برادرم خورشیدندیم کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، بعض میڈیائی دانشوروں کا معاملہ، 8 اگست کے سانحہ کوئٹہ پر بھی جو اپنے تعصبات اوراپنی ''ترجیحات‘‘ سے اوپر نہ اٹھ سکے۔ بدھ کی صبح، ایک مارننگ شو میں ایک ریٹائرڈ عسکری دانشور فرما رہے تھے، جمہوریت کو چھوڑو، ملک کی بات کرو۔ ملک ہی نہ رہا تو کیسا آئین؟ کہاں کی جمہوریت؟ تو کیا ملک اور آئین، ریاست اور جمہورت باہم متضاد اور متصادم ہیں؟ وہی مائنڈ سیٹ کا مسئلہ، جو اس نکتۂ توحید کو نہیں سمجھتا کہ کوئی ایک ادارہ نہیں، بلکہ آئین اور جمہوریت ہی ملّی یک جہتی اور قومی استحکام و سلامتی کے ضامن ہیں۔
وہی بال کی کھال اتارنے، دور کی کوڑی لانے کا مسئلہ... ایک صاحب فرما رہے تھے، 8 اگست کے سانحہ پر وزیراعظم تو کوئٹہ گئے، لیکن وزیرداخلہ چودھری نثار ان کے ہمراہ کیوں نہ گئے؟ اور اگلے ہی روز وزیرداخلہ پرائم منسٹر ہائوس میں موجود تھے، یہاں قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ بھی تھے اور وہ دونوں پرائم منسٹر کو سانحہ کوئٹہ اور ملک میں سکیورٹی کی صورت حال پر بریف کر رہے تھے۔ اور آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، سکیورٹی کے معاملات پر وسیع تر اجلاس میں بھی وہ موجود ہیں۔
سانحہ کی اطلاع پاتے ہی آرمی چیف کوئٹہ روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وزیراعظم بھی پہنچ گئے۔ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے موقع پر آرمی چیف بھی وزیراعظم کے ساتھ تھے۔
اسی شام گورنر ہائوس میں وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں بھی آرمی چیف موجود تھے۔ یہ ''سیم پیج‘‘ پر ہونے کا اظہار تھا لیکن ایک صاحب دُور کی کوڑی لائے، دونوں شریف الگ الگ کوئٹہ کیوں پہنچے؟ دونوں اکٹھے کیوں نہ گئے؟ حالانکہ الگ الگ جانا اور اکٹھے جانا کوئی مسئلہ نہیں تھا... اکٹھے جانے کی صورت میں یہ اعتراض وارد ہو سکتا تھا کہ سکیورٹی کی سنگین صورت حال میں دونوں کا ایک ہی جہاز میں سفر کرنا کیا مناسب تھا؟
کوئٹہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے صاف صاف الفاظ میں کہا، مجھے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ چائنا پاک اکنامک کاریڈور (سی پیک) پاکستان کے دشمنوں کا ہدف ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کی جنگ میں جنرل راحیل شریف کی زیرقیادت پاک فوج کی کارکردگی کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تمام سکیورٹی اداروں کو دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کارروائی کی ہدایت بھی کی۔ سی پیک کے حوالے سے آرمی چیف نے بھی یہی بات کہی تھی۔
اگلے روز کور کمانڈرزکانفرنس میں آرمی چیف کا کہنا تھا، کسی کو دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالنے دیں گے۔عدلیہ اور ہسپتال پر بزدلانہ حملہ ضربِ عضب کی کامیابیوں کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔
سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی بڑی تعداد وکلاء پر مشتمل تھی۔ ان میں بلوچستان کے بعض چوٹی کے وکلاء بھی تھے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کوئٹہ (اور بلوچستان) کے وکلاء بھی ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہور کی حکمرانی کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ افتخار محمد چودھری والی تحریک میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ اس طویل تحریک کے فیصلہ کن مرحلے میں، سپریم کورٹ بار کے صدر علی احمد کرد کا تعلق بھی کوئٹہ سے تھا اور وہ جس انداز میں عدلیہ کی بحالی کے لیے قوم اور خصوصاً اپنی وکلاء برادری کا لہو گرماتے، ان کے جذبوں کو نیا رنگ اور ولولوں کو نیا آہنگ دیتے رہے، وہ اس عظیم الشان تحریک کا ایک اور یادگار باب ہے۔ وزیراعظم نے سانحہ کوئٹہ کے اس پہلو کا بھی ذکر کیا، اسے جمہوریت کے ستون (عدلیہ اور وکلائ) پر حملہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ہر اس ادارے سے نفرت کرتے ہیں، جو ہماری ریاست کا لازمی جزو ہے۔ لیکن ہمارے ایک دانشور دوست یہاں بھی ''سیم پیج‘‘ پر نہ ہونے کا نکتہ نکال لائے: ''آرمی چیف اسے سی پیک پر اور وزیراعظم جمہوریت کے ستون پر حملہ قرار دے رہے ہیں‘‘۔
سانحہ کوئٹہ پر محمود خاں اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور مولانا شیرانی کا ردعمل ''ضرورت سے کچھ زیادہ‘‘ سہی لیکن اس پر ناقدین کا ردعمل کہیں شدید تر تھا۔ فرزند لال حویلی نے تو اچکزئی کو بھارتی ایجنٹ تک کہہ ڈالا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے ہمارے بعض دوست حکومت اور سول اداروں کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں۔ اب سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے اگر ''ایجنسیوں‘‘ کی کارکردگی کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا، تو اس پر ان کی طرف سے ایسا شدید ردعمل؟ الامان والحفیظ!!
یاد آیا،2 مئی 2011ء کی شب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر امریکی حملے (اور اسامہ کے قتل) پر ملک میں ہاہاکار مچ گئی تھی۔ آرمی چیف جنرل کیانی ایک ہی روز میں دودو، تین تین چھائونیوں میں جوانوں سے خطاب میں فرما رہے تھے۔ میاں نواز شریف لندن میں اپنا علاج ادھورا چھوڑ کر وطن لوٹ آئے تھے، پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا، جس میں عسکری قیادت بھی موجود تھی۔تب عسکری ایجنسیاں اس بری طرح تنقید کی زد میں آئیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے رضاکارانہ استعفے کی پیشکش کردی۔ اب سانحہ کوئٹہ پر بھی اگر کچھ لوگوں نے ایجنسیوں کی طرف اشارہ کیا ہے تو ہمارے خیال میں تو اسے گوارا کیا جانا چاہیے۔ آپ اختلاف ضرور کریں، اسے ہدف تنقید بنانا بھی آپ کا جمہوری حق ہے، لیکن اس پر ملک دشمنی اور دشمن کی ایجنٹی کا الزام کوئی جواز نہیں رکھتا۔
ہمارے ایک دوست تو اپنے ٹی وی ٹاک شو میں یہ سوال بھی اٹھا رہے تھے کہ کیا اس کے بعد اچکزئی صاحب کے بھائی کو بلوچستان کا گورنر رہنے کا حق حاصل ہے؟ مولانا فضل الرحمن اور شیرانی بھی ان کا خصوصی ہدف تھے۔ حیرت ہے، ہم ایک طرف بلوچستان کے ''ناراض بھائیوں‘‘ سے مذاکرات کی بات کرتے، انہیں سیاسی دھارے میں آنے اور بندوق (بلٹ) کی بجائے ''صندوق‘‘(بیلٹ بکس) کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف ان عناصر کو جو ریاست کے قومی دھارے میں شریک ہیں، جو بندوق کی بجائے صندوق کی سیاست کر رہے ہیں، جو عسکریت کی بجائے جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کی بات کرتے اور اس میں یقین رکھتے ہیں، نقطہ نظر کے اختلاف پر انہیں ملک دشمن اور دشمن کا ایجنٹ قراردینے میں لمحہ بھر کا تامل نہیں کرتے۔ پاکستانی طالبان کو مولانا فضل الرحمن کا ہم مسلک اور ہم عقیدہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن مولانا تین بار ان کے حملوں کی زد میں آئے، محض اس لیے کہ وہ شریعت کے نفاذ کے لیے عسکریت کی بجائے جمہوریت کے علمبردار ہیں۔ حیرت کی بات ہے، خود کو ''طالبان کا باپ‘‘ کہنے والے مولانا سمیع الحق تو ہمارے محبوب و محترم ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کو طعن و تشنیع کا ہدف بنانے کا کوئی موقع ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔