"RTC" (space) message & send to 7575

’’WELL DONE PRIME MINISTER ‘‘

احمد فراز نے کہا تھا ؎ 
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل 
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں 
پاکستانی قوم کو فروری کے پہلے عشرے کے بعد مسلسل صدموں نے آ لیا تھا۔13 فروری کو لاہور میں چیئرنگ کراس پر دہشت گردی، تین روز بعد سیہون شریف کا سانحہ، اگلے ہفتے ڈیفنس لاہور میں ''پُراسرار‘‘ دھماکہ جو سات، آٹھ افراد کی جان لے گیا۔ ان واقعات پر، قو م رنج و غم سے دوچار تو ہوئی کہ بقول غالب؎ 
دل ہی تو ہے، نہ سنگ و خشت 
درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
لیکن شاعر کے ناتواں دل کے برعکس قوم کا قلب و جگر بڑا توانا، بڑا مضبوط ثابت ہوا۔ علامہ نے تو ایک اور حوالے سے کہا تھا ع
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی 
لیکن اس مصرعے کا اطلاق اہلِ پاکستان کے بے مثال حوصلے اور ناقابلِ تسخیر عزم پر بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہاکی اور کرکٹ پاکستانیوں کی کمزوری رہے ہیں۔ ایک دور تھا کہ ہاکی کے سبھی بڑے اعزازات پا کستان کے پاس ہوتے تھے۔ اپنا بچپن یاد آیا، تب ٹی وی تو کجا، ریڈیو بھی کسی ایک آدھ گھر میں ہی ہوتا تھا۔ ہاکی میچ کی کمنٹری سننے کے لئے سارا محلہ وہیں جمع ہوتا۔ اہلِ خانہ اسے محلے والوں کا حق سمجھتے اور موسم کے مطابق چائے یا شربت سے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی۔ کرکٹ ''شرفاء‘‘ کے علاوہ امرا کا کھیل بھی تھا‘ لیکن اس میں 
عام آدمی کی دلچسپی بھی کم نہ تھی، جسے جنرل ضیاء الحق نے اپنی سیاسی و سفارتی حکمتِ عملی کے لئے بھی استعمال کیا۔ جنرل موصوف کو اہلِ پاکستان کی جمہوریت پسندی کا بخوبی احساس تھا۔ وہ طنزاً کہا کرتے، لوگوں کے ذہنوں میں جمہوریت کا کیڑا گھسا ہوا ہے اور اس کا علاج انہوں نے کرکٹ میں ڈھونڈا۔ ان کے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کے بقول، اُن دنوں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی پے در پے آمد اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھی کہ قوم سیاست کو بھول بھال کر کرکٹ کی ہو رہے۔ سنیل گواسکر کے زیر قیادت انڈین ٹیم پاکستان کے طویل دورے پر آئی تو ایم آر ڈی (پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد) کے بیشتر کارکن جیلوں میں تھے، بعض پر مرتضیٰ بھٹو کی الذوالفقار سے وابستگی کا الزام بھی تھا۔ جیل انتظامیہ ان کیلئے ریڈیو کا اہتمام کر دیتی (شاید یہ بھی جنرل کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو کہ اس طرح ان کی ذہنی آسودگی کا اہتمام ہوتا رہے) پاکستانی بلے باز کے چوکے یا چھکے پر یا انڈین کھلاڑی کے آئوٹ ہونے پر ان کی خوشی بھی، جنرل کے حامی کسی محبِ وطن سے کم نہ ہوتی۔ ضیاء الحق نے اسے سفارتی حکمتِ عملی کا حصہ یوں بنایا کہ 1987ء میں براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں راجیو گاندھی پاکستانی سرحد پر فوجیں لے آیا (اُس بھاری اسلحہ کے ساتھ جو مشقوں میں نہیں، باقاعدہ جنگ میں استعمال ہوتا ہے) جنرل ضیاء الحق نے جے پور میں منعقد ہونے والے پاک انڈیا میچ کے لئے ہندوستان جانے کا اعلان کر دیا۔ ''قومی حمیت‘‘ سے سرشار سیاسی لیڈر دعوت کے بغیر دُشمن ملک میں جانے کے اس اقدام کو ملی غیرت کے منافی قرار دے رہے تھے۔ راجیو گاندھی دل پر پتھر رکھ کر پاکستان کے فوجی سربراہ کے خیر مقدم کیلئے چلا آیا تھا۔ سونیا گاندھی بھی ہمراہ تھیں۔ خاتون میزبان کے احترام میں مہمان صدر نے کچھ زیادہ ہی انکسار کا مظاہرہ کیا، نورانی میاں (مرحوم) نے جس کا بطورِ خاص بہت سخت نوٹس لیا تھا۔ ڈپلومیسی میں ''ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ تو بعد میں کھلا کہ جنر ل میچ دیکھنے نہیں، پڑوسی وزیرِ اعظم کو اس کے جارحانہ عزائم پر جوابی اقدام سے آگاہ کرنے گیا تھا، ایٹمی جنگ کی دھمکی۔ جارحیت پر تُلے بھارتی وزیر اعظم نے سرحد سے فوج کی واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 
بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم پی ایس ایل (2) کے فائنل کے لاہور میں انعقاد کی بات کرنا چاہتے تھے۔ چیئرمین نجم سیٹھی نے گزشتہ پی ایس ایل کے موقع پر ہی اگلے فائنل کے لاہور میں انعقاد کا اعلان کر دیا تھا (جس طرح انہوں نے 2018ء کے پی ایس ایل (3) فائنل کا انعقاد کراچی میں کرانے کا اعلان کر دیا ہے)۔ اب پی ایس ایل 2 فائنل کے لاہور میں انعقاد پر اہل سیاست و صحافت میں سے بعض کا ردِ عمل دلچسپ تھا۔ ایک بزرگ دور کی کوڑی لائے، وہ اسے پاناما سے توجہ ہٹانے کا حربہ قرار دے رہے تھے۔ ورلڈ کپ 1992ء کا اعزاز یافتہ کپتان اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا آغاز قرار دے رہا تھا۔ 
فروری کے خود کش حملوں کو لاہور میں پی ایس ایل فائنل رکوانے کیلئے دُشمن کی حکمتِ عملی قرار دیا گیا کہ دُنیا میں پُرامن اور محفوظ پاکستان کا تاثر نہ جانے پائے۔ کرکٹ کیلئے اہلِ پاکستان کا ذوق و شوق اپنی جگہ لیکن اب تو یہ قومی غیرت اور ملّی حمیت کا مسئلہ بھی بن گیا تھا‘ جس کا موقع اہلِ پاکستان کو اللہ دے۔ اُدھر آرمی چیف کا کہنا تھا، پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد کیلئے فوج مکمل تعاون کرے گی۔ وزیرِ اعظم نے بھی لاہور میں فائنل کے انعقاد کا فیصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کر دی تھی۔ لاہور قلندر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئے تھے لیکن زندہ دلانِ لاہور کے جو ش و جذ بے میں کوئی کمی نہ آئی تھی، باقی چار ٹیمیں بھی ان کی اپنی ٹیمیں تھیں۔ پنجاب سے دور دراز کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے بھی نوجوان چلے آ رہے تھے، سندھ والوں کی دلچسپی بھی کم نہ تھی لیکن ہمارے کرکٹ لیجنڈ سیاست دان کو سیاست نے آ لیا۔ وہ اسے اب پاگل پن قرار دے رہا تھا‘ جس کیلئے اسے پاکستان کو شام اور عراق کے مماثل قرار دینے میں بھی عار نہ تھی (''اتنے حفاظتی اقدامات کے ساتھ تو شام اور عراق میں بھی میچ کا انعقاد کیا جا سکتا ہے‘‘) 
فرزندِ لال حویلی کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا۔ اس نے پانچ، پانچ سو کی دو ٹکٹیں خرید لی تھیں۔ ظاہر ہے، یہ میڈیا کی لائم لائٹ میں آنے کا اچھا موقع تھا۔ جمعے کی صبح اس نے خان سے ملاقات کرکے اسے بھی قائل کرنے کی کوشش کی کہ نواز شریف سٹیڈیم میں آ رہا ہے تو ہمیں بھی وہاں موجود ہونا چاہیے کہ سارا میلہ وہی لوٹ کر نہ لے جائے لیکن خان اپنی ہٹ پر قائم رہا، حالانکہ یُوٹرن اس کیلئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا اور ہر یُوٹرن غلط بھی نہیں ہوتا۔ اس یُوٹرن پر اس کی تحسین ہی کی جاتی۔ فرزندِ لال حویلی کے خیال میں یہ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کا نہیں، دہشت گردوں کے خلاف ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ سے باز نہ رہ سکے۔ اپنی انگریزی دانی کا رعب جمانے کیلئے کہا: There is a face behind a case بقول ان کے، یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے لاہور میں فائنل کے انعقاد پر مجبور کیا‘ لیکن گجرات والے چھوٹے چوہدری صاحب کے خیال میں یہ سول حکومت کی سازش تھی کہ اتنے سارے انتظامات کے باوجود کوئی واقعہ ہو گیا تو بدنام کوئی اور ہو گا۔ سابق ڈکٹیٹر بھی پی ایس ایل (2) کا فائنل لاہور میں کرانے کے فیصلے پر ''ویلڈن پرائم منسٹر‘‘ کہے بغیر نہ رہا‘ جبکہ اپنے ممدوح کے بارے میں اس کا کہنا تھا، اسے بنا سوچے سمجھے بیان دینے کی عادت ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں