لمحے بھر کو 1997 ء کے عدالتی بحران کی طرف چلتے ہیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے اصرار پر حکومت نے سپریم کورٹ کی خالی نشستوں کے لیے پانچوں جج دیدیئے تھے۔ بظاہر حکومت اور عالی مرتبت چیف جسٹس کے مابین اب کوئی IRRETENT نہیں رہا تھا لیکن فاروق لغاری کے ایوان صدر کی ملی بھگت کے ساتھ تیار کئے گئے سازشی منصوبے کو ترک کرنے پر جناب چیف جسٹس آمادہ نہ تھے۔ ان کی زیر صدارت سہ رکنی بنچ نے فلور کراسنگ سے متعلق چودھویں آئینی ترمیم کو معطل کر دیا، جسے پارلیمنٹ نے قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کی تائید و حمایت کے ساتھ سو فیصد اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا تھا۔ (اس سے پہلے یہی پارلیمنٹ ، حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے صدارتی اختیار(58/2B)کے خاتمے والی تیرھویں آئینی ترمیم بھی اتفاق رائے سے منظور کر چکی تھی۔) 14ویں آئینی ترمیم کی معطلی کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ان کی پارلیمانی پارٹی میں بغاوت تھا، یہ الگ بات کہ اس کے باوجود مسلم لیگی ارکان اسمبلی اپنے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے رہے۔ حلیف سیاسی جماعتوں بھرپور حمایت بھی وزیر اعظم کو حاصل رہی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ کے فیصلے کو ''لوٹا ازم‘‘ کی بحالی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا، آئینی ترمیم کے خلاف سماعت کرنا تھی تو اس کے لیے فل کورٹ ہو نا چاہیے تھا۔ (وزیر قانون خالد انور کا تبصرہ تھا کہ دولت مشترکہ کے ممالک کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ آئین کی کسی شق کو اس طرح معطل کیا گیا ہو۔ چیف جسٹس نے 20 مارچ 96 کے فیصلے (ججز کیس) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ساتھ دو ایڈہا ک جج بنائے اور پھر انہیں کنفرم کر دیا۔) وزیر اعظم کے ان ریمارکس پر چیف جسٹس نے تو ہین عدالت کا نوٹس دیتے ہوئے انہیں 17 نومبر کو طلب کر لیا، جس پر وزیر اعظم کا کہنا تھا، اسلامی روایات پر عمل کرتے ہوئے میں عدالت پیش ہو جائوں گا، جبکہ مشاہد حسین کا کہنا تھا وزیراعظم عدالت میں خود پیش ہو کر خلفائے راشدین کی روایات کو آگے بڑھائیں گے۔
17 نومبر کو وزیراعظم ، جناب چیف جسٹس کے روبرو حاضر تھے۔ ادھر چیف صاحب کا رویہ دلچسپ تھا۔ انہوں نے دیر تک انتظار کرایا، وقفے کے بعد وزیراعظم دوبارہ حاضر تھے ۔ ان کا کہنا تھا، میں عدلیہ کا بے حد احترام کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ میں نے عدلیہ اورجج صاحبان کی توہین کا تصور تک نہیں کیا۔ عدالتوں کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں آپ کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوا ہوں۔ لیکن وزیر اعظم کی یہ وضاحت جناب چیف جسٹس کے لیے قابل قبول نہ بھی۔ وزیراعظم کی اگلی پیشی کے لیے انہوں نے 19 نومبر کی تاریخ دیدی۔ پروفیسر غفور احمد (مرحوم) نے اپنی کتاب ''نواز شریف، اقتدار سے عتاب تک‘‘ میں لکھا، ''نواز شریف سپریم کورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے پیروی کر سکتے تھے لیکن عدالت میں پیش ہو کر انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، اور اسکے ساتھ انہوں نے اپنی بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ بھی کر دیا۔ چیف جسٹس صاحب کی ہٹ دھرمی کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے لکھا، پانچ ججوں کی تقرری کے بعد بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ غالباً وہ صدر لغاری اور آرمی چیف کی حمایت پر کچھ زیادہ ہی انحصار کر رہے ہیں۔ پانچ ججوں کی سینیارٹی کے تعین، قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں حکومتی سفارش کو نظر انداز کرنا اور چند ججوں کے ساتھ بنچ بنا کر اہم مقدمات کی سماعت کرکے وہ اپنی آئینی اور اخلاقی پوزیشن کو متاثر کر رہے ہیں جبکہ بطور چیف جسٹس ان کے تقرر کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی خاصی تعداد ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہے۔ اس کے باوجود اپنی سابقہ روش پر قائم رہ کر وہ اپنے اور عدلیہ کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔‘‘
2 دسمبر کو تیرھویں ترمیم کی معطلی منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش کی آخری کڑی تھی۔ وزیراعظم کی برطرفی اور اسمبلی کی تحلیل کا صدارتی اختیار جناب ''چیف جسٹس‘‘ (جنہیں خود سپریم کورٹ کے دو تہائی ججوںنے چیف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا) نے بحال کر دیا۔ ادھر ساتھ والے کورٹ روم میں قائم مقام چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں لارجر بنچ موجود تھا جس نے تیرھویں ترمیم کی معطلی کایہ حکم منسوخ کردیا۔ سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری کے لیے اس کھیل کو جاری رکھنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ شاہ صاحب نے سپریم کورٹ کو الوداع کہا۔ شام کو لغاری صاحب بھی مستعفی ہو گئے ۔ ان سے پوچھا گیا ،سجاد علی شاہ کی طرف سے 13ویں ترمیم کی معطلی اور سعید الزماں صدیقی کی زیر صدارت ''لارجر بنچ‘‘ کی طرف سے اس فیصلے کی منسوخی کے درمیانی عرصے میں آپکو جو موموقع ملا، اس میں آپ نے وزیر اعظم کی برطرفی اور اسمبلی کی تحلیل کا حکم کیوں جاری نہ کیا؟ لغاری صاحب کا جواب تھا، مجھے بریگیڈ ٹرپل ون (111)کا تعاون حاصل نہ تھا،(آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے منتخب حکومت کے خلاف سازش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔)
اب جمعرات 15 جون کو وزیر اعظم نواز شریف کو پھر پیش ہونا ہے۔ اس بار یہ حاضری سپریم کورٹ کے سامنے نہیں اسکی قائم کردہ جے آئی ٹی کے روبرو ہے۔ تاریخ ایک نیا موڑ مڑ رہی ہے۔ صبح وشام پاکستان کی جمہوریت کو بے ننگ ونام ہونے کا طعنہ دینے والے دانشوران کرام توجہ فرمائیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادگان جے آئی ٹی کے سامنے پانچ، پانچ، چھ، چھ گھنٹوں کی پیشیاں بھگت چکے اور اب دو تہائی اکثریت کا حامل وزیر اعظم خود پیش ہونے جارہا ہے، اس جے آئی ٹی کے سامنے، بدقسمتی سے جس کی کریڈیبلیٹی کے سامنے کئی سوالیہ نشان لگ چکے اورجسے خود بھی شاید اسکی کچھ زیادہ پروا نہیں۔
وزیراعظم تو طلبی پر لبیک کہنے جا رہا ہے لیکن اسی اسلام آباد میں ایک اور عدالت بھی ہے 2014 کی دھرنا بغاوت کے دوران ایک اعلیٰ پولیس افسر کو تشدد کا نشانہ بنانے اور زیر حراست کارکنوں کو زبر دستی چھڑا لانے کا مقدمہ جہاں زیر سماعت ہے۔ بار بار سمن جاری کئے گئے، عدم تعمیل پر ملزم کو اشتہاری قرار دیدیا گیا، لیکن یہ عجب اشتہاری ہے کہ صبح وشام ٹی وی کیمروں کا سامنا کرتا ہے ، اپنی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کرتا ہے، آزادانہ گھومتا پھرتا ہے ، لیکن اشتہاری ہے۔ ایک اور اشہاری گزشتہ روز کینیڈا سے لاہور پہنچا ہے اور آتے ہی فرمایا، یہ جے آئی ٹی وغیرہ سب ڈرامہ ہے، یہ نواز شریف کا الیکشن سیل ہے، اور یہ جو کچھ رہا ہے نواز شریف کی2018ء کی الیکشن کمپین کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کے بارے میں ان ریمارکس پر کسی کی توہین نہیں ہوئی۔
پاناما کیس میں لندن کے مے فئیر فلیٹس کا ذکر تھا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیر قیادت سپریم کورٹ کے پنچ نے انہی فلیٹس کے حوالے سے تحقیقات کا آغازکیا۔ اب نوبت1969-70 کے اثاثوں اور مرحومین میاں محمد شریف اور عباس شریف کے ٹیکس گو شواروں تک پہنچ گئی ہے۔
اک شہباز شریف اور ان کی فیملی بچی ہوئی تھی۔
اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا
اسکو بھی تو نے ظالم چرکا لگاکے چھوڑا
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جے آئی ٹی نے تفتیش کادائرہ شہباز شریف فیملی اور دورپار کے رشتے داروں تک پھیلا دیا ہے۔
کہتے ہیں،انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے
مجھے تو نظر آرہا ہے ، آپ کو نظر نہیں آ رہا
تو کسی اچھے آئی سپیشلسٹ سے رجوع فرمائیں۔