدل میں دیکھنا چاہتی ہے؟ گیلپ کا تازہ سروے بتاتا ہے کہ عوام کی 84 فیصد اکثریت جمہوری نظام ہی میں یقین رکھتی ہے... جنرل راحیل شریف قوم میں محبوب ہیں کہ اپنا اصل کام کر رہے ہیں خود ملک و قوم کا‘ اور فوج کا مفاد اور وقار بھی اسی میں ہے۔ پاکستان کے دشمنوں اور دہشت گردوں کی اس سے بڑی خواہش کیا ہو گی کہ فوج اپنے اصل کام کی بجائے سیاست کی دلدل میں اتر جائے۔