پروپیگنڈے کا غبار چھٹا تو حقائق کا اُجلا چہرہ ابھرنے لگا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی مذمت اور ملامت کے لئے کوئی موقع ڈھونڈنے، کوئی بہانہ تراشنے والے ''مہربانوں‘‘ کو اچانک ان کی عزت کی فکر لاحق ہو گئی تھی۔ ریاض کی امریکہ عرب اسلامی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ''سرد مہری‘‘ کے سلوک کو وہ عالم اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور کے بیس کروڑ عوام کی توہین قرار دے رہے تھے۔ ''غضب خدا کا وزیر اعظم پاکستان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور میزبان بادشاہ سلامت کے ساتھ کرسی دینے کی بجائے دور بٹھایا گیا اور مزید ستم یہ کہ انہیں تقریر بھی نہ کرنے دی گئی‘‘۔
اس تاریخی سفر میں وزیر اعظم کے ہم رکاب مدیران میں شامی صاحب بھی تھے۔ انہوں نے وضاحت کر دی۔ ایسی کانفرنسوں میں نشستوں کی ترتیب شریک ممالک کی عسکری یا اقتصادی طاقت کے لحاظ سے نہیں، ان ملکوں کے ناموں کے حروف تہجی (ALPHABET) کے حساب سے ہوتی ہے۔ تقاریر کے لئے ترتیب میں بھی اسی ''اصول‘‘ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ گویا یہاں معاملہ اپنے ہاں کے مشاعروں یا عام کانفرنسوں والا نہیں ہوتا کہ ''حفظ مراتب‘‘، یعنی سنیارٹی کو مدنظر رکھا جائے۔ جہاں مائک پر سینئرز کو بعد میں اور جونیئرز کو پہلے بلایا جاتا ہے۔ ایک مشاعرے میں ایک بزرگ شاعر پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک نوجوان شاعر بھی تشریف لے آئے۔ کسی باعث انہیں یہاں پہنچنے میں تاخیر ہو گئی تھی۔ اب ناظم تقریب سینئر شاعر کے بعد جونیئر کو مائک دینے میں متامل تھے تو دور بیٹھے نوجوان شاعر کو بھی اس میں تردّد تھا‘ لیکن بزرگ شاعر نے ''حفظ مراتب‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے وسیع الظرفی سے کام لیا۔ استاد شاعر کو نوآموز اور نوجوان شاعر کی حوصلہ افزائی بھی مقصود تھی۔ فرمایا ''میاں اگر تم ہمارے بعد پیدا ہو سکتے ہو تو ہمارے بعد پڑھ بھی سکتے ہو‘‘۔
ریاض کی اس عالمی کانفرنس میں‘ جہاں 50 سے زائد ملکوں کی نمائندگی تھی اور ان میں 30 سے زائد سربراہان حکومت/ ریاست تھے، نشستوں کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے تھی، تو اس لحاظ سے وزیر اعظم پاکستان کی نشست وہیں تھی جہاں پاکستان کے ''P‘‘ کے حساب سے ہونی چاہیے تھی۔ باقی رہی تقریر کی بات تو وزیر اعظم جہاز میں سفر کے دوران بھی، اپنے رفقا کی مشاورت سے اس کی نوک پلک سنوارتے رہے۔ مشیر امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز کے علاوہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ ایسی کانفرنسوں کے لئے تقریر نہایت احتیاط سے لکھی جاتی ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کی اپنی اہمیت اور نزاکت ہوتی ہے۔ یہی احتیاط یہاں بھی درپیش تھی۔ پھر مسئلہ یہ آن پڑا کہ کانفرنس کی کارروائی کے باقاعدہ آغاز میں تاخیر کے باعث تقاریر کے لیے وقت بہت کم رہ گیا تھا؛ چنانچہ کچھ اور تقاریب کی طرح وزیر اعظم پاکستان کی تقریر بھی وقت کی کمی کی زد میں آ گئی۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ اہم کانفرنس البتہ پاکستان کے لئے ایک بڑی آزمائش چھوڑ گئی ہے۔ پاکستان‘ سعودی Initiative سے معرض وجود میں آنے والے چالیس سے زائد اسلامی ملکوں کے ملٹری الائنس کا اہم حصہ ہے۔ (ہمارے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس کے سربراہ ہیں۔ ریاض کانفرنس میں سرتاج عزیز صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اور سرتاج صاحب کے بقول جنرل صاحب اس جاب سے بہت خوش اور مطمئن ہیں۔) آئندہ چند دنوں میں اس ملٹری الائنس کے باقاعدہ خدوخال بھی وضع کر لئے جائیں گے۔ کہا یہ گیا تھا کہ یہ الائنس (اور ریاض کانفرنس بھی) کسی ملک کے نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ لیکن کانفرنس کے آغاز ہی میں ایک مختلف منظر درپیش تھا۔ امریکی صدر ایران کو تنہا کرنے کی بات کر رہے تھے تو میزبان بادشاہ سلامت اسے دہشت گردی کا مرکز و محور قرار دے رہے تھے۔ اب پاکستان کو پل صراط کا سفر درپیش ہے۔ انگریزی میں Tight Rope Walk کہہ لیں، تنے ہوئے رسے پر چلنا..... جہاں بڑی احتیاط اور مہارت کی ضرورت ہو گی۔
عالمی عدالتِ انصاف میں کلبھوشن والے معاملے کی بات قدرے پرانی ہو گئی۔ اس پر بھی پروپیگنڈے کا ایسا ہی طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن غبار جلد ہی چھٹ گیا۔ تب بھی ایسی ہی ہاہا کار مچی تھی جیسے دشمن نے کوئی عظیم الشان فتح حاصل کر لی ہو۔
ہمارے ایک دو دانشوروں نے تو اسے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے لئے ایک اور تاریخی المیہ قرار دے دیا تھا۔ بات اتنی سی تھی کہ بھارت نے اپنے شہری کے لئے قونصل رسائی کی درخواست کے ساتھ عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ پاکستان نے اس حوالے سے عدالت کے اختیار سماعت کو چیلنج کر دیا۔ قونصل رسائی کے لئے بھارت کی درخواست اور عدالت کے اختیارِ سماعت کے پاکستان کے موقف پر فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ تب تک کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد کے خلاف سٹے آرڈر دے دیا گیا ہے (جو ایک معمولی بات تھی) اُدھر یہ فیصلہ آیا، اِدھر میڈیا پر سیاپا شروع ہو گیا۔ پہلا اور فوری ردعمل دو ریٹائرڈ عسکری دانشوروں کا تھا۔ فرمایا! ہماری حکومت ہی بد دیانت تھی جس نے اتنے اہم کیس کے لئے ایک جونیئر وکیل کو بھیج دیا۔ اسی روز جی ایچ کیو میں ایک سیمینار بھی تھا اور فیصلہ آنے سے پہلے آرمی چیف ''غیر رسمی‘‘ گفتگو میں فرما چکے تھے کہ کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت کے لئے وکیل بھی ہم نے دیا۔ (گویا اس معاملے میں بھی سول اور ملٹری ایک ہی صفحے پر تھے) جناب خاور قریشی کا شمار بین الاقوامی قوانین کے ممتاز اور معروف ماہرین میں ہوتا ہے۔ اس کیس کے سلسلے میں عسکری قیادت کی دعوت پر وہ 12 مئی کو پاکستان آئے اور اگلی شب آرمی چیف کے ساتھ ڈنر بھی کیا۔ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ آنے سے قبل آرمی چیف کی گفتگو، سول کے لئے ریسکیو کا کام دے گئی تھی۔