"RTC" (space) message & send to 7575

بیرسٹر اویس کی بازیابی اور حکومت؟

کرب کا ایک ایک لمحہ قیامت تھا لیکن بیرسٹر اویس شاہ (اور عالی مرتبت جسٹس سجاد علی شاہ سمیت ان کے اہل خانہ) خوش قسمت تھے کہ یہ قیامت ان کے لیے صرف ایک ماہ پر محیط تھی۔ شہباز تاثیر ‘ علی حیدر گیلانی (اور ان کے گھر والوں) کے لیے کرب کا یہ عرصہ برسوں طویل ہو گیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ کی زبانی‘ بیرسٹر اویس کی بازیابی کی کہانی قارئین پڑھ چکے۔
قیامت کے ان دنوں میں بھی‘ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اپنے عدالتی فرائض معمول کے مطابق نبھاتے رہے۔ ذاتی غم کو انہوں نے اپنے عظیم منصب کے تقاضوں پر غالب نہ آنے دیا تھا۔ ہمیں اس حوالے سے جسٹس شفیع الرحمن یاد آئے۔ اپریل1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں‘ حکومت کی برطرفی (اور قومی اسمبلی کی تحلیل) کو معزول وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی زیر قیادت جسٹس شفیع الرحمن‘ جسٹس سعد سعود جان‘ جسٹس عبدالقدوس‘ جسٹس اجمل میاں‘ جسٹس محمد افضل لون‘ جسٹس سجاد علی شاہ‘ جسٹس رفیق تارڑ‘ جسٹس سلیم اختر‘ جسٹس سعید الزماں صدیقی اور جسٹس فضل الٰہی خان پر مشتمل گیارہ رکنی فل کورٹ اس کیس کی سماعت کر رہی تھی۔
صدر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں آرٹیکل 58/2-B کے تحت وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کو حاجی سیف اللہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ مرنجاں مرنج وزیر اعظم کا اصل ''جرم‘‘ یہ تھا کہ اس نے اطاعت کی بجائے ''سرکشی‘‘ کا رویہ اختیار کر لیا اور خود کو سچ مچ کا وزیر اعظم سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اوجھڑی کیمپ واقعہ کی تحقیقات اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور وزیر اعظم کو گھر کی راہ دکھا دی گئی۔ آرٹیکل58/2-B کے تحت صدر حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے اختیار کے ساتھ 90 روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پابند تھا؛ چنانچہ صدر جنرل ضیاء الحق 16نومبر کو انتخابات کے انعقاد کی تاریخ بھی دے گئے تھے۔ 
سپریم کورٹ حاجی سیف اللہ کیس میں اس بات پر ''کنونس‘‘ ہوگئی کہ جونیجو حکومت کی برطرفی‘ آرٹیکل 58/2-B کا غلط استعمال تھا۔ ''جناب عالی! اس غلطی کی تلافی جونیجو حکومت کی بحالی کا تقاضا کرتی ہے‘‘۔ اپیل کنندہ کے وکیل کا استدلال تھا...''لیکن اب تو الیکشن سر پر آن پہنچے‘ تو کیوں نہ عوام کی عدالت کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے‘‘۔ عدالت کا جواب تھا...اس پر وکیل کا کہنا تھا: ''آپ جونیجو صاحب کو بحال کر دیں وہ اسی تاریخ کو انتخابات کرا دیںگے‘‘۔ ''لیکن آپ جونیجو صاحب کی طرف سے یہ یقین دہانی کیسے کرا سکتے ہیں‘‘؟ ''آپ عدالت کو ایڈجرن کر دیں‘ ہم اس یقین دہانی کے لیے جونیجوصاحب کو لے آتے ہیں‘‘۔ عدالت ایڈجرن کر دی گئی۔ شیروانی اور جناح کیپ پہنے جناب جونیجو عدالت میں پہنچ گئے تھے لیکن اسی وقفے کے دوران ایک طاقتور کال آ گئی۔۔۔ ''کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ بحال شدہ وزیر اعظم عدالت سے باہر آئیں اور انہیں حراست میں لے لیا جائے؟‘‘
عدالت نے ''وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں اپنا ذہن بدل لیا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے جونیجو حکومت کی برطرفی سے متعلق صدر ضیاء الحق کے اقدام کو غلط قرار دیدیا تھا لیکن اس کی بحالی کا حکم اس لیے نہ دیا کہ انتخابات سر پر آن پہنچے تھے اورمناسب یہی سمجھا گیا کہ بحالی کا فیصلہ عوام کی عدالت کو کرنے دیا جائے۔
نواز شریف کی پٹیشن کی سماعت چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ان ریمارکس کے ساتھ شروع ہوئی کہ حاجی سیف اللہ کیس میں جونیجو حکومت کی برطرفی اوراسمبلی توڑنے کے اقدام کو غلط قرار دیا گیا لیکن اسے بحال نہ کیا گیا (کہ الیکشن قریب آ چکے تھے) ہم چاہتے ہیں کہ وہ ''رکاوٹ‘‘ باقی نہ رہے جس نے عدالت کو حکومت اور اسمبلی بحال نہ کرنے دی۔ چنانچہ اس کیس کی سماعت روزانہ ہوا کرے گی اور ہفتے عشرے کے اندر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ 
تب سرکاری چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی۔ جسٹس شفیع الرحمن ہفتہ وار چھٹی پر لاہور آئے ہوئے تھے کہ اسی شام ان کے صاحبزادے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے۔ غم سے نڈھال فاضل جج کو عدالت میں زیر سماعت قومی اہمیت کے حامل مقدمے کی حساسیت کا احساس تھا۔ اسی شب لاہور میں بیٹے کی تدفین کے بعد‘ جسٹس شفیع الرحمن اگلے روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں موجود تھے۔ فل بنچ نے مقدمے کی سماعت سے قبل اپنے رفیقِ کار سے اظہار رنج و غم‘ مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کے ساتھ جسٹس صاحب کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا کہ سنگین ذاتی صدمے کے باوجود انہوں نے فرض شناسی کی لازوال مثال قائم کی تھی۔ یہ سانحہ21 مئی کو پیش آیا تھا۔ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے صدر کے اقدام کو آئین سے ماورا قرار دیتے ہوئے نواز شریف حکومت اور قومی اسمبلی کی بحالی کا حکم جاری کر دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکلاء کو اپنے موقف کی کمزوری کا احساس ہو گیا تھا۔ صدر نے وزیر اعظم کے خلاف چارج شیٹ میں جو الزامات عائد کئے تھے‘ وہ حکومت کی برطرفی کا خاطر خواہ جواز نہیں بن رہے تھے۔ فاضل وکلاء کا کہنا تھا کچھ اور وجوہات بھی تھیں، صدر کی تقریر میں جن کا اظہار قومی مفاد میں نہیں تھا۔ اس کے لیے ''ان کیمرہ‘‘ کارروائی کی درخواست منظور کر لی گئی اور وہ اصل وجہ یہ تھی کہ معزول وزیر اعظم کی حکومت کی بعض پالیسیوں سے امریکہ اور بھارت خوش نہیں تھے اور یہ صورت حال قومی مفاد میں نہیں تھی۔
اپنے صاحبزادے کی بازیابی پر جسٹس سجاد علی شاہ کی مسرت دیدنی تھی۔ وہ اس کے لیے پاک فوج اور اس کے سپہ سالار کا شکریہ ادا کر رہے تھے جنہوں نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لی۔
''لیکن اس میں حکومت‘‘؟
وہی حکومت اور آرمی کو باہم ''حریف‘‘ اور ''مقابل‘‘ ادارے کے طور پر پیش کرنے کا معاملہ۔ جنابِ جسٹس کا جواب تھا: ''فوج بھی تو حکومت کا حصہ ہے!‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں