طلال چوہدری اور دانیال عزیز وغیرہ کے جواب آں غزل کو‘ ہز ماسٹرز وائس قرار دے کر نظر انداز کر دیں۔ حفیظ اللہ نیازی کو بھی درخوراعتنا نہ سمجھیں کہ اپنے حقیقی کزن (اور اپنے بچوں کے پیارے ماموں) کے ساتھ اس کا سیاسی اختلاف‘ قبائلی جنگ کی صورت اختیار کر چکا۔ اس کے لیے یہ بات بُھلانا بڑا مُشکل ہے کہ عمران خان نے اس کے چھوٹے بھائی کی جواں مرگ پر جنازے یا رسم سوئم میں شرکت تو کجا‘ تعزیت کے لیے ایس ایم ایس بھی ارسال نہ کیا۔ بلکہ اسی شام کنٹینر پر اپنی سالگرہ کی کیک کٹنگ Ceremony کو ملتوی کرنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ چنانچہ حفیظ اللہ نیازی کے اس انکشاف کو بھی جانبدارانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ اپنی شوگر مل میں گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کرنے کے لیے انڈیا سے پہلا پلانٹ‘ خان کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی کمپنی JTW نے منگوایا تھا۔ نیازی کے بقول پاکستان میں 100 کے لگ بھگ شوگر ملوں میں سے بیشتر میں پھوک (بگاس) کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ موجود ہیں۔ اس کے بقول اس بارے میں دو آرا ہو سکتی ہیں کہ شریف برادران کو یہ کاروبار کرنا چاہیے یا نہیں‘ لیکن انڈین پلانٹ منگوائیں گے تو انہیں انسٹال کرنے‘ پھر سال چھ ماہ بعد ان کی مینٹی ننس اور مقامی لوگوں کو اس کی ٹریننگ دینے کے لیے انڈین ایکسپرٹ بھی آئیں گے اور اپنا کام کر کے واپس چلے جائیں گے۔
جنرل پرویز مشرف رخصت ہوئے لیکن اپنے پیچھے ریٹائرڈ عسکری دانشوروں کی فوج ظفر موج چھوڑ گئے۔ ساری عمر دفاعی اداروں میں گزار دینے والے ان ماہرین میں سے بیشتر کے تبصرے اور تجزیے دفاعی امور پر کم اور سیاسی و آئینی معاملات کے حوالے سے زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں نوازشریف کو سکیورٹی رسک اور موجودہ آئینی نظام کے تسلسل کو ملک کے لیے سکیورٹی تھریٹ قرار دینے میں بھی کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ان عسکری دانشوروں میں کم تعداد ہی میں سہی‘ وہ بھی ہیں کہ جنہیں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان میں ریٹائرڈ ائیر مارشل شہزاد چوہدری بھی ہیں جو قومی سلامتی کے اداروں پر کسی ''ناروا‘‘ تنقید (یا الزام تراشی کہہ لیں) کی تردید میں چوکتے نہیں لیکن وہ سیاستدانوں کو بطور ادارہ گالی نہیں دیتے۔ وہ قومی سلامتی اور ملی یکجہتی کے لیے آئینی و جمہوری نظام کے تسلسل کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اس کا بھرپور اظہار اور اس پر اصرار بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ‘ جرمنی اور چین میں بھی یہ ٹربائنز بنتی ہیں‘ لیکن انڈیا اس ٹیکنالوجی میں ان سے آگے ہے۔ وہاں لیبر سستی ہونے کی وجہ سے ان پر پیداواری لاگت بھی کم آتی ہے‘ یوں دوسرے ملکوں کی ساختہ ایسی ٹربائنز کی نسبت یہ سستی پڑتی ہیں‘ یہ سرحد کے اس پار سے آتی ہیں چنانچہ ان پر سفری اخراجات اور وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ ان کی انسٹالیشن اور مینٹی ننس وغیرہ کے لیے آنے والے انڈین ایکسپرٹ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن سے باقاعدہ ویزہ لے کر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانے/ ہائی کمشن کسی ہندوستانی کو ویزا دیتے ہوئے غیر معمولی احتیاط سے کام لیتے ہیں‘ اس کے لیے انٹیلی جنس انفارمیشن
کا آخری حد تک اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی شہریت (اور امریکی پاسپورٹ) کے حامل کسی ہندوستانی نژاد شہری کے لیے بھی اسی چھان پھٹک کا اہتمام ہوتا ہے۔
ہم بارہ سال جدہ میں رہے‘ سعودی عرب سے شاذونادر ہی کوئی انڈین شہری پاکستانی ویزے کے لیے اپلائی کرتا تھا، لیکن اسے بھی انٹیلی جنس کے انہی مراحل سے گزرنا پڑتا۔ ہمیں یاد ہے‘ عرب نیوز سے وابستہ ہمارا دوست‘ اورنگ آباد (جنوبی ہند) سے تعلق رکھنے والا نوجوان سراج وہاب 2007ء میں اپنی صحافتی ذمہ داری کے سلسلے میں ہفتے بھر کے لیے پاکستان آ رہا تھا‘ اس کے لیے پاکستانی ویزے کے اجراء میں بھی خاصی جانچ پرکھ کی گئی تھی۔
ایئر مارشل (ر) شہزاد چوہدری کے بقول پاکستان آنے والے ہندوستانیوں کا یہاں داخلہ سختی سے مانیٹر کیا جاتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران بھی ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے؛ چنانچہ شہزاد چوہدری‘ شریف برادران کی شوگر ملوں میں ان پلانٹس کے لیے آنے جانے والے انڈین ایکسپرٹس کو ''را‘‘ کا ایجنٹ قرار دیئے جانے کو علامہ صاحب کی زیادتی (بلکہ غلط بیانی) قرار دیتے ہیں۔
پاکستانی ویزے پر وزٹ کرنے والے ہندوستانی شہریوں کے ساتھ یہ معاملہ یک طرفہ نہیں‘ ہندوستان بھی پاکستانی شہریوں کے ساتھ یہی کچھ کرتا ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر امان اللہ ملک‘ سارک یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو قانون کی تعلیم دینے کے لیے دہلی گئے۔ سارک کے ممالک کی فنڈنگ کے ساتھ اس یونیورسٹی کا آغاز دہلی میں ہوا‘ رفتہ رفتہ سارک رکن دوسرے ملکوں میں بھی اس کے کیمپس کھل جائیں گے۔ ڈاکٹر امان اللہ ملک کی سلیکشن پانچ سال کے لیے ہوئی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی (لاہور) لاء کالج کے اس مقبول استاد نے دہلی کے طلباء و طالبات میں بھی محبت و احترام کا خاص مقام حاصل کر لیا تھا۔ اسے اپنے رفقاء (اساتذہ) کی چاہت بھی حاصل تھی۔ لیکن پانچ سال کے بجائے وہ صرف دو سال کے بعد پاکستان لوٹ آیا کہ اسے یوں لگتا ہے وہ جہاں بھی جاتا ہے‘ کچھ آنکھیں مسلسل اس کی نگرانی کرتی ہیں۔ اس دوران کسی ہندوستانی بینک میں وہ اپنا اکائونٹ بھی نہ کھلوا سکا۔ دہلی کی کسی مسلمان فیملی کے ہاں جانا بھی خطرے سے خالی نہ ہوتا۔ پاکستانی ہائی کمشن سے رابطے میں بھی اسے خاصی احتیاط سے کام لینا پڑتا۔
3 ستمبر کی شب رحمان آباد (راولپنڈی) کے جلسے میں علامہ صاحب نے پاکستان کے منتخب وزیراعظم پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے شریف برادران کی شوگر ملوں میں ''را‘‘ کے ایجنٹوں کا حوالہ دیا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے کچھ دستاویزات بھی لہرائیں۔ گزشتہ روز لاہور کی پریس کانفرنس میں علامہ صاحب نے انہی الزامات کا اعادہ کیا اور اس کے لیے پچاس ہندوستانیوں کی فہرست بھی پیش کی جسے وہ پہلی قسط قرار دے رہے تھے۔ علامہ صاحب کے بقول اس فہرست کی تیاری میں انہیں بے پناہ تحقیق کرنا پڑی۔ ہمارے خیال میں انہیں اس کے لیے اس بے پناہ مشقت کی ضرورت نہیں تھی۔ ہندوستان سے آنے جانے والوں کا سارا ریکارڈ واہگہ بارڈر پر کسٹم اور امیگریشن والوں کے پاس ہوتا ہے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ہماری سپریم ایجنسی کو تو امریکی سی آئی اے‘ ایف بی آئی اور اسرائیلی موساد سے بھی اوپر‘ دنیا کی نمبر ون ایجنسی قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ صاحب کا یہ انکشاف قومی سلامتی کی ذمہ دار ہماری ایجنسیوں پر الزام کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے‘ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد‘ ایک پریس کانفرنس میں آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ سے پاکستان کی شوگر ملوں میں ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی موجودگی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے اس سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔