جاوید ہاشمی ایک بار پھر میڈیا میں زیر بحث ہے‘ یوں نہیں کہ اس کے سبھی سیاسی فیصلے درست تھے۔ اس نے اپنے غلط فیصلوں کے باعث‘ نقصان بھی اٹھایا۔
نواب زادہ صاحب ہوتے تو یہ شعر پڑھتے ؎
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتاہے
غبارِ قیس خود اٹھتا ہے‘ خود برباد ہوتا ہے
سیاستدان کے طور پر ہاشمی پبلک پراپرٹی ہے اور تجزیہ نگاروں اور تبصرہ کاروں کو اس پر تنقید کا حق بھی‘ لیکن ہاشمی سے عشروں پر محیط شناسائی‘ آشنائی اور دوستی کے دعویدار کالم نگار نے(معاصر روزنامے میں) اس سے انصاف نہیں کیا۔ موصوف کے خیال میں ہاشمی نے عملی سیاست کا آغاز ہی سیاسی و نظریاتی بے وفائی سے کیا‘ جب اس نے اپنی اوائل عمری کی نظریاتی کمٹ منٹ کی پوٹلی کو باندھ کر کسی اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور سیاست کے وہی پیمانے اپنا لیے جو سکہ رائج الوقت تھے۔
ہاشمی نے طلبہ سیاست میں اپنا سکہ جمانے اور سکہ منوانے کے بعد عملی سیاست کے لیے ایئر مارشل (ر) اصغر خاں کی تحریک استقلال کا انتخاب کیا تھا‘ جسے ہمارے دوست کالم نگار جماعت اسلامی سے بے وفائی قرار دیتے ہیں۔ قومی سطح پر ہاشمی کی سٹوڈنٹ لیڈری کو چمکانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنیادی کردار سے انکار ممکن نہیں‘ لیکن پنجاب یونیورسٹی آنے سے پہلے طلبہ قیادت کے حوالے سے وہ اپنی پہچان بنا چکا تھا۔ جنوبی پنجاب کے اہم ترین ادارے‘ گورنمنٹ (ایمرسن) کالج ملتان کی سٹوڈنٹس یونین کی صدارت کا الیکشن جیت کر وہ پنجاب یونیورسٹی آیا تھا۔ یہاں جمعیت نے اسے بلند پروازی کے لیے نئے بال و پر فراہم کئے‘ اس کا کچھ ذکرخود اس کی اپنی زبانی:''1970ء کے عام انتخابات میں (جماعت اسلامی کی) شکست کے ایک ماہ بعد 27جنوری کو پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات تھے اور کوئی مقبول طالب علم جمعیت کے پلیٹ فارم سے امیدوار بننے کو تیار نہ تھا۔ بڑی منت سماجت کے بعد حفیظ خاں کو (جہانگیر بدر کے مقابل) صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا گیا‘ ان کے پینل میں‘ مَیں سیکرٹری جنرل کا امیدوار تھا۔ حافظ ادریس کی صدارت میں دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ انتخاب اسلامی جمعیت طلبہ کے نام پر لڑا جائے اور ہمیں تاکید کی گئی کہ انتخابی مہم میں جمعیت کا نام استعمال نہ کریں۔ پس پردہ ساری مہم جمعیت نے چلائی‘ حافظ ادریس کی ذہانت اس کی پشت پر تھی۔ ہم واضح اکثریت سے جیت گئے جس سے پورے ملک میں اسلامی سوچ رکھنے والوں کو ولولہ تازہ ملا۔ ہم سید مودودی سے ملنے گئے تو انہوں نے آغا شورش کاشمیری کو بلا لیا‘ جو ان دنوں حالات سے دلبرداشتہ اور مایوس تھے اور پیپلز پارٹی کی جارحانہ سیاست سے خوف زدہ بھی''ہاں میں باغی ہوں‘‘
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں‘ یہ ان کی جارحانہ آمریت کا آغاز تھا۔ انگریز کے دور میں برسوں جیل کاٹنے اور قیامِ پاکستان کے بعد مملکت ِ خداداد میں بھی آمریت سے لڑتے ہوئے قیدو بند کی صعوبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے آغا شورش کاشمیری ہی نہیں‘ پیپلز پارٹی کی مخالف سبھی جماعتیں مایوس اور دلبرداشتہ تھیں۔ تب سمن آباد لاہور سے دو یتیم سیّد زادیوں کے اغوا پر حکومت کے خلاف دلیرانہ احتجاج ‘خوف کی دبیز چادر میں پہلا شگاف ڈالنے کا باعث بن گیا۔ یہ کہانی بزرگ سیاسی رہنما‘ 91سالہ رانا نذر الرحمن کی زبانی:۔ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم گورنر ہائوس کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے۔ جاوید ہاشمی گورنر ہائوس کا گیٹ توڑ کر ہجوم کے ساتھ اندر گھس گئے۔ گورنر ہائوس کے لان میں ذوالفقار علی بھٹو برطانوی وزیر لارڈ ہیوم کے ساتھ محوِ گفتگو تھے۔ مظاہرین نے ان کا بھی گھیرائو کر لیا۔ بھٹو نے ممتاز کاہلوں(صوبائی وزیر) کو جاوید ہاشمی کے یرغمال میں دیدیا کہ جب تک لڑکیاں برآمد نہیں ہوتیں‘ ان کو ضمانت کے طور پر اپنے پاس رکھیں۔ شام تک لڑکیاں برآمد ہو کر اپنے گھر پہنچ گئیں۔جب غلام مصطفی کھر نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور حلقہ نمبر6لاہور سے پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا‘ تو پیپلز پارٹی کی حکومتِ پنجاب کی طرف سے روزنامہ ''مشرق‘‘ میں ایک کارٹون شائع کیا گیا جس میں کھر کو گورنر ہائوس کی بالکنی میں بیٹھا ہوا دکھایا گیا تھا ادھر دو آدمی ان لڑکیوں کو اٹھا کر گورنر ہائوس کی مین عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے‘‘(رانا نذر الرحمن کی خود نوشت‘‘ صبح کرنا شام کا‘‘)۔
جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے‘ جب جمعیت نے ان کی زیر قیادت بھٹو صاحب کے خلاف ''بنگلہ دیش نامنظور‘‘ مہم چلائی۔ ہاشمی کو موقع پرستی کا طعنہ دینے والے ہمارے کالم نگار دوست کو بھی اعتراف ہے کہ جاوید ہاشمی جس انداز میں بھٹو حکومت سے ٹکرانے لگے تھے‘ اس کے نتیجے میں''اک بہادر آدمی‘ ہاشمی ہاشمی‘‘ کے نعرے پورے ملک میں گونجنے لگے۔ بھٹو نے ہاشمی کو حوالۂ زنداں کر دیا‘‘۔ ہاشمی کی اس جرات و بہادری اور ملک گیر مقبولیت کے اعتراف کے بعد‘ کالم نگار کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران ہاشمی پر تشدد کی افواہوں میں کوئی صداقت نہ تھی۔ موصوف کو یاد نہیں رہا کہ ہاشمی صرف ایک بار نہیں‘ متعدد بارگرفتار
ہوئے۔ اور ان پر 100سے زائد مقدمات بنے۔ بھٹو صاحب اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کسی رُو رعائت کے قائل نہ تھے۔ جیل میں میاں طفیل محمد کی داڑھی نوچنے سے لے کر‘ ملک قاسم کی ریڑھ کی ہڈی توڑے جانے تک‘ کتنے ہی سیاسی لیڈر اور کارکن تھے جو زنداں میں جس عذاب سے گزرے‘ اس کی صدائے بازگشت خود زیرِ عتاب لوگوں کی زبانی‘ اعلیٰ عدالتوں میں بھی سنائی دینے لگی تھی۔ پھر ایک جاوید ہاشمی ایسے خوش قسمت کہاں تھے کہ جیل میں حسنِ سلوک کے مستحق ٹھہرے جبکہ ملک بھر میں بھٹو کے خلاف سب سے توانا آواز ان ہی کی تھی اور حزب اختلاف کے بزرگ قائدین نے بھی اس نوجوان کو اپنی امیدوں کا مرکز و محور بنا لیا تھا۔ ایم انور بار ایٹ لاء کے گھر‘ پیر پگارا‘ میاں طفیل محمد‘ ایئر مارشل اصغر خاں‘ ملک قاسم‘ نواب زادہ نصراللہ خاں‘ ولی خاں اور مفتی محمود جیسے قائدین نے‘ سندھ میں لسانی فسادات کے خلاف جو مجلس عمل بنائی‘ اس کی کنوینر شپ ہاشمی کے سپرد ہوئی۔ بھٹو حکومت کے خلاف لاہور کے موچی گیٹ میں منعقد ہونے والے پہلے جلسے کی صدارت کا اعزاز بھی ہاشمی ہی کے حصے میں آیا۔
جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ نگار کے خیال میں عملی سیاست کے لیے‘ جماعت کی بجائے اصغر خاں کی تحریک استقلال میں شمولیت‘ ہاشمی کی سیاسی بے وفائی کا آغاز تھا۔ سوال یہ ہے کہ دورِ طالب علمی میں جمعیت سے وابستگی کے بعد‘ عملی زندگی میں جماعت اسلامی میں شمولیت‘ کیا کوئی قانونی‘ مذہبی یا اخلاقی طور پر لازمی تقاضا ہے؟ بھٹو آمریت کے خلاف دیگر جماعتوں‘ ان کی قیادت اور کارکنوں کی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ اعتراف کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ اس میں اصغر خاں(اور ان کی تحریک استقلال)کا کردار سب سے بڑھ کر تھا اور بھٹو صاحب انہیں اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے تھے۔ تب ہاشمی سمیت کتنے ہی نوجوان تھے‘ جنہوں نے زیادہ سرگرم اور زیادہ بھر پور سیاسی کردار کے لیے تحریک استقلال کا انتخاب کیا۔ یہ بھٹو صاحب کے خاص عتاب کو دعوت دینے کے مترادف تھا‘ شاعر کے الفاظ میں یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہاشمی دوستوں کی معیت میں مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا‘ ''میں جماعت اسلامی میں شامل نہیں ہو رہا‘ میرے لیے دعا فرمائیے کہ میں اسلام اور پاکستان کی خدمت کرتا رہوں‘‘۔ سیّد صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔(ہاں میں باغی ہوں)
دلچسپ بات یہ کہ اسی وضعداری کا مظاہرہ نوجوان نواز شریف نے بھی کیا تھا۔ بھٹو دور میں عملی سیاست کے لیے اصغر خاں کی تحریک استقلال ہی ان کا بھی چوائس تھی۔ ضیاء الحق کا مارشل لاء نصف سے زائد مدت مکمل کر چکا تھا‘ جب شریف فیملی کے نوجوان کو پنجاب حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی ‘بڑے میاں صاحب (مرحوم) رضا مند ہو گئے۔ پھر نواز شریف نے ایبٹ آباد کا رخ کیا‘ جہاں اصغر خاں اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ نوجوان سیاستدان نے اپنے لیڈر کو‘ اپنے نئے سیاسی فیصلے سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔ یاد آیا‘ شاہ محمود قریشی نے بھی 1993ء میں نواز شریف حکومت کے خاتمے پر نئے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے‘ ماڈل ٹائون جا کر میاں صاحب کو ''اعتماد میں لینا‘‘ ضروری خیال کیا تھا۔2011ء میں زرداری حکومت کی وزارت خارجہ سے سبکدوشی کے بعد‘ انہوں نے دوبارہ مسلم لیگ جوائن کرنے کا فیصلہ کیا‘ اس کے لیے وعدے و عید بھی ہو گئے۔ پھر تحریک انصاف ان کی نظروں میں سما گئی لیکن اس میں شمولیت سے پہلے‘ انہوں نے جاتی امرا جا کر میاں صاحب کو اپنے نئے فیصلے(اور اس کے اسباب) سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔