خان اور اس کی تحریکِ انصاف کا اپنا تصورِ عدل و انصاف ہے جس کے مطابق انصاف وہ ہے‘ جو ان کی حمایت میں ہو۔ معاملہ عدالت میں ہو تو وہ جلسوں‘ جلوسوں سمیت مختلف حیلوں اور حربوں سے‘ اسے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے دعوے‘ اپنے الزام کے حق میں ان کے پاس کوئی دلیل‘ کوئی ثبوت نہ ہو تب بھی ان کی خواہش ہوتی ہے کہ فیصلہ ان ہی کے حق میں آئے... فیصلے کی من مانی تشریح بھی ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتی ہے۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے (20 اپریل کے) فیصلے کے مطابق آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت 6 ریاستی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی کی تشکیل آخری مرحلے میں ہے۔ کور کمانڈرز میٹنگ میں‘ جو معمول کے خلاف‘ ایک مہینے میں منعقد ہونے والی دوسری میٹنگ تھی‘ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ عسکری ادارے اس حوالے سے اپنا شفاف کردار ادا کریں گے۔ گویا یہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہارِ اطمینان و اعتماد تھا۔ ایک ایسی جے آئی ٹی جس کے TORs خود سپریم کورٹ نے طے کر دیے‘ ریاستی اداروں نے تین تین نمائندوں کے نام سپریم کورٹ کو ارسال کر دیے‘ اب اِن میں سے حتمی انتخاب خود سپریم کورٹ نے کرنا ہے‘ جے آئی ٹی کی نگرانی بھی کسی اور کو نہیں‘ بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کو کرنا ہے۔ جے آئی ٹی ہر پندرہ روز بعد اپنی کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرنے کی پابند ہے۔ اس ٹاسک کی تکمیل کے لیے 60 دن کی مدت بھی مقرر کر دی گئی۔
ادھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی 20 اپریل کے فیصلے کے حوالے سے خان صاحب سمیت‘ قومی سیاسی قیادت کو اس کی آئینی و قانونی ذمہ داری کی طرف متوجہ کر چکے کہ وہ اس فیصلے کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے سے باز رہے۔ لیکن خان دبائو کے حربوں پر اتر آیا ہے۔ گزشتہ شب اسلام آباد سے شروع ہونے والی جلسہ سیریز اسی مہم کا حصہ ہے۔
پاناما پر چُپ رہنے کے لیے‘ ''دس ارب کی پیشکش‘‘ پہلے سے موجود سیاسی تلاطم میں ایک نیا پتھر ہے‘ یہ پیشکش کب اور کس کے ذریعے کی گئی؟ اس حوالے سے معاملہ خاصا دلچسپ ہے (آپ چاہیں تو مضحکہ خیز بھی کہہ لیں)۔ خان نے پہلے‘ شہباز شریف کے دوست کا ذکر کیا‘ جو اس کا بھی دوست ہے۔ پھر کہا‘ یہ حمزہ کا دوست ہے‘ جس نے اس کے دوست کے ذریعے یہ پیشکش بھجوائی۔ اس ''سودے‘‘ میں اس کے لیے بھی 2 ارب روپے کی پیشکش تھی۔ خان کا کہنا تھا‘ وہ اس دوست کا نام اس لیے نہیں بتائے گا کہ اس راز کے افشا پر شریف برادران اس کا کاروبار تباہ نہ کر دیں۔ اس سے قطع نظر کہ انتقامی کارروائی میں کسی کی بربادی پر تل جانا شریف برادران کا مزاج ہے کہ نہیں‘ سوال یہ ہے کہ آزاد عدلیہ (جس کے لیے متعدد مثالوں میں سے ایک مثال‘ شریف فیملی کی تین شوگر ملوں کی جنوبی پنجاب منتقلی کے خلاف عدالت کا حکم) آزاد میڈیا (جس کے ایک حصے کے متعلق ''مادر پدر آزاد‘‘ ہونے کا تاثر بھی دیا جاتا ہے) اور فعال و مستعد و سول سوسائٹی کے اس دور میں کیا سیاسی انتقام میں کسی کو برباد کیا جا سکتا ہے؟ خود خان کے دو بڑے فنانسرز (جنہیں بعض ستم ظریف خان کی اے ٹی ایم مشینیں بھی قرار دیتے ہیں) کے علاوہ تحریک انصاف میں
شامل بعض بڑے بڑے سرمایہ دار و صنعت کار‘ شریف برادران کے اپنے شہر میں بعض بڑے تاجر‘ کیا کسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے؟ تو پھر دبئی میں مقیم اس بڑے بزنس مین کو شریف برادران سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
دس ارب کی یہ مبینہ پیشکش کب کی گئی‘ خان کے بقول‘ دو ہفتے قبل۔ گویا فیصلے کے اعلان سے کوئی ایک ہفتہ قبل‘ لیکن تب تک تو خان عدالت کے اندر اور باہر اپنا پورا زور لگا چکا تھا‘ عدالتی کارروائی مکمل ہو چکی تھی‘ اور اب فیصلہ سنانے کا مرحلہ تھا۔ اس موقع پر دس ارب روپے کی پیشکش‘ چہ معنی دارد؟ 20 اپریل کو جب فیصلہ سنایا گیا‘ خان اپنے رفقا کے ساتھ سپریم کورٹ میں موجود تھا۔ یہ موقع تھا کہ خان فاضل عدالت سے مخاطب ہوتا‘ می لارڈز! پہلے میری گزارش سن لیجیے۔ مجھے اس معاملے میں چپ رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیشکش کی گئی ہے۔ عدالت تفصیل طلب کرتی‘ تو خان ساری کہانی بلا کم و کاست بیان کر دیتا۔ آفر کرنے والے دوست کا نام بتانے سے قبل‘ وہ اس کے ضروری تحفظ کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے درخواست بھی کر سکتا تھا‘ لیکن خان اس کے بعد بھی کوئی ایک ہفتہ خاموش رہا اور اتنے بڑے راز‘ اتنے بڑے سکینڈل کے انکشاف کے لیے کسی بھرپور پریس کانفرنس کی بجائے‘ اپنی پارٹی کی ایک میٹنگ کا انتخاب کیا۔
پرائم منسٹر ہائوس میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد‘ اب خادمِ پنجاب نے بھی اس پر خان کو عدالت میں لے جانے کا اعلان کیا ہے‘ جس کا خیر مقدم کرنے کی بجائے خان دھمکیوں پر اتر آیا ہے‘ مجھے عدالت میں نہ بلانا‘ وہاں آفر کرنے والے کے ساتھ کئی اور نام بھی سامنے آ جائیں گے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلز پارٹی سمیت کچھ اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی خان سے‘ نام بتانے اور ثبوت مہیا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ایک اعتزاز احسن کے علاوہ‘ ہمارے امیرِ محترم ہیں‘ جنہوں نے اندھے اعتماد (ایمان بالغیب) کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بقول‘ خان نے یہ بات کہی ہے تو درست ہی کہی ہو گی‘ پیشکش واقعی ہوئی ہو گی۔ ساحر کے ایک مصرعے میں تصرف کے ساتھ ؎
''خان کہتا ہے‘ تو پھر ٹھیک ہی کہتا ہو گا‘‘۔
لیکن معاف کیجیے‘ حقیقت بیانی کے حوالے سے خان کا ریکارڈ چنداں قابلِ رشک نہیں۔ سیٹھی صاحب کے 35 پنکچروں سے لے کر ایم آئی کے بریگیڈیئر کی انوالومنٹ تک‘ خان کے جھوٹے دعووں اور بلا ثبوت الزامات کی خاصی طویل فہرست ہے۔ (خان کا کہنا ہے‘ آفر کرنے والے کا نام‘ عدالت میں بتائوں گا‘ لیکن خان نے ایم آئی کے اُس بریگیڈیئر کا نام بھی اسلام آباد کے دھرنے میں بتانے کا اعلان کیا تھا‘جو آج تک اعلان ہی ہے۔
امیرِ محترم نے خان کے کہے کو کافی سمجھنے‘ اور اس پر یقین کرنے کی بات کی ہے‘ لیکن ہم تو اسلامی نظام کی دعویدار جماعت کے بزرگوں سے‘ اسلامی نظام عدل کا وہ واقعہ بھی سنتے رہے ہیں کہ قاضی کی عدالت میں امیرالمومنین حضرت علیؓ کی طرف سے زرہ کی ملکیت کا دعویٰ زیر سماعت تھا۔ قاضی نے اس کے لیے ضروری ثبوت‘ ضروری شہادت طلب کی۔ امیرالمومنین نے اپنے غلام اور اپنے صاحبزادے کا نام گواہ کے طور پر پیش کیا‘ جسے قاضی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ آقا کے حق میں اس کے غلام اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی معتبر نہیں کیا۔ امیرالمومنین سے جو عشرۂ مبشرہ میں شامل تھے‘ دامادِ رسولؐ تھے‘ نعوذ باللہ کسی غلط دعوے کا گمان کیا جا سکتا تھا؟ یا آپ کے صاحبزادے سے (جسے جنت میں نوجوانوں کا سردار قرار دیا گیا) اور صاحبِ تقویٰ و طہارت غلام سے غلط گواہی کی توقع کی جا سکتی تھی؟ لیکن معاملہ اسلامی اصولِ عدل کا تھا‘ خلیفۂ وقت کو بھی جس سے استثنیٰ حاصل نہ تھا۔ لیکن ہمارے امیر محترم کا کہنا ہے کہ خان نے کہا ہے‘ تو ٹھیک ہی کہا ہو گا۔ اس کے لیے کسی ثبوت کا تقاضا کیوں؟
یاد آیا! 2014ء کی دھرنا بغاوت کے دوران امیر محترم ''جرگہ‘‘ تشکیل دے کر بحران کے پُرامن حل کے لیے سرگرم ہوئے تو خان نے کنٹینر سے انہیں مخاطب کیا‘ وکٹ کے دونوں طرف مت کھیلو‘ یہ بتائو‘ میرے ساتھ ہو یا نواز شریف کے ساتھ؟ تبدیلی کے ساتھ ہو یا سٹیٹس کو کے ساتھ؟ خان کو یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہ تھی کہ تمہارے اس رویّے نے اسلامی نظام کے لیے جماعت اسلامی کے خلوص کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔