بجا کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو Immunity حاصل ہوتی ہے اور کسی تقریر (یا الفاظ) پر معزز رکن کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی‘ لیکن معاملہ ''عزت‘‘ اور ''غیرت‘‘ کا ہو تو کیا ایوان سے نکلتے ہی ''بدتمیز‘‘ رکن کو گھونسا رسید کیا جا سکتا ہے؟ (اور اگر غیرت فوراًَ بیدار ہو جائے تو یہ کارِ خیر اُسی وقت، ایوان کے اندر ہی انجام دیا جا سکتا ہے؟ قصہء زمین، برسر زمین)۔
خان تو اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہے۔ جاوید لطیف کو مراد سعید کے مُکّے پر فرمایا: اُس نے تو بہت کم کیا، میں اس کی جگہ ہوتا تو اس سے بھی زیادہ کرتا۔ تو کیا عزت صرف خان کی ہے اور غیرت بھی پی ٹی آئی والوں کو ہی آتی ہے؟ کیا کسی اور جماعت کے لیڈر کو چور، ڈاکو، بے ایمان، لٹیرا اور مودی کا یار تک کہہ دینا گالی ہے، نہ اس پر اُس لیڈر کے کسی رفیق کے غیرت میں آنے کا کوئی جواز؟ اپنے لیڈر کے ''مصرع طرح‘‘ پر علی محمد خان نے گِرہ لگائی، پشتون گولی کھا لیتا ہے لیکن گالی نہیں کھا سکتا۔ (گویا غیرت صرف ہمارے پشتون بھائیوں کا اجارہ ہے)۔
خدا شاہد ہے، مراد سعید کے خاندان کے متعلق جاوید لطیف کے ریمارکس کو ہم نے خود اپنے لئے گالی سمجھا جس کی کوئی وضاحت، کوئی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔ اس پر جاوید لطیف کی اگر مگر کے ساتھ معذرت ہمارے خیال میں کافی نہیں۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس اور شرافت کی سیاست کی علمبردار مسلم لیگ کی قیادت کو بھی اس کا کماحقہ نوٹس لینا چاہیے... (یاد رہے کہ جاوید لطیف کو مراد سعید کا مُکّا اس سے پہلے کی کارروائی تھی)۔
لیکن پی ایس ایل (2) کا فائنل جیتنے والی پشاور زلمی کی طرف سے غیرت کی بنیاد پر، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے استقبالیے کے بائیکاٹ کا جواز تو بنتا تھا۔ پرویز خٹک ایک عملی (pragmatic) سیاست دان ہیں۔ اپنے لیڈر کی خوشنودی کا اہتمام اور اس کی دل جوئی کا خیال اپنی جگہ (جس نے لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے انعقاد کو حماقت اور پاگل پن قرار دے دیا تھا) لیکن ایک کامیاب سیاست دان کے طور پر پرویز خٹک عوام کے موڈ اور ہوا کے رخ سے لاتعلق نہیں رہتے، پی ٹی آئی اور عمران خان ان کا پہلا سیاسی عشق تو نہیں۔ وہ اس سے پہلے تین چار اور جماعتوں سے بھی آنکھ لڑا چکے تھے۔ پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی ناگزیر مصروفیت درپیش نہ ہوئی تو وہ فائنل دیکھنے لاہور ضرور جائیں گے۔ پانچ مارچ کو وہ خود تو نہ آئے؛ البتہ پشاور زلمی کی جیکٹ پہنی اور اپنے تین وزرا کو لاہور روانہ کر دیا۔ اسد عمر بھی اسے دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کے اظہار کا موقع قرار دے رہے تھے۔ چودھری سرور کا کہنا تھا کہ وہ صرف پی ایس ایل فائنل کے لئے لندن سے لاہور آئے ہیں (چودھری صاحب پی ٹی آئی میں بھولی بسری داستان بن چکے لیکن ابھی تک ترکِ تعلق کا اعلان نہیں کیا) شعیب بن عزیز یاد آئے: ؎
لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
پشاور زلمی پی ایس ایل کی چیمپین ٹھہری تو پرویز خٹک نے پشاور میں اس کے اعزاز میں شاندار استقبالیے اور دو کروڑ روپے انعام کا اعلان کر دیا۔ پی سی بی نے خان کو وی وی آئی پی پاس بھجوایا تھا۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا، وہ تشریف لائیں، ہم اُن کے لئے ریڈ کارپٹ بچھائیں گئے، میں خود اُن کی گاڑی کا دروازہ کھولوں گا۔ لیکن خان کی انا کوہ ہمالیہ سے کم تو نہ تھی۔ وہ نیچے کیوں اترتا؟
تمام تر خدشات و خطرات کے باوجود پی ایس ایل فائنل یوں منعقد ہوا (اور الحمدللہ بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا) کہ دنیا نے یہ جوش و جذبہ 1987ء میں لاہور میں ورلڈ کپ سیمی فائنل، اور 1996ء میں یہاں ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر بھی نہ دیکھا تھا۔ سیمی فائنل 1987ء میں عمران خان کی کپتانی میں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا کے ساتھ تھا۔ جنرل ضیاء الحق بھی قذافی سٹیڈیم میں موجود تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف آخری اوور میں کپتان نے بال بالر سلیم جعفر کو دے دی‘ جس میں 18 رنز آسٹریلیا کی جیت کا باعث بن گئے۔ ایک نوزائیدہ بالر سے آخری اوور‘ فیصلہ کن اوور کرانے کے باوجود جنرل ضیاء الحق سمیت ساری قوم اپنے چہتے کپتان کے صدقے واری جا رہی تھی۔ انجری کے باعث خان نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو ضیاء الحق ہی تھے جو اصرار کر کے اسے واپس لائے۔ (لاہور میں 1996ء کے فائنل میں سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دے دی تھی)۔
پی ایس ایل میں غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلو کَٹّے قرار دینے والی بات میڈیا میں آ گئی تو خان یہ کہہ کر جان چھڑا سکتا تھا کہ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو تھی۔ وہ پیمرا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی تنظیموں سے میڈیا اخلاقیات کی خلاف ورزی کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کر سکتا تھا لیکن وہ پھٹیچر اور ریلو کَٹّے کے تشریحات میں اُلجھ گیا۔ کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔
پوری قوم کی طرح پشاور زلمی اور اس کا پشتون مالک بھی پھٹیچر اور ریلو کَٹّے کے معنی و مفہوم کو خوب سمجھتے تھے۔ خان اپنے لہجے کی حقارت بھی چھپا نہ پایا تھا۔ اگرچہ پرویز خٹک اور اُن کی حکومت کا قصور نہ تھا لیکن خان اُن کا لیڈر تو تھا؛ چنانچہ اس کے کئے کی سزا انہیں بھی بھگتنا پڑی۔ پشاور زلمی نے احتجاجاً استقبالیے میں شرکت سے انکا ر کر دیا تھا۔
اُدھر ڈیرین سیمی سمیت ورلڈ کلاس کرکٹرز کو پھٹیچر اور ریلو کَٹّے قرار دینے پر خود خان کا اپنا کرکٹ ریکارڈ بھی زیر بحث آ گیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈ یا دلچسپ اور بے رحم تبصروں سے بھر گیا۔ ان میں ریحام خان کی دلچسپ ٹویٹ بھی تھی، ''سیمی تم سے بڑا سٹار ہے مسٹر پھٹیچر خان! اُس نے بطور کپتان دو ورلڈ کپ جیتے‘ اور تم نے صرف ایک اور وہ بھی بارش کی وجہ سے‘‘۔ 1992ء کے ورلڈ کپ میں خان کی کپتانی اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اس آخری فقرے میں سمٹ آئی تھی۔ کپتان ابتدائی میچ ہار رہا تھا۔ اب قسمت ہی یاوری کر سکتی تھی۔ کئی ''اگر مگر‘‘ کے بعد پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ اس میں انضمام الحق مین آف دی میچ اور فائنل کا مین آف دی میچ وسیم اکرم رہا‘ جس نے دس اوورز میں 49 رنز دے کر تین وکٹیںحاصل کیں‘ اور یوں پانسہ پلٹ دیا۔ کپتان نے 6.2 اوورز میں 43 رنز کے ساتھ ایک وکٹ حاصل کی تھی۔
عالمی کرکٹ کے غیر ملکی کپتانوں سے قطع نظر خود پاکستانی کپتانوں سے خان کا موازنہ بھی دلچسپ اعداد و شمار کا حامل ہے۔ خان نے 139 ون ڈے میچوں میں 75 جیتے، 59 ہارے (کامیابی کا تناسب 55.92 فیصد)۔ وسیم اکرم 109میچ، 66 جیتے، 41 ہارے (کامیابی کا تناسب 61.46 فیصد)۔ وقار یونس 62 میچ، 37 جیتے، 23 ہارے (کامیابی کا تناسب 61.66 فیصد)۔
نواب زادہ ایسے موقعوں پر یہ شعر پڑھا کرتے: ؎
بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا
اگر اس طرہء پُر پیچ و خم کے پیچ و خم نکلے