"RTC" (space) message & send to 7575

دھرنے سے نہیں‘ کچھ کرنے سے

آزاد کشمیر میں اس بدعت کا آغاز جناب بھٹو نے کیا تھا۔ ان کی پیپلز پارٹی، پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جو وہاں قائم ہوئی۔ اس سے پہلے کشمیریوں کی اپنی سیاست تھی اور ان کی اپنی سیاسی جماعتیں۔ یہاں تک کہ ''تقسیم‘‘ سے قبل بھی، جب آل انڈیا مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی، جموں و کشمیر میں سردار غلام عباس کی ''جموں و کشمیر مسلم کانفرنس‘‘ ہی مسلم لیگ کی ہم زاد تھی۔ تقسیم کے بعد، جموں و کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے بعد معاملہ اور بھی حساس ہو گیا تھا۔ اب یہ ایک متنازع علاقہ تھا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق (آزاد کشمیر سمیت) پوری ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے ہونا تھا؛ چنانچہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کا آزاد کشمیر میں قیام مناسب نہ سمجھا گیا۔ سردار غلام عباس کی آل جموں و کشمیر کانفرنس اور کے ایچ خورشید کی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتیں تھیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو صاحب کی حکمرانی تھی۔ دسمبر 1971ء کی جنگ کے 93 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی اور مغربی محاذ پر ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں کی بازیابی کے لیے بھٹو صاحب ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ پہنچے۔ ایجنڈے پر کشمیر بھی تھا۔ شملہ معاہدے نے اسے عالمی مسئلے کی بجائے، دو ملکوں کے درمیان مسئلہ بنا دیا ‘دونوں نے جسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنا تھا۔ حزبِ اختلاف کا الزام تھا کہ بھٹو صاحب جموں و کشمیر کا مسئلہ بھی ''اِدھر ہم، اُدھرتم‘‘ کی بنیاد پر طے کر آئے ہیں۔ جموں و کشمیر کا اُدھر والا حصہ اُن کا اور اِدھر والا حصہ (آزاد کشمیر) ہمارا۔ حزب اختلاف ''سیز فائر لائن‘‘ کو ''کنٹرول لائن‘‘ کا نام دینے کو بھی اسی کا شاخسانہ قراردے رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بھٹو صاحب نے آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی رکھ دی۔
تب وہاں سردار قیوم اور سردار سکندر حیات کی مسلم کانفرنس کی حکومت تھی۔ جناب بھٹو صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی اور مفتی محمود کی جمعیت علما اسلام کی مخلوط حکومتوں سے نجات پا چکے تھے۔ بلوچستان میں عطأ اللہ منگل کی حکومت انہوں نے باغیانہ سرگرمیوں کے الزام میں برطرف کر دی تھی، جس پر مفتی محمود صوبہ سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے احتجاجاً مستعفیٰ ہو گئے تھے۔ اب قائد ِعوام کی نظریں مظفر آباد پر تھیں۔ اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے یہ کارِ خیر ممکن نہ ہوا تو مظفر آباد کے ایوانِ صدر اور پرائم منسٹر ہاؤس کی بجلی اور پانی کے کنکشن کاٹ دیئے گئے اور سردار قیوم کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا گیا۔
آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا قیام دسمبر 2010ء میں عمل میں آیا۔ نواز شریف (اور ان کے رفقا) نے یہ فیصلہ بوجھل دل کے ساتھ کیا تھا۔ وہ یہاں بانیٔ پاکستان کی پالیسی پر ہی کاربند رہے تھے اور مسلم کانفرنس ہی کو مسلم لیگ کا متبادل سمجھتے تھے۔ 12 اکتوبر 1999ء کی مشرف بغاوت کے وقت مظفر آباد میں سردار قیوم کی مسلم کانفرنس برسرِ اقتدار تھی۔ اسلام آباد اور مظفر آباد میں خوشگوار ورکنگ ریلیشن شپ دونوں کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ اسلام آباد میں مسلم لیگی حکومت پر ''شب خون‘‘ اور وزیراعظم کی گرفتاری پر، سردار قیوم کے احتجاج کی کسی کو توقع نہ تھی وہ ''وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں مناسب سے الفاظ میں اس کی حمایت بھی کر دیتے تو شاید یہ بھی غیر مناسب نہ ہوتا، لیکن وہ تو نواز شریف کے خلاف ایسی تندوتیز زبان استعمال کر رہے تھے، ان سے معمولی سا حسنِ ظن رکھنے والے کو بھی جس کی توقع نہ تھی۔ پھر مسلم کانفرنس کے بزرگ اور سینئر رہنماؤں کو نظر انداز کر کے، اپنے نو عمر صاحبزادے کو جانشین بنانے کی کاروائی نے بھی پارٹی میں داخلی مسائل بڑھا دیئے۔
با لآخر 2010ء کے اواخر میں یہاں مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھ دی گئی۔
جون 2013ء میں نواز شریف (تیسری بار) وزیراعظم بنے تو مظفر آباد میں زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اب یہ 90 کی دہائی والا نواز شریف نہیں تھا۔ اس نے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا راستہ روکنے کی تجویز سختی سے مسترد کر دی تھی حالانکہ مولانا فضل الرحمن سارا کام کر چکے تھے۔ اسے مظفرآباد میں پیپلز پارٹی کے 5 سالہ مینڈیٹ کا بھی احترام تھا۔ حالانکہ اسلام آباد میں تبدیلیٔ اقتدار کے ساتھ مظفر آباد میں تبدیلی کے لیے بھی فضا سازگار تھی۔ پھر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ آ گیا جس پر مسلم لیگی ارکان کے دستخط بھی تھے‘ لیکن میاں صاحب نے انہیں سختی سے منع کر دیا اور یوں پیپلز پارٹی کی حکومت بچ نکلی۔
21 جولائی کے (حالیہ) انتخابات آزاد کشمیر کی تاریخ کے سب سے زیادہ پُر جوش انتخابات تھے جس میں تحریکِ انصاف بھی (پہلی بار) میدان میں اتری تھی۔ سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود اس کی قیادت کر رہے تھے۔بیرسٹر نے کئی پارٹیاں بدلیں، لیکن گزشتہ تمام انتخابات میں ناقابلِ شکست رہا۔ تحریک کے ''نظریاتی کارکنوں‘‘ نے بیرسٹر کے خلاف بغاوت کر دی تھی، وہ ان پر انتخابی ٹکٹوں کی فروخت کا الزام لگا رہے تھے۔ ان کے بقول فی ٹکٹ 25 سے 30 لاکھ روپے قیمت لگی۔
عمران خان نے یہاں 9 انتخابی جلسے کئے۔ (دلچسپ بات یہ کہ شیخ رشید اس معرکے میں ان کے ساتھ نہیں تھا، بقول اس کے عمران خان ایک عظیم سیاسی اثاثہ تھا، آزاد کشمیر کی سیاست میں اِسے اتارنا، اس سیاسی اثاثے کو ضائع کرنے کے مترادف تھا) خان کی انتخابی مہم پاناما لیکس سمیت نواز شریف کے خلاف روایتی الزامات پر مشتمل تھی۔ عزیزی بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی نے ایک دلدلی زمین میں اتار دیا تھا۔ اس کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینا، ''مودی کے یار اور کرپشن کے سردار‘‘ کو ووٹ دینا تھا۔ یہ الیکشن، پیپلز پارٹی کی sitting گورنمنٹ کی موجودگی میں، فوج کی کڑی نگرانی میں ہو رہے تھے۔ ووٹرز لسٹیں بھی کمپیوٹرائزڈ تھیں۔ شفافیت کا یہ عالم کہ چیف جسٹس صاحب کو بھی شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے سے روک دیا گیا۔ لاہور میں وادی اور جموں کے مہاجرین کے دو حلقوں میں سے ایک میں تقریباً 600 ووٹوں سے مسلم لیگ (ن) کی تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست، انتخابات کے صاف شفاف ہونے کا ایک اور ثبوت تھا۔
یہ انتخابات ہمیشہ سے زیادہ پُر جوش تھے، گزشتہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد تھا جبکہ اس بار یہ 62 فیصد کو پہنچ گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی مہم پرویز رشید اور آصف کرمانی نے چلائی اور اس کے کسی بھاری بھرکم لیڈر نے ادھر آنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ دونوں حضرات ہری پور کے ضمنی انتخاب کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی کرشمہ دکھا چکے تھے۔
کہا جاتا ہے، آزاد کشمیر کے انتخابات میں اسلام آباد کا اثر و رسوخ بھی بروئے کار آتا ہے، لیکن یہاں تو مسلم لیگ (ن) نے کمال کر دکھایا تھا اور وہ 31 نشستوں کے ساتھ دوتہائی اکثریت کو پہنچ گئی تھی۔ پیپلز پارٹی تین اور تحریک انصاف صرف دو نشستیں حاصل کر پائی۔ بلاول بھٹو سائنسی دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے جبکہ عمران خان کا رویہ خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ اس نے نہ صرف نتائج کو تسلیم کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کو مباک باد دینے میں بھی تامل سے کام نہ لیا۔
سیاسی مخالفین اور خصوصاً خان کے لیے وزیراعظم نواز شریف کا مفت مشورہ تھا کہ کامیابی دھرنے سے نہیں، کچھ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں