"RTC" (space) message & send to 7575

اب جنوں کارِ زیاں ہے یارو

اردو ڈائجسٹ سے اپنی ''رفاقت‘‘ کا آغاز سکول کے دِنوں ہی میں ہوگیا تھا۔ تب سکولوں میں لائبریریاں بھی ہوتی تھیں، تدریسی مصروفیات کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی۔۔ ہفتہ وار بزم ِ ادب، تقریری مقابلے اور بیت بازی وغیرہ ۔ ہم چھٹی، ساتویں میں ہوں گے جب سکول کی لائبریری میں پہلی بار اُردو ڈائجسٹ ہاتھ لگا اور آج تک ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ تب ''شکاریات‘‘ ، ''جنگِ عظیم کی کہانی‘‘اور ''تاریخِ اسلام‘‘ہمارے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ ذہنی سطح کچھ بلند ہوئی تو الطاف صاحب کے طویل انٹرویوز کی طرف رجحان ہوا۔ ایوب خان کی آمریت کی گھٹن میں یہ انٹرویو تازہ ہوا کا جھونکا ہوتے جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِنسیم۔ جمہور کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور آئین کی کارفرمائی کے تصورات ذہنوں میں راسخ ہوتے چلے جاتے۔ اور اس کے ساتھ الطاف صاحب کے قلم سے اداریہ ''کچھ اپنی زبان میں‘‘اور حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ ''ہم کہاں کھڑے ہیں‘‘۔ قومی زندگی پر اثر انداز ہونے والا کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا، تو الطاف صاحب خود وہاں پہنچتے۔ معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے اور اِسے پوری دیانتداری کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھ دیتے۔ ''چھ نکات کی سچی تصویر‘‘ انہی دِنوں کی یادگار تحریروں میں ایک تھی۔ 
الطاف صاحب کے ساتھ ایک ''ملاقات‘‘ تو ہر مہینے اُردو ڈائجسٹ کے ذریعے ہوجاتی تھی۔ براہِ راست زیارت کا شرف1968ء کے اواخرمیں حاصل ہوا۔ ایوب خان کی آمریت اپنے دس سال مکمل کر رہی تھی۔ سرکار کی طرف سے ملک بھر میں عشرۂ ترقی منانے کی تیاریاں جاری تھیں۔ حزبِ اختلاف اضمحلال کا شکار تھی لیکن زیر ِزمین طوفان پل رہا تھا۔ انہی دِنوں حیدرآباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کُل پاکستان اجتماع ہوا۔ تب مشرقی پاکستان (مرحوم) بھی پاکستان کا حصہ تھا اوراِس اجتماع میں وہاں کے نوجوانوں کی نمائندگی بھی معقول تھی ۔ سہ روزہ اجتماع کا آخری آئیٹم مشاعرہ تھا اور شعرا میں الطاف صاحب بھی تھے۔ پہلے ہی شعر پر دادو تحسین کا شورسا اُٹھا جو آخری شعر تک بڑھتا ہی چلا گیا۔ آمریت کے مسلط کردہ مصنوعی استحکام اور ''سکون‘‘ وسکوت کے خلاف الطاف صاحب کی آواز گونج رہی تھی،جواں دِلوں میں ولولے اُٹھ رہے تھے، مایوسی کے اندھیروں میں جذبوں کے چراغ ٹمٹمانے لگے۔ 
قحطِ آشفتہ سراں ہے یارو
شہر میں امن و اماں ہے یارو
ہائے اربابِ وفا بھی یہ کہیں
اب جنوں کارِ زیاں ہے یارو
تختۂ دار پہ کب کھینچو گے؟
مرا احساس جواں ہے یارو
کوئی آئینہ سلامت نہ رہے
مرضیٔ شیشہ گراں ہے یارو
اپنے الطاف کا دھندلا سا وجود
صبح صادق کا نشاں ہے یارو
زیادہ دِن نہیں گزرے تھے کہ ایوب خاں کے خلاف ملک کے دونوں حصوں میں ایجی ٹیشن شروع ہوگیا ۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس کامیاب ہو کر بھی ناکام رہی۔ اُردو ڈائجسٹ میں ''گول میز کانفرنس کی کہانی‘‘ ایک معرکتہ الآرا تحریر تھی، سازشوں کو واشگاف اور سازشی چہروں کو بے نقاب کرنے والی تحریر۔ اپنے عہد کے منفرد سیاسی ہفت روزہ ''زندگی‘‘ اور ملتان سے روزنامہ ''جسارت‘‘ کا اجرأ قریشی برادران کے نئے ایڈونچر تھے۔ ''زندگی ‘‘ میں انہیں جناب مجیب الرحمن شامی، مختار حسن(مرحوم) سجاد میر، ممتاز اقبال ملک، سعود ساحر اور ظہیر احمد جیسے نوجوانوں کی رفاقت میسر آئی، جو اپنے جذبوں کے ساتھ کچھ کر گزرنے کو بے تاب تھے۔ ''جسارت‘‘ میں انہیں جناب صلاح الدین (شہید) جیسے باکمال ایڈیٹر کی خدمات نصیب ہوئیں۔ 
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘میں‘ یہ قریشی برادران کی صحافت کا نیا دور تھا، ابتلأ وآزمائش کا دور۔ سقوطِ مشرقی پاکستان پر قوم صدمے سے دوچار تھی، ہُو کا عالم تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کی یک جماعتی آمریتوں کی طرح کیا پاکستان بھی طویل عرصے تک آمریت (بلکہ فسطائیت) سے دوچار ہوجائے گا؟ سیاسی مخالفین کو ''فکس اپ‘‘ کرنے کے عزائم ، بھٹو صاحب نے کبھی نہیں چھپائے تھے۔ وہ ان میں قریشی برادران کو بھی شمار کرتے۔ چیئرنگ کراس لاہور کے اجتماع میں تو انہوں نے نام لے کر کہا تھا، میں اِن سے انتقام لوں گااور اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ قریشی برادران نے مصلحت اور مصالحت کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ جنوری کا شمارہ ، ''نئے پاکستان ‘‘میں اُردو ڈائجسٹ کا پہلا شمارہ تھا اور اس نے تہلکہ مچادیا۔ ''سقوطِ ڈھاکہ سے پردہ اُٹھتا ہے‘‘۔ قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کرنے والے کردار بے نقاب ہونے لگے۔ یہ پہلی قسط تھی۔ فروری اور مارچ میں سلسلہ آگے بڑھا۔اپریل میں کہانی مکمل ہوگئی ، ادھر بھٹو صاحب کا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہوگیاتھا۔ قریشی برادران گرفتار کر لئے گئے، اُردو ڈائجسٹ اور زندگی کے ڈیکلریشن ضبط۔ صعوبتوں کے صحرا میں شامی صاحب بھی ہم قدم تھے۔ بھٹو شاہی کا بیشتر عرصہ دونوں بھائیوں نے جیل میں گزارا۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ قبل رہا ہوگئے تھے، الطاف صاحب کے لیے درِ زنداں 5جولائی 1977کے بعد کھلا۔ یاد آیا، الطاف حسن قریشی تو جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء میں بھی گرفتار ہوئے ۔ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن پر ان کا آرٹیکل عتابِ شاہی کا باعث بن گیاتھا۔ تب بھٹو صاحب بھی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ ایک دِن ہم نے پوچھا،'' اُن دِنوں کبھی بھٹو سے بھی آمنا سامنا ہوا‘‘؟ ... ''ایک دوبار، عدالت جاتے ہوئے علیک سلیک ہوئی تھی‘‘۔ 
رہائی کے بعد انہوں نے ''زندگی‘‘کے احیأ کا فیصلہ کیا۔ ہماری خوش بختی جو اپنی صحافتی زندگی قریشی برادران کے زیرسایہ شروع ہوئی۔ (یونیورسٹی سے فراغت کے بعد ہم ایک مہینہ جناب عبدالقادر حسن کے ہفت روزہ ''افریشیا‘‘ سے وابستہ رہے۔ اِن کی محبت اور شفقت کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ انہیں، ''زندگی ‘‘ کی طرف سے پیشکش کا علم ہوا تو بخوشی اجازت دے دی کہ ایک بڑے اِدارے میں بہتر تنخواہ کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع بھی زیادہ تھے)۔ 
''زندگی‘‘ میں ہم ''برگد‘‘ کے دو درختوں کے زیرسایہ تھے لیکن یہ اردو محاورے والے ''برگد‘‘ نہیں تھے جن کے زیرسایہ پودے بڑے نہیں ہوتے۔ اپنے اسکول کے دِنوں میں ہم اردو ڈائجسٹ میں ضیأشاہد، اسد اللہ غالب ، مقبول جہانگیر اور ستار طاہر جیسے نام پڑھتے، اردوڈائجسٹ میںجنہیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور اجالنے کا ماحول ملا، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی شفقت اور الطاف صاحب کی رہنمائی میں اِن کی شخصیت پروان چڑھتی گئی اور یہ صحافت کے بڑے نام بن گئے۔ ''زندگی‘‘ کے پہلے دور میں جناب شامی اور ان کے رفقا۔ ''زندگی‘‘ کے دورِ ثانی کا آغاز منیر احمد منیر اور ہارون الرشید کی رفاقت کے ساتھ ہوا۔ یہ رُخصت ہوئے تو ان کی جگہ ہم جیسوں کے لیے خالی ہوگئی۔ اب یہاںارشاد عارف تھے، نیشنل بُک فائونڈیشن کے موجودہ ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی جز وقتی خدمات بھی حاصل تھیں، خالد ہمایوں بھی پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر کے اِدھر چلے آئے تھے ۔گورنمنٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل ـ(اب سابق) ڈاکٹر اے ڈی نسیم کے صاحبزادے اور ڈاکٹر سعادت سعید کے چھوٹے بھائی طاہر نسیم نے بھی صحافت کی ڈگری کے ساتھ اِدھر کا رُخ کیا۔ ''سرِ راہے ‘‘ والے پروفیسر سلیم بھی موجود ہوتے ۔ کچھ عرصے کے لیے رفیق ڈوگر بھی آئے اور چلے گئے۔
یہاں مناسب ڈسپلن کے ساتھ آزادی کا ماحول تھا۔ کاپی پریس چلی جاتی تو اگلی صبح ڈاکٹر صاحب آئندہ شمارے کے لیے میٹنگ لیتے ۔ کسی انویسٹی گیٹو اسٹوری پر کام کا فیصلہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اس کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی میں تاخیر نہ کرتے ۔الطاف صاحب ضروری نکات کے حوالے سے رہنمائی کرتے اور متعلقہ لوگوں(اخباری اصطلاح میں ''ذرائع‘‘ کہہ لیں) سے رابطے میں بھی مددگار ہوتے۔ وہ اپنے نوجوان رفقاء کی تجاویز پر بھی پورا دھیان دیتے، ''اختلافِ رائے‘‘ اس میٹنگ کا اہم عنصر ہوتا۔ یہاں اُردوڈائجسٹ کی بڑی Richلائبریری سے استفادے کی سہولت بھی حاصل تھی۔ بیرونِ ملک چھپنے والی جدید کتابیں ڈیڑھ، دو ہفتے میں یہاں پہنچ جاتیں۔ انگریزی اور اُردو جرائد کے تازہ شمارے بھی موجود ہوتے۔ ہم نے ہوائی جہاز کا پہلا سفر ''زندگی ‘‘ سے وابستگی کے دِنوں میں کیا۔ تھاہکوٹ میں شاہراہِ ریشم کے افتتاح کی تقریب تھی جہاں چینی وزیراعظم بھی تشریف لارہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے لیے لاہور /راولپنڈی دو طرفہ ہوائی ٹکٹ کا بندوبست کیا۔ پنڈی میں ڈائریکٹر ISPR کو ہماری ''مناسب‘‘دیکھ بھال کی تاکید کی۔ رات ایبٹ آباد میں بسر کرنا تھی۔ پنڈی سے تھاہکوٹ تک ہم ISPRوالوں کی ذمہ داری تھے ۔ 
الطاف صاحب کے پاس وقت ہوتا تو کسی اہم اسٹوری پر خود بھی نظر ڈال لیتے۔ زبان و بیان کی غلطی پاتے تو اصلاح کردیتے۔ مزید''حقائق‘‘ کی ضرورت ہوتی تو اس طرف توجہ دِلاتے۔ الطاف صاحب اپنی تمام تر شفقت کے باوجود قدرے کم گو تھے، سنتے زیادہ اور بولتے کم۔ ڈاکٹر صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ فرصت کے اوقات میں ، ہفتے میں ایک آدھ بار مجلس آرائی کا اہتمام کرتے ۔اِن کی فیملی ، اوپر والی منزل میں رہتی تھی، وہاںسے خصوصی چائے اور بسکٹ منگواتے اور پھر ڈاکٹر صاحب کی مزے مزے کی حکایتیں۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں پیش آنے والی مشکلات، عسرت و تنگدستی کی کہانیاں۔ نامساعدحالات میں ہمت اور حوصلے سے آگے بڑھنے اورمشکلات کے پہاڑوں سے جوئے شیرنکال لانے کی داستانیں، جن میں نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ہوتا۔ جنرل ضیأالحق نے 1979ء کے اواخر میں، دوسری بار انتخابات کے التوا کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کردی، اس کے ساتھ ہی سخت تر سینسر۔ اب سیاسی جریدے کا ''جواز‘‘ باقی نہیں رہا تھا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ جنوبی پنجاب میں ظلم وستم کی ایک اسٹوری کی اشاعت پر، مارشل لاء حکم کے تحت''زندگی‘‘ بند کردیا گیا۔ الطاف صاحب(اورڈاکٹر صاحب) کے ساتھ ہمارا''محکمہ جاتی‘‘ تعلق اختتام کو پہنچا لیکن ہماری محبت و عقیدت اور اُن کی شفقت و نوازش کا تعلق اب بھی قائم ہے۔شاعر کو شکایت تھی ؎
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
ہم خوش بخت کہ صحافتی زندگی کے آغاز ہی میں الطاف صاحب مل گئے، جنہیں اپنے دورِ طالب علمی میں آئیڈیلائزکرتے تھے۔
(شعبہ ابلاغیات کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کی زیرترتیب کتاب ''الطافِ صحافت‘‘کیلئے لکھا گیا)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں