"RTC" (space) message & send to 7575

’’پابندی‘‘۔۔۔۔؟

جی ہاں! ''وہ‘‘ چاہتے تو کراچی میں میئر کا الیکشن ملتوی کرا سکتے تھے۔ وہ اتنا کچھ کر رہے ہیں‘میئر کے الیکشن کا التوا کیا مسئلہ تھا؟ لیکن انہوں نے یہ الیکشن ہونے دیا اور ایم کیو ایم کے وسیم اختر کے انتخاب میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ اور یوں یہ حقیقت ایک بار پھر واشگاف ہو گئی کہ کراچی کا مینڈیٹ کس کے پاس ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کراچی (اور حیدر آباد) میں ایم کیو ایم کے دفاتر کی تالہ بندی اور تجاوزات کے زمرے میں آنے والے اس کے دفاتر کا انہدام بھی کیا ضروری تھا؟ آج ایم کیو ایم پر پابندی کے لیے حکومتی مشاورت کی خبر بھی شائع ہوئی ہے‘ جس کے لیے قانونی ماہرین سے آرا بھی طلب کر لی گئی ہیں۔ لیکن کراچی میں معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ 1985-86ء میں ایم کیو ایم کے ظہور کے بعد وہاں کرائم اور پالٹکس باہم مدغم ہو گئے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ ''سیکٹر انچارج‘‘ اور ''یونٹ انچارج‘‘ اس کے منتخب نمائندوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ''دیو‘‘ کی اصل طاقت انہیں''طوطوں‘‘ میں تھی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ایم کیو ایم یہاں کے مہاجروں کی نمائندہ تنظیم بھی بن گئی تھی۔ وہ مافیا بھی تھی اور مہاجروں میں جڑیں رکھنے والی ان کی مقبول و محبوب جماعت بھی۔ چنانچہ یہاں کرائم اور پالیٹکس کو الگ کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ کام تھا (اور ہے) جس کا آغاز ہو چکا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں فاروق ستار سے ملاقات کا ذکر کیا تھا جس میں فاروق بھائی کا دعویٰ تھا کہ اس کارِ خیر کا آغاز خود ایم کیو ایم نے 2012ء میں کر دیا تھا۔ تب سے اب تک وہ تین ہزار سے زائد افراد کو اپنی صفوں سے نکال چکے۔
ایم کیو ایم کی تخلیق میں جنرل ضیاء الحق(اور اس دور کی آئی ایس آئی) کا کتنا رول تھا؟ بلکہ کوئی رول تھا بھی یا نہیں؟ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن معاف کیجیے! کراچی اور حیدر آباد سمیت شہری سندھ میں وہ اسباب و عوامل موجود تھے جنہوں نے ایم کیو ایم کی پیدائش‘ اس کی پرورش اور یوں اسے مہاجروں کی مقبول جماعت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کا کچھ ذکر جناب ہارون الرشید اپنے ایک گزشتہ کالم میں کر چکے۔ ایم کیو ایم نے اردو سپیکنگ مہاجروں کو کیا دیا؟ خود اردو زبان کی اس نے کیا خدمت کی؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ مہاجروں کی شناخت کا وسیلہ‘ اس کا حوالہ بن گئی تھی۔ مہاجر عصبیت کی تسکین کا ذریعہ۔
کل ایک دوست نے سوال کیا‘ تمہارے آبائو اجداد بھی تو امرتسر سے ہجرت کر کے آئے تھے‘ تم خود کو مہاجر کیوں نہیں کہتے؟ عرض کیا‘ ہمیں بھی وہ مسائل درپیش ہوتے (ان میں سے ایک کوٹہ سسٹم کا مسئلہ) جو وہاں اردو سپیکنگ مہاجروں کو درپیش تھے تو شاید ہم بھی ''مہاجر‘‘ کے طور پر اپنے مسائل کے لیے جدوجہد کرتے۔
کراچی (اور حیدر آباد) کے مہاجروں نے تو سندھی قوم پرستوں کے برعکس وفاق کی سیاست کا پرچم تھاما تھا۔ وہ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بھی جمہوری جدوجہد کا ہر اول دستہ رہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابل انہوں نے مادر ملت کی حمایت کی۔ اور یوں ڈٹ کر حمایت کی کہ پورے مغربی پاکستان میں کراچی واحد شہر تھا جہاں فیلڈ مارشل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں بھی رائٹ کی قومی جماعتیں ان کا انتخاب تھیں۔ پھر ایم کیو ایم کہاں سے آ گئی؟ اس کے اسباب کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی۔
بات لمبی ہو رہی ہے۔ اب کرائم اور پالیٹکس کو الگ کرنے کا وقت آ گیا ہے اور خود مہاجر بھی اس میں تعاون پر آمادہ ہیں‘ تو اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ تاثر یہ نہیں جانا چاہیے کہ ہدف کرائم کو پالیٹکس سے علیحدہ کرنا نہیں‘ بلکہ ٹارگٹ ایک خاص کمیونٹی اور اس کی شناخت ہے۔ مصطفی کمال (اور انیس قائم خانی) کی پاک سرزمین پارٹی کے قیام پر تحسین و آفرین کے نعرے لگانے والے آخر فاروق ستار کے نئے رول‘ نئے آپشن کو قبول کرنے پر کیوں تیار نہیں؟
ایم کیو ایم ابھی تک خلاف قانون قرار نہیں پائی۔ پھر اس کے دفاتر سیل کیوں کئے جائیں؟ ان میں سے جو تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں‘ یہ راتوں رات تو اُگ نہیں آئے تھے۔ یہ برسوں سے قائم ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ شہر میں تجاوزات کے خلاف مہم چلائی جاتی‘ اس میں انہیں بھی شامل کر لیا جاتا اور یہ کارِخیر رینجرز کی بجائے شہری اداروں اور (اب وسیم اختر کی) مقامی حکومت کے ذمے لگایا جاتا۔
ہمارے خیال میں تو ''پابندی‘‘سے گریز ہی بہتر ہے۔ ہم یہ رونا روتے ہیں کہ ''کالعدم‘‘ جماعتیں نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔ ایم کیو ایم پر پابندی کے ساتھ‘ ظاہر ہے‘ آپ اس کے لاکھوں ووٹرز کو ووٹ کے حق سے تو محروم نہیں کر سکتے اس کے لیے کسی اور نام سے نئی جماعت وجود میں آ جائے گی(مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی پر تو اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ہونے کا ٹھپہ لگ چکا) تو کیوں نہ فاروق ستار والے آپشن ہی کو بروئے کار آنے کے لیے وقت اور سہولت مہیا کی جائے۔
ہمارخیال میں تو ''کرائم‘‘ میں ملوث عناصر کو بھی واپسی کا راستہ دینے میں کوئی ہرج نہیں۔ آخر ہم براہمداغ بگتی ارو حربیار مری جیسے ریاست کے باغیوں کو بھی‘ دشمن ممالک سے جن کے روابط‘ وہاں سے اسلحہ‘ تربیت اور پیسے کی وصولی بھی ایک کھلی حقیقت ہے‘ ''ناراض بلوچ‘‘ اور ''بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ کہہ کر واپس آنے اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم بلوچ فراریوں کو پندرہ لاکھ روپے(اور کلاشنکوف بھی اپنے پاس رکھنے) کی فراخ دلانہ پیشکش کرتے ہیں تو کراچی کے ''کریمنلز‘‘ سے مناسب احتیاط اور ضروری ضمانت کے ساتھ یہ''سودا‘‘ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادگان مرتضیٰ اور شاہنواز کی ''الذوالفقار‘‘ کی کہانی بھی زیادہ پرانی نہیں۔ انہیں کہاں کہاں سے فنڈنگ ہوتی تھی؟ پاکستان کی دشمن کس کس غیر ملکی ایجنسی سے ان کے روابط تھے‘ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں۔ تب خود ساختہ جلا وطن غلام مصطفی کھر بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ وہ ایک بار مرتضیٰ کے ساتھ ہندوستان گئے اور ایک انٹرویو میں فرمایا‘ ہم ہندوستان کے ٹینکوں پر بیٹھ کر پاکستان جائیں گے۔ شاہنواز کو دیار غیر میں موت نے آ لیا (پیرس کی پولیس اور میڈیکل رپورٹس میں کثرت مے نوشی کو اس کا سبب قرار دیا گیا تھا۔) غلام مصطفی جتوئی(مرحوم) نے جنرل ضیاء الحق کی اشیر باد کے ساتھ نیشنل پیپلز پارٹی بنا لی۔ کھر صاحب جتوئی کے دست راست تھے‘ لیکن ضیاء الحق انہیں معاف کرنے کو تیار نہ تھے۔ وطن واپسی پر وہ گرفتار کر لیے گئے۔ بعد میں کھر صاحب‘ بے نظیر صاحبہ کی پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور وفاقی وزارت انجوائے کی‘ آج کل گوشہ نشین ہیں‘ البتہ گزشتہ دھرنوں میں ایک آدھ بار علامہ صاحب کے دائیں بائیں پائے گئے۔
مرتضیٰ واپس آیا اور بہن کے مقابلے میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)بنا لی‘ سندھ اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت گیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن‘رائو رشید‘ اسحاق خاکوانی اور ہمارے دانشور دوست فرخ سہیل گوئندی سمیت کیسے کیسے محب وطن اور سچے اور پکے پاکستانی‘ مرتضیٰ کی شہید بھٹو پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے (بہن اور بھائی کی اس لڑائی میں نصرت بھٹو بیٹے کے ساتھ تھیں۔)بھٹو دور میں اجمل خٹک کابل سدھار گئے تھے۔ وہاں ہر سال ''یوم پختونستان‘‘ مناتے‘ ''پختونستان‘‘کا جھنڈا لہراتے۔ 1985ء کے عام انتخابات کے بعد وطن لوٹ آئے‘ دوبارہ اے این پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ آخری ایام میں جنرل مشرف کی قربت سے بہرہ مند ہوئے۔''خدانخواستہ یہ باقی ماندہ پاکستان بھی ٹوٹ گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے‘‘ یہ عطاء اللہ مینگل تھے۔ بعد میں''ریاستی جبر‘‘ سے تنگ آ کر ''ریاست‘‘ کے باغی ہو گئے۔ لیکن دوبارہ قومی دھارے میں آ گئے۔ میاں صاحب کے دوسرے دورِ اقتدار میں اختر مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اواخر1997ء میں صدر لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے پیدا کردہ بحران کے دوران‘ وزیر اعظم نواز شریف لاہور‘ اسلام آباد موٹر وے کے افتتاح کے لیے نکلے تو اختر مینگل ان کی گاڑی چلا رہے تھے۔ خیر بخش مری کا بڑا صاحبزادہ چنگیز خاں مری‘ آج بلوچستان میں نواز شریف کا ساتھی ہے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے مقابل پاکستان کا علمبردار۔
تو کیوں نہ ان مثالوں کو رہنما بنایا جائے اور الطاف کے ساتھیوں میں سے جو واپس آنا چاہتا ہے‘ اس کا خیر مقدم کیا جائے اور فاروق ستار آپشن ہی کو آگے بڑھایا جائے!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں