"RTC" (space) message & send to 7575

پاناما فیصلے کے بعد…؟

اور اب پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار ہے۔ یکم نومبر کو چیف جسٹس(اب سابق) جناب ظہیر جمالی کی زیر صدارت شروع ہونے والی عدالتی کارروائی(دو مرحلوں میں) 23فروری کو مکمل ہو گئی تھی۔(اب جناب آصف سعید کھوسہ پانچ رکنی بنچ کے سربراہ ہیں) معاملہ اتنا اہم تھا کہ فاضل عدالت نے مختصر حکم جاری کرنے کی بجائے مکمل دلائل کے ساتھ مفصل حکم جاری کرنے کا فیصلہ کیا‘ اب ایک دنیا کو جس کا انتظار ہے‘ ادھر وزیر اعظم صاحب کی روایتی شگفتہ مزاجی قائم ہے۔ کہا جاتا ہے ‘ وہ اپنے بے تکلف ملاقاتیوں کا حال احوال بعد میں پوچھتے ہیں‘ پہلے یہ سوال کرتے ہیں کہیے کیا فیصلہ آ رہا ہے؟ ادھر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار بھی گرم ہے۔ ایک کہانی یہ ہے کہ حتمی فیصلے کے لیے فاضل جج صاحبان کھلے لان میں بیٹھ کر صلاح مشورہ کرتے ہیں کہ کمرے میں‘ Bugging(آلات کے۔ ذریعے جاسوسی) کا امکان ہوتاہے(ان کہانی کاروں کو شاید علم نہیں کہ جاسوسی کی ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی) فوجی عدالتوں کے لیے نئی آئینی ترمیم کے لیے وزیر اعظم نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا تو یار لوگوں نے اس کے ڈانڈے بھی پاناما کیس کے (متوقع) فیصلے سے ملا دیئے۔ ایک اچھے بھلے دانشور نے پی ایس ایل کو بھی پاناما سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دے دیا تھا۔
اب گمان غالب یہ ہے کہ 27مارچ سے شروع ہونے والے ہفتے میں فیصلہ آ جائے گا اور اس حوالے سے بھی ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ''خبر‘‘ ہے۔ عدالتی کارروائی کے آخری دنوں میں عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ فریقین میں سے کوئی بھی پوری بات سامنے نہیں لایا‘ تو کیا پوری بات جاننے‘ حقائق تک پہنچنے کے لیے ایک با اختیار جوڈیشل کمشن کے قیام کا فیصلہ آئے گا؟۔ ایک رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم کو کلین چٹ مل جائے گی۔ لیکن یہ بات بچوں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ ایک ''بدترین امکان‘‘the worst possible scenerioیہ ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم ڈس کوالیفائی ہو جائیں‘ اگرچہ خود اعتزاز احسن کے بقول یہ کام آسان نہیں‘ وہ یہ بھی کہہ چکے کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم پر ہاتھ ہلکا رکھا۔ ادھر جناب زرداری‘ برخوردار بلاول اور خورشید شاہ صاحب کا کہنا ہے‘ عدالتوں نے پہلے کبھی شریف فیملی کے خلاف فیصلہ دیا ہے‘ جو اب اس کی توقع کی جائے؟ عمران خان کے وکیل‘ سینئر قانون دان جناب حامد خان نے ابتدا ہی میں کیس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ان کے قائم مقام نعیم بخاری مخالفانہ فیصلے کے خدشے کی بنا پر پہلے ہی کہہ چکے‘ میں تو سٹپنی وکیل ہوں اور یہ بھی کہ کیس تو موکل ہارتا ہے وکیل تو نہیں ہارتا۔
اگر وزیر اعظم کی ڈس کوالی فیکیشن والی انہونی ہو جاتی ہے تو مسلم لیگ ن کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی؟ کیا وہ فوری الیکشن کی طرف چلی جائے گی یا اگلے سال کے وسط تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی؟ ہمارا قیاس یہ ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت اس دوسرے آپشن کی طرف جائے گی تاکہ توانائی سمیت عوامی فلاح و بہبود اور قومی تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر پیش رفت اور (ان میں سے بعض کی تکمیل) کے ذریعے سیاسی و انتخابی فوائد سمیٹ سکے۔ اس صورت میں جناب نواز شریف کا قائم مقام کون ہو گا؟ یہ فیصلہ خود نواز شریف صاحب کو کرنا ہے البتہ اس میں بیگم صاحبہ‘ مریم بی بی اور اسحاق ڈار کے علاوہ چھوٹے میاں صاحب کا مشورہ بھی شامل ہو گا۔ وسیع تر مشاورت کی صورت میں خواجہ آصف‘ چودھری نثار علی خاں‘ احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
جناب وزیر اعظم کی نااہلی کی صورت میں مسلم لیگ(ن) کا کیا بنے گا؟ اس حوالے سے مخالفین کی اپنی خواہشات ہیں‘ جنہیں وہ تجزیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ پاناما کے حوالے سے میڈیا میں جو طوفان اٹھا‘ عدالتی کارروائی کے دوران کورٹ روم نمبر2کے باہر جو ''عدالتیں‘‘ لگتی رہیں‘ ایک حد تک اس کے اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن ایسا نہیں کہ نواز شریف(اور ان کی مسلم لیگ) کی مقبولیت کوئی برف کی سل تھی جو پاناما پراپیگنڈے کی دھوپ میں پگھل گئی۔
پاناما ہنگامہ گزشتہ سال اپریل سے برپا ہے۔ اس دوران آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات مسلم لیگ(ن) نے سویپ کئے۔ اس کا سخت ترین حریف عمران خان آزاد کشمیر سے ایک بھی نشست نہ جیت سکا‘ تحریک انصاف''پاکستان‘‘ سے مہاجرین کی صرف دو نشستیں حاصل کر پائی۔ اسی عرصے میں پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات بھی مسلم لیگ(ن) نے جیتے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخابات میں بھی اس نے کلین سویپ کیا۔ اسی دوران (ستمبر‘ اکتوبر میں) امریکہ کے معتبر ترین اداروں انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن کے سروے میں (پاناما پراپیگنڈے کا ہدف) نواز شریف63فیصد پسندیدگی کے ساتھ سرفہرست‘ عمران خان39فیصد کے ساتھ دوسرے اور بلاول32فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا(ناپسندیدگی کے حوالے سے اعداد و شمار بھی دلچسپ تھے85فیصد کے ساتھ لندن والے بھائی(الطاف حسین) سرفہرست رہے۔ جناب زرداری 80فیصد کے ساتھ دوسرے اور طاہر القادری79فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے۔ جناب احمد بلال کا کہنا تھا کہ پاناما کے چار ماہ بعد ان کے پلڈاٹ نے جو سروے کرایا‘ اعداد و شمار میں قدرے فرق کے ساتھ مجموعیTrendیہی تھا۔
پاناما کیس میں مخالفانہ فیصلہ مسلم لیگ(ن) کے لیے یقیناً ایک برا شگون ہو گا لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ یہ اسے ایوب خاں کی کنونشن لیگ یا مشرف کی قاف لیگ جیسے حشر سے دوچار کر دے گی۔ وہ جماعتیں جن کی جڑیں عوام کے دلوں میں ہوں‘ وہ ایسے صدمات جھیل جاتی ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ کی جڑیں عوام کے دل میں ہیں(اس کے تنظیمی معاملات اگرچہ قابل رشک نہیں) نواز شریف کی (خاندان سمیت) جلا وطنی سے زیادہ برا وقت مسلم لیگ کے لیے کیا ہو گا؟لیکن تب بھی مسلم لیگ کے بطن سے قاف لیگ نکالنے کے لیے ڈکٹیٹر کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے؟ ایجنسیوں نے ''کیرٹ اینڈ سٹک‘‘ کے کیا کیا حربے اختیار کئے تھے۔ 
عافیت کوشوں اور مصلحت پسندوں نے اپنے راستے جدا کر لیے لیکن ''عام آدمی‘‘ کی وفاداری میں کوئی فرق نہیں آیا تھا اور اس ''عام آدمی‘‘ کا معاملہ ہماری سیاسی تاریخ کا دلچسپ باب ہے۔ 1977ء میں پی این اے کی تحریک میں یوں لگتا تھا جیسے بھٹو ختم ہو گیا گلیوں‘ محلوں‘ بازاروں اور مارکیٹوں میں ہر جگہ بھٹو مخالف لہر بہت شدید تھی۔ پانچ جولائی کو ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو ملک بھر میں اس کا خیر مقدم بے پناہ تھا۔ لیکن یہی بھٹو رہائی کے بعد پہلی بار لاہور آئے تو ایئر پورٹ سے گلبرگ کے شیر پائو پل تک انسانوں کا ہجوم تھا۔ پھر بھٹو کی پھانسی پر کوئی بڑی احتجاجی تحریک نہ اٹھی۔1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک(اندرون سندھ چند شہروں کے سوا) پورے ملک میں کوئی دبائو پیدا نہ کرسکی۔ لیکن10اپریل1986ء کو ضیاء الحق کی صدارت ہی کے دنوں میں بے نظیر لندن سے لاہور پہنچیں تو بھٹو کی بیٹی کے بے مثال خیر مقدم کا نیا باب رقم ہو گیا۔
نواز شریف بھی ڈوبتے اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرتے رہے۔1993ء میں وہ 8ویں ترمیم کے اختیارات والے طاقتور صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش کے نتیجے میں محرومِ اقتدار ہوئے تو 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ آ گئے۔1999ء میں وہ دوبارہ نکال باہر کئے گئے اس بار طویل جلاوطنی بھی تھی لیکن وہ ایک بار پھر وزیر اعظم بنے‘ تیسری بار وزیر اعظم‘ تو محض عام آدمی کی تائید و حمایت کے ساتھ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں