"RTC" (space) message & send to 7575

بیجنگ سے راولپنڈی تک‘ قومی یکجہتی کا خوشگوار منظر

قدرت نواز شریف پر ہی نہیں‘ پاکستان پر بھی مہربان ہے۔ قومی اتحاد و یکجہتی کا کیا شاندار منظر ہے جو یک بیک ابھر کر سامنے آیا۔ وزیر اعظم نواز شریف ''ون بیلٹ‘ ون روڈ فورم‘‘ میں شرکت کے لیے بیجنگ روانہ ہوئے تو چاروں وزرائے اعلیٰ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اِدھر 29 اپریل کو ''ٹویٹ‘‘ سے پیدا ہونے والی بدمزگی یوں ختم ہوئی کہ 10 مئی کو حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر تھے۔ وہ جو اردو کا محاورہ ہے‘ باہم شیر و شکر...
فوجی قیادت نے آئین کے احترام کی قابل رشک مثال قائم کی تھی۔ بیجنگ میں 27 ممالک کے سربراہوں کے درمیان‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم اب اپنے پورے قد کے ساتھ موجود ہے‘ جس سے مملکت خداداد کے وقار اور 18 کروڑ پاکستانیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔
فروری 2008ء کے انتخابات سے شروع ہونے والا جمہوری عمل مئی 2013ء کے انتخابات کے ساتھ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔ تیسری بار منتخب ہونے والا وزیر اعظم‘ وفاق اور صوبوں میں خوشگوار تعلقات کی نئی مثال قائم کرنا چاہتا تھا۔ پنجاب میں اس کی اپنی جماعت‘ دو تہائی اکثریت کے ساتھ موجود تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف سنگل لارجسٹ پارٹی تھی جسے حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کا تعاون درکار تھا۔ سیاسی منصوبہ سازی میں مولانا فضل الرحمن خاص مہارت کے حامل ہیں۔ انہوں نے کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کا راستہ روکنے کیلئے ہوم ورک مکمل کر لیا تھا‘ لیکن یہ بات خود وزیر اعظم کو پسند نہ تھی۔ ان کے خیال میں صوبے میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے حکومت سازی کا پہلا حق تحریک انصاف کا تھا
اور یوں انہوں نے یہاں عمران خان کی حکومت بننے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ ادھر بلوچستان کی اپنی حساسیت تھی۔ یہاں بلوچ قوم پرستوں کے ''احساس محرومی‘‘ کے ازالے کے لیے وزیر اعظم نے ڈرائیونگ سیٹ بی این پی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا‘ حالانکہ ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ نون یہاں سب سے بڑی جماعت تھی۔ اسمبلی میں دوسری پوزیشن پختون قوم پرست محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی تھی۔ اسے صوبے میں اہم وزارتوں کے ساتھ گورنرشپ بھی دے دی گئی۔ اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کی جونیئر پارٹنر تھی۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا جسے وزیر اعظم کے سیاسی رفقا نے قبول کر لیا۔ (معاہدے کے مطابق پانچ سالہ ٹرم کے دوسرے نصف میں‘ اب وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ نون کے پاس ہے)
آزاد کشمیر میں تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ مخالفین اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے‘ جس پر مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی کے دستخط بھی تھے لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد کا راستہ روک دیا۔ وہ چاہتے تھے‘ آزاد کشمیر کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے۔ اکھاڑ پچھاڑ کی دیرینہ روایت کا اعادہ انہیں گوارا نہ تھا۔
11 مئی کے عام انتخابات سے تین روز قبل عمران خاں زخمی ہو گئے تو نواز شریف نے اگلے روز ملک بھر میں اپنی انتخابی مہم معطل کر دی۔ شہباز شریف اسی شام عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے لیکن انہیں ملاقات سے منع کر دیا گیا۔ وہ خان کے کمرے کے باہر دیر تک ان کے لواحقین کے درمیان موجود رہے۔ الیکشن ختم ہوئے تو نواز شریف نے پہلی فرصت میں ہسپتال کا رُخ کیا۔ وہ دیر تک خان کے پاس رہے۔ اس کی دل جوئی کے لیے ماضی کی خوشگوار یادوں کو تازہ کرتے رہے‘ جب ان میں گہری دوستی ہوتی تھی۔ خان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے ان کا کہنا تھا‘ جلدی سے ٹھیک ہو جائو‘ پھر ہم فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اپوزیشن کا رول ادا کر رہی تھی۔ وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں اس نے میاں صاحب کے مقابل جاوید ہاشمی کو امیدوار بنایا‘ ظاہر ہے یہ ایک رسمی کارروائی تھی۔ ہاشمی نے نومنتخب وزیر اعظم کو کھلے دل سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا‘ آپ کل بھی میرے لیڈر تھے اور آج بھی (اس ایوان میں) میرے لیڈر ہیں۔
عمران خان کی طرف سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے کے باوجود‘ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف میں سیاسی ورکنگ ریلیشن شپ خوشگوار تھی اور 12 مارچ 2014ء کی وہ شام تو بہت ہی خوشگوار جب وزیر اعظم نواز شریف‘ عمران خان کی دعوت پر بنی گالہ پہنچے۔ خان پٹھانوں کی روایتی وضعداری کے ساتھ‘ معزز مہمان کا استقبال کر رہا تھا‘ عجز و انکسار کا مجسمہ بنے خان کی وہ تصویر ہمیں آج بھی یاد ہے۔ مہمان خانے میں تحریک انصاف کی پوری ''کابینہ‘‘ موجود تھی۔ اس پُرتکلف عصرانے میں ماحول بہت بے تکلفانہ تھا۔ میاں صاحب اپنے ملازمین کو بھی صیغۂ واحد کے ساتھ مخاطب نہیں کرتے‘ لیکن یہاں خان کے ساتھ ایسا کوئی تکلف نہ تھا۔ وہ پشاوری چپل پہنے ہوئے تھا۔ میاں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ تحفہ طالبان نے بھجوایا‘ بنی گالہ کی پہاڑی پر واقع خان کے اس فارم ہائوس کی طرف آنے والی سڑک کی خستہ حالی کی بات بھی ہوئی۔ میاں صاحب نے اپنے سیکرٹری سے یہ مسئلہ نوٹ کرنے کے لیے کہا۔
جمہوری عمل ہموار طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا۔ وفاق اور خیبر پختونخوا کے تعلقات بھی خوشگوار تھے۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی ملاقاتیں خوشگوار ماحول میں اختتام کو پہنچیں۔ وزیر اعظم چاروں صوبوں کی حکومتوں کو اپنی حکومتیں قرار دیتے... پھر منظر کیوں بدل گیا؟ فضا دھواں دھار کیوں ہو گئی؟ نوبت دھرنا بغاوت تک کیوں پہنچی؟ یہ ایک الگ کہانی ہے جس کے پس پردہ کردار‘ اب پس پردہ بھی نہیں رہے۔
کوئی انہونی نہ ہو گئی تو موجودہ حکومتوں نے آئندہ سال جون کے اوائل تک اپنی مدت پوری کرنی ہے‘ لیکن یوں لگتا ہے کہ انتخابی مہم ابھی سے شروع ہو گئی ہے۔ انتخابی مہم کا اپنا رنگ ڈھنگ‘ اپنا لب و لہجہ ہوتا ہے۔ ڈان لیکس کا ہنگامہ انجام کو پہنچا۔ اب پاناما جے آئی ٹی ہے‘ عمران خان اور زرداری جسے اپنے اپنے انداز میں اچھالتے رہیں گے۔ پاناما لیکس کے 20 اپریل کے فیصلے کے بعد‘ سندھ اور کے پی کے میں حکمران جماعتوں نے (اپنی اپنی پارٹی پالیسی کے تحت) صوبائی اسمبلیوں میں وزیر اعظم کے استعفے کی قراردادیں منظور کیں لیکن اب بیجنگ میں‘ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی‘ وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں۔ پاک فوج نے وزیر اعظم کی آئینی اتھارٹی کو تسلیم اور ملک میں سیاسی و جمہوری نظام سے وابستگی کا اعلان کیا تو کیا بُرا کیا؟ اس سے تو ملک کے اندر اور باہر اس کے وقار میں اضافہ ہوا۔
پاکستان اپنی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہے۔ گوادر کی بندرگاہ‘ سی پیک‘ توانائی کے تیزی سے مکمل ہوتے ہوئے منصوبے‘ معیشت کی نئی زندگی کے اشاریے‘ دہشت گردی کی جنگ کا آخری مرحلہ (مستونگ میں گزشتہ روز کا دھماکہ) قومی تعمیر و ترقی اور امن و سلامتی کا یہ سفر اپنی تکمیل کے لیے تقاضا کرتا ہے کہ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اور بڑی احتیاط سے اٹھایا جائے۔ امیدوں اور آرزوئوں کی فصل پکنے کا آخری مرحلہ ہے۔ اس موقع پر ہم کسی آندھی‘ کسی طوفان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
دس مئی کے یکجہتی و ہم آہنگی کے مظاہرے پر‘ پاک فوج کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اُٹھانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ جہاں بھی ہیں‘ ان کا منہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ نے گزشتہ دنوں عدالتی فیصلوں کی من مانی تشریحات کرنے والوں کو شٹ اپ کال دی‘ وقت آ گیا ہے کہ آئی ایس پی آر بھی پاک فوج کے ''خود ساختہ ترجمانوں‘‘ کو شٹ اپ کال دے۔ پیمرا بھی اپنے دانت دکھائے اور سائبر کرائم ایکٹ والے بھی متحرک ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں