شاخِ نازک پر ٹِکا ہوا، جمہوریت کا آشیانہ جمعہ 16 ستمبر کی سہ پہر ایک بار پھر طوفان کی زد میں تھا۔ ایسے میں سندھ کے ''جواں سال‘‘ وزیراعلیٰ بروئے کار آئے۔ وزیراعظم نے بھی رابطہ کیا اور طوفان تھم گیا۔
ایک پولیس آفیسر کی جرأت اور ایسی جرأت کہ اسے حکومت کی طرف سے معطلی کے حکم کو، میڈیا سے گفتگو میں، غیر قانونی قرار دینے میں کوئی عار نہ تھی۔ کس غرور و تمکنت کے ساتھ اس کا کہنا تھا، مجھے Under Estimate نہ کیا جائے(مجھے کمزور نہ سمجھا جائے)۔ اس نے سندھ پولیس میں گروہ بندی کا انکشاف کرتے ہوئے اپنے خلاف کارروائی کو ''سیاسی‘‘ قرار دیا، جس کے آفٹر ایفیکٹس بھی مرتب ہوں گے۔
1982ء میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس کیریئر کا آغاز کرنے والے راؤ انوار پر قسمت بہت مہربان رہی تھی۔ اس نے تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ اس دوران وہ معطل بھی ہوتا رہا۔ غیر قانونی ترقیوں کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی زد میں آنے والوں میں راؤ انوار بھی تھا۔ وہ ایس پی کے عہدے سے واپس انسپکٹر بن گیا۔ لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ دوبارہ ایس پی بنا دیا گیا۔ اب ایک عرصے سے وہ ملیر کا ایس ایس پی ہے، دیگر ایس ایس پیز کے مقابلے میں ملیر کے ایس ایس پی کی ایک خاص اہمیت ہے۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں جنرل نصیر اللہ بابر کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں نچلے درجے کے جو پولیس آفیسرز نمایاں ہوئے، راؤ انوار بھی اِن میں شامل تھا۔ کہا جاتا ہے، انہی دنوں اِسے پیپلز پارٹی کی قیادت کی قربت حاصل ہوئی۔ جنابِ زرداری کے ساتھ یہ قربت خصوصی تعلقِ خاطر میں بدل گئی تھی۔ اسی باعث گزشتہ روز کی کارروائی کے خلاف میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ کیا راؤ انوار کو دبئی میں مقیم آصف زرداری کی تائید بھی حاصل ہے؟ لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی کے موجودہ آپریشن میں اس نے پیپلز پارٹی سے زیادہ، اصل مقتدرہ کا اعتماد، چاہت اور قربت حاصل کر لی ہے۔ اپنی معطلی کے خلاف میڈیا سے گفتگو میں کس دھڑلّے سے اس کا کہنا تھا کہ اس نے جو کچھ کیا، قانونی اختیار کے تحت کیا جس کے لیے اسے کسی سے پوچھنے، کسی سے اجازت لینے، کسی کے علم میں لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو ایس ایس پی ہے، کسی ملزم کی گرفتاری تو کوئی عام پولیس اہلکار بھی کر سکتا ہے۔ لیکن کیا خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری (اور اس توہین آمیز انداز میں گرفتاری) کا معاملہ ایسا سادا تھا؟
خواجہ اظہار الحسن سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ہے۔ جمعہ کی سہ پہر وہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ میٹنگ میں تھا جب اِسے اپنے گھر پر پولیس چھاپے کی اطلاع ملی۔ علاقے کا تھانیدار کسی سرچ وارنٹ کے بغیر گھُس آیا تھا۔ تب گھر میں خواجہ کی والدہ، اس کی اہلیہ، ایک دو اور خواتین اور اس کا بارہ سالہ بیٹا تھا۔ راؤ انوار کے حکم پر ہونے والی اس کارروائی میں کوئی خاتون اہل کار شامل نہ تھی۔ کسی وارنٹ اور خاتون اہل کار کے بغیر اِس کارروائی پر احتجاج کا جواب خواتین کو بدتمیزی کی صورت میں ملا۔ اپنے قانونی اختیار پر اصرار کرنے والے راؤ انوار کے بقول یہ چھاپہ 12 مئی 2007ء کے دو ملزموں کی گرفتاری کے لیے تھا جنہیں یہاں نہ پا کر پولیس واپس چلی گئی تھی۔
چھاپے کی اطلاع پاتے ہی خواجہ اظہار الحسن نے گھر کا رُخ کیا۔ فاروق ستار سمیت اس کے کچھ اور رفقا بھی چلے آئے تھے۔ اب پولیس کا بہادر ایس ایس پی پورے لاؤ لشکر کے ساتھ خود آیا اور ہدف خود خواجہ اظہار الحسن تھا جسے گرفتاری پیش کرنے میں کوئی عذر نہ تھا، لیکن اس کے لیے اسے وارنٹ گرفتاری پر اصرار تھا۔ یہی
درخواست فاروق ستار کر رہا تھا: سر! کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہ کارروائی کس الزام میں کی جا رہی ہے؟ کیا آپ وارنٹ گرفتاری دکھائیں گے؟ اس کے جواب میں دھکے تھے۔ دبنگ پولیس افسر نے، سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کے ہاتھوں کو رسی سے جکڑنا بھی ضروری سمجھا تھا (رسی سے جکڑے ہوئے ہاتھ کیمروں کا خصوصی فوکس تھے)۔ کیا اسے احساس تھا کہ ایک منتخب عوامی نمائندے کے ساتھ اس توہین آمیز سلوک کے کیا سیاسی اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سب کچھ کو قانونی کارروائی قرار دینے والا اعلیٰ پولیس افسر کیا یہ بتائے گا کہ کسی سرچ وارنٹ، کسی خاتون اہل کار کے بغیر، کسی گھر میں اس عالم میں جا گھُسنا کہ وہاں بارہ سالہ بچے کے سوا کوئی مرد نہ ہو، قانون کی کس شِق کی رو سے جائز تھا؟ پھر ایک منتخب نمائندے کی، بھرے مجمع میں، اس توہین آمیز انداز میں گرفتاری، کہ آپ وارنٹ گرفتاری دکھانے یا اس کا جرم بتانے پر بھی آمادہ نہ ہوں، کس قانون کے تحت جائز تھی؟ خواجہ اظہار تو ایک منتخب نمائندہ تھا۔ یہ حق تو ایک عام شہری کو بھی حاصل ہے کہ وہ گرفتاری سے قبل وارنٹ کا مطالبہ کرے، اپنا جرم جاننا چاہے۔
فاروق ستار اور اس کے رفقا، الطاف حسین کی 22 اگست کی تقریر سے اظہار لا تعلقی کر چکے، انہوں نے ایم کیو ایم کے دستور سے الطاف حسین کا نام بھی نکال دیا۔ اپنا پرچم بھی بدل ڈالا۔ وہ 22 اگست کی تقریر کے خلاف پارلیمنٹ کی قرار داد کی بھی کھلے دل سے تائید کر چکے۔ سرکاری زمین پر بنے ہوئے ان کے دفاتر بھی بلڈوز کئے جا چکے۔ انہیں جرم کو سیاست سے علیحدہ کرنے پر بھی اعتراض نہیں۔ پھر آخر ''ہم‘‘ اِن سے مزید کیا چاہتے ہیں؟ ''ایم کیو ایم پاکستان‘‘ کی اس خود سپردگی کے باوجود، انہیں حب الوطنی کے کس ٹیسٹ سے گزرنا ہو گا؟ کیا مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت ہی مہاجروں کی حب الوطنی کا واحد سرٹیفکیٹ ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ چل رہا ہے: کراچی میں کسی مہاجر کے گھر پر کوئی دودھ والا بھی دستک دے، تو اندر سے ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لطیفے کا لطف لیتے اور اس سے اپنے جذبۂ حب الوطنی کی تسکین پاتے ہوئے، ہمیں اس میں پنہاں طنز کے زہر کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟
یاد آیا، 1971ء کے ملٹری آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان (مرحوم) سے آنے والی کہانیاں ہم جیسے محب وطن پنجابیوں کے لیے کس لطف و تسکین کا باعث بنتی تھیں، پاک فوج کے جوان ایک علاقے سے گزر رہے تھے کہ سامنے ایک بنگالی نظر آیا، پوچھا، تم کون ہو؟ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ''سر! بنزابی‘‘ (پنجابی کا بنگالی تلفظ)۔