"RTC" (space) message & send to 7575

فیصلہ اور ٹویٹ

شاعر نے کہا تھا ؎
اپنے دونوں ہاتھ نکلے کام کے
دل کو تھاما‘ ان کا دامن تھام کے
اور ہم جمعہ کی دوپہر دل کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے تھے۔ جمعرات کی سہ پہر سپریم کورٹ کا نیا روسٹر آیا تو یہ خیال بے جا نہ تھا کہ پاناما کیس کے فیصلے کا اعلان گیارہ اگست کے بعد پر جا پڑا ہے۔ پھر ضمنی روسٹر آ گیا‘ جس میں اس فیصلے کے لئے اگلے روز ساڑھے گیارہ بجے کا وقت دے دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ کہا گیا تھا کہ فیصلہ پانچ رکنی بینچ سنائے گا‘ جس میں جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جناب جسٹس گلزار بھی شریک ہوں گے‘ جو 20 اپریل کو بینچ سے الگ ہو گئے تھے اور بعد کی کارروائی تین رکنی بینچ نے پوری کی تھی۔ 
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ہونے والی عدالتی کارروائی کی تفصیلات سے بعض خوش گمانوں کو امید تھی کہ میاں صاحب نااہلی سے بچ نکلے۔ 21 جولائی کو سماعت مکمل ہوئی (اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا) اس سے ایک روز قبل کے اخبارات نے فاضل بینچ کے ریمارکس کو ''لیڈ‘‘ اور ''سپر لیڈ‘‘ بنایا تھا۔
٭... جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر عہدے کے غلط استعمال اور کرپشن کا الزام نہیں‘ ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم کسی پراپرٹی کے مالک ہیں (دنیا)
٭... جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر کرپشن‘ عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں‘ سپریم کورٹ (ایک مقامی اخبار)
٭... جے آئی ٹی رپورٹ‘ وزیر اعظم پر کرپشن‘ عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں‘ سپریم کورٹ (ایک مقامی اخبار)
٭...ایک انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن تھی 
"No Corruption, misuse of authority Charge on Pm :Sc"
اور 28 جولائی کے فیصلے میں وزیر اعظم کی نااہلی کیلئے کرپشن‘ سرکاری عہدے کے ناجائز استعمال‘ ٹیکس چوری‘ اور منی لانڈرنگ جیسا کوئی الزام نہ تھا۔ انہیں یہ سزا گیارہ مئی 2013ء کے الیکشن کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے کے الزام میں دی گئی اور یہ ''اثاثہ‘‘ ان کے صاحبزادے کی کمپنی زیڈ ایف ای سے دس ہزار درہم ماہانہ تنخواہ تھی جو اگرچہ انہوں نے کبھی وصول نہ کی‘ لیکن یہ ''قابل وصول‘‘ (Receivable) تو تھی۔ میں اس وقت سے اس ڈکشنری کی تلاش میں ہوں جس کا حوالہ لایا گیا‘ جس میں اس طرح کی ''قابل وصول‘‘ تنخواہ کو بھی ''اثاثہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ قانون دانوں اور انکم ٹیکس ماہرین نے اس پر بحث کا نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ ادھر بعض ستم ظریف احباب کو نیا موضوع ہاتھ آ گیا۔ پاکستان کی تمام شادی شدہ خواتین کو جناب عطاء الحق قاسمی کا حفظِ ماتقدم کے طور پر یہ برادرانہ مشورہ تھا (اس عمر میں برادر بزرگ‘ بزرگانہ‘‘ مشورہ ہی دے سکتے ہیں) کہ نکاح کے وقت انہوں نے جو حق مہر لکھوایا تھا‘ آئندہ اپنے انکم ٹیکس گوشوارے Fill کرتے ہوئے وہ یہ رقم رکھنا نہ بھولیں (جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی تھی)
ادھر یونیورسٹی لا کالج کے ہمارے ہمدم دیرینہ سلیم طاہر کی رگ شاعری پھڑکی (طالب علمی کے دور میں ''آنکھ نیلم کی‘ بدن کانچ کا‘ دل پتھر کا...اپنے فن کار کو کون اتنی صفائی دے گا؟‘‘ جیسے شعر سے اساتذہ کو چونکا دینے سلیم طاہر کی خوبصورت شاعری‘ پی ٹی وی کی پروڈیوسر تلے دب کر رہ گئی)
انہوں نے فرمایا ؎
مرے نااہل ہونے کا فقط اتنا خلاصہ ہے
کبھی جو تھا نہیں میرا‘ وہی میرا اثاثہ ہے
ایک صاحب یہ دور کی کوڑی لائے‘ کسی ایسے اثاثے کا اخفا تو بددیانتی اور بدنیتی پر مبنی قرار پا سکتا ہے جس کا افشا کسی نقصان کا باعث بن سکتا ہو لیکن کسی ایسے اخفا کا افشا جو کسی خطرے یا کسی نقصان کا باعث نہ ہو‘ بددیانتی یا بدنیتی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے‘ اسے آپ زیادہ سے زیادہ بھولپن‘ حماقت یا غفلت ہی قرار دے سکتے ہیں۔کچھ حضرات آرٹیکل (F)(1)62 کی تشریح‘ عمر بھر کی نااہلی‘ کر رہے ہیں۔ نااہلی کی کوئی مدت متعین نہ کرنے والے اس آرٹیکل کا معاملہ عبدالغفور لہڑی کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ میں پہلے سے موجود ہے... یہ امید بے جا نہ ہو گی کہ‘ اب جبکہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ اور تیسری بار وزیر اعظم بننے والے مقبول ترین لیڈر کا معاملہ درپیش ہے‘ یہ پانچ رکنی بنچ فعال ہو گا اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت ہو گی۔
ایک انگریزی روزنامے نے تو اپنے اداریے میں جناب چیف جسٹس کو‘ وزیراعظم کا یہ معاملہ ''فل کورٹ‘‘ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ہے۔ ہمارے خیال میں تو آئندہ الیکشن مہم میں قومی تعمیر و ترقی کے حوالے سے نواز شریف حکومت کی کارکردگی کے ساتھ 20 جولائی کا فیصلہ بھی ایک بڑا سیاسی اثاثہ ثابت ہو گا۔
28 جولائی کے فیصلے پر جمائما گولڈ سمتھ اپنی خوشی چھپا نہ پائیں‘ ان کا ٹویٹ تھا "Gone Nawaz gone" اتوار کی شب اسلام آباد میں یوم تشکر کے جلسے میں عمران خان بھی اپنا ''ذاتی دکھ‘‘ کا اظہار کئے بغیر نہ رہا۔ اس کا کہنا تھا‘ 21 سال کی لڑکی اپنا مذہب چھوڑ کر‘ اسلام قبول کر کے‘ میری بیوی بن کر پاکستان آئی تو اس کے خلاف یہودی ایجنٹ ہونے کی مہم چلائی گئی۔ وہ Pragnent تھی کہ اس پر ٹائلوں کی سمگلنگ کا مقدمہ بنا دیا گیا جس میں اسے جیل بھیجا جا سکتا تھا۔ اس پر وہ ملک چھوڑ کر چلی گئی اور میرے بچے جو میری اصل دولت تھے‘ وہ بھی ساتھ چلے گئے۔ 
خان کا یہ ذاتی دکھ اپنی جگہ‘ لیکن معاف کیجئے‘ اس نے ادھوری کہانی بیان کی۔ جون 1995ء میں 21 سالہ جمائما 43 سالہ ہیرو کے ساتھ پاکستان آئی تو یہاں اس کا خیرمقدم بے پناہ تھا۔ ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ (کسی مخصوص مذہبی حلقے کے سوا) کسی نے اس کے خلاف یہودی ایجنٹ ہونے کی مہم چلائی ہو۔
خان نے 1996ء میں تحریک انصاف بنائی اور 1997ء کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو عالمی میڈیا کے لئے بھی یہ بڑی خبر تھی۔ تب جمائما کو نہیں‘ کسی اور کو بطور خاص امریکی اخبارات نے موضوع بنایا۔ جسے پاکستانی میڈیا بھی Carry کرتا رہا۔ 1997ء کے انتخابات میں خان لاہور کے دو حلقوں سمیت ملک بھر میں کوئی درجن بھر حلقوں سے خود امیدوار تھا اور ہر جگہ اس کی اور اس کے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ اب وہ مسلم لیگ کے لئے کسی خوف کا باعث نہ تھا۔ دسمبر 1998ء میں جمائما اپنی والدہ کے لئے 397 ٹائلیں لندن بھیج رہی تھیں کہ ایئرپورٹ پر کسٹم حکام نے ان ٹائلوں کو پکڑ لیا۔ پاکستانی قوانین سے لاعلم جمائما کو یہ علم نہیں ہو گا کہ آثار قدیمہ میں شمار ہونے والی ان ٹائلوں کی برآمد غیر قانونی ہے۔ لیکن خان کی یہ بات حقیقت نہیں کہ اس مقدمے کے باعث جمائما بچوں سمیت اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ جمائما اس کے بعد بھی پاکستان میں رہیں۔ البتہ 2002ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد (جس میں ملک بھر سے تحریک انصاف کی صرف ایک سیٹ تھی خان کی اپنی سیٹ) جمائما کا اصرار تھا کہ خان سیاست چھوڑ کر لندن میں جا بسے۔ بالآخر 2004ء میں (ٹائلوں والے مقدمے کے پانچ سال بعد) جمائما مستقل لندن جا بسیں۔ علیحدگی کا فیصلہ خان کا نہیں‘ خود جمائما کا تھا۔ لیکن یہ علیحدگی ''مشرق‘‘ والی روایتی علیحدگی نہیں‘ دونوں کے درمیان اب بھی دوستانہ تعلقات موجود ہیں۔ بچے بھی پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں