جاوید ہاشمی سب سے چھوٹی صاحبزادی کی ذمہ داری سے بھی فارغ ہوئے۔ سب سے بڑی میمونہ‘ پھر آمنہ‘ سعدیہ‘ بشریٰ‘ مومنہ اور جویریہ... ہاشمی ابھی پنجاب یونیورسٹی میں نہیں آیا تھا‘ محاورے کی زبان ابھی ''مسیں بھیگ رہی تھیں‘‘ کہ رشتۂ ازدواج میں باندھ دیا گیا... اور ساری عمر اسی نیک بخت کے ساتھ بِتا دی... سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں بھٹو صاحب کے عہد اقتدار کا آغاز بہت ہیبت ناک تھا۔ اُس دور میں تیسری دنیا کے ڈکٹیٹر ہمارے ''قائد عوام‘‘ کا آئیڈیل تھے... تب جنوبی ایشیاء کی قدیم اور عظیم ترین درسگاہ پنجاب یونیورسٹی‘ فسطائیت کا مقابلہ کرنے والے سیاسی کارکنوں کے لیے امیدوں کا مرکز بن گئی۔
غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے اور فیلڈ مارشل ایوب خاں کا باجبروت گورنر ملک امیر محمد خاں (نواب آف کالا باغ) ان کے آئیڈیل۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سینٹ ہال میں ووٹوں کی گنتی جاری تھی۔ اندر سے جاوید ہاشمی سمیت جمعیت کے پورے پینل کی سبقت کی خبریں آ رہی تھیں۔ شب کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا‘ بھٹو نے نوجوان اور پُرجوش گورنر سے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ہاشمی کی شکست چاہتے ہیں۔ گورنر ہائوس میں مانیٹرنگ روم لمحے لمحے کی خبر لے رہا تھا۔ تب اسلامیہ کالج سول لائنز میں ''لیفٹ‘‘ خاصا طاقتور ہوتا تھا۔ اندرونِ شہر سے پارٹی کے جیالے بھی یہاں جمع ہو گئے اورپھر یونیورسٹی سینٹ ہال پر حملہ آور ہوئے۔ لاء کالج کی بالکونی سے آنے والی ایک گولی‘ سینٹ ہال کے روشندان سے ہوتی ہوئی پروفیسر ڈاکٹر عمر کے سر میں آ لگی(جو ووٹوں کی گنتی کر رہے تھے)۔ ادھر سینٹ ہال کے باہر جمعیت کے نوجوان بیلٹ باکس کے تحفظ کے لیے سربکف تھے۔ اس ہنگامے میں ایک طالبِ علم جاں سے گیا (ڈاکٹر عمر کی زندگی باقی تھی چنانچہ شدید زخمی ہونے کے باوجود جانبر ہو گئے) اگلے دن کے اخبارات میں جاوید ہاشمی (اور ان کے پورے پینل) کی شاندار فتح کی خبر فسطائیت کی مزاحمت کرنے والے سیاسی کارکنوں کے لیے عزمِ نو اور ولولۂ تازہ کا باعث بن گئی۔
چند دنوں بعد سمن آباد سے دو یتیم زادیوں کے اغواء کی خبر ہاشمی کی نوجوان قیادت کے لیے پہلا بڑا امتحان تھا‘ اس کے سامنے اپنی میمونہ اور آمنہ کے چہرے گھوم گئے۔ وہ سینکڑوں ساتھیوں سمیت مال روڈ پر نکل آیااور گورنر ہائوس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا۔ بھٹو صاحب نے ایک صوبائی وزیر کو طالبات کی بازیابی تک بطور یرغمال ہاشمی کے سپرد کر دیاتھا۔
مشرف آمریت ہاشمی کے حوصلوں کے لیے نیا امتحان تھی۔ غداری کے الزام میں سزا سے پہلے اسے نیب میں مقدمات کا سامنا تھا۔ یہ جلا وطن نوازشریف سے وفاداری کا خمیازہ تھا جو وہ بھگت رہا تھا اور اس پر اسے کوئی ملال نہ تھا۔ نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر ہاشمی کی بیگم بھی اپنی بچیوں کے ساتھ موجود ہوتیں۔ اخبار میں تصویر شائع ہوئی ‘بیمار ماں بچیوں کو زیرِعتاب والد سے ملوانے کے لیے لائی تھی۔ جدہ کے سرور پیلس میں شام کی نشست میں میاں صاحب دیر تک اس تصویر کا ذکر کرتے رہے۔ چھ بچیوں کا باپ کس بہادری سے ڈکٹیٹر شپ کے سامنے سینہ تانے کھڑا رہا۔تب میمونہ بھی قومی اسمبلی کی رکن تھیں اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں اپنے بہادر باپ کی حقیقی تصویر۔
اور اب سب سے چھوٹی جویریہ بھی اپنے گھر سدھار گئی اور ہاشمی صاحب آخری ''بوجھ‘‘ سے بھی سبکدوش ہوئے۔ اس ہفتے کی سہ پہر ملتان گریژن میس میں جویریہ کی تقریبِ عروسی تھی ۔ لاہور سے ملتان کا سفر ساتھی اخبار نویس کی صحبت میں چار گھنٹے میں طے ہو گیا تھا‘ لیکن شہر کے اندر ایک گھنٹہ لگ گیا۔ کینٹ میں ہاشمی صاحب کے گھر کے گرد ''پروٹوکول‘‘ لگا ہوا تھا۔ صدر ممنون حسین تقریبِ عروسی میں شرکت سے پہلے آرام کے لیے یہاں ٹھہرے تھے۔ تقریب گاہ کے دروازے پر شاہ محمود قریشی سے علیک سلیک ہوئی‘ وہ ''سلامی‘‘ دے کر رخصت ہو رہے تھے۔ چند روز پہلے ان کے صاحبزادے زین قریشی کی شادی میں ہاشمی کی شرکت کو تجزیہ نگاروں نے ان کا بڑا پن قرار دیا تھا کہ اس سے پہلے شاہ محمود ان کی بہن اور بھائی کی تعزیت کے لیے بھی نہیں آئے تھے۔ ''کینوپی‘‘ میں پہلی ملاقات سینیٹر طارق چوہدری سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا میں تو ''سٹیج‘‘ تک نہیں پہنچ سکا ۔آپ کوشش کر کے دیکھ لیں(کہ وی وی آئی پیز کی آمد کی وجہ سے یہ حصہ سکیورٹی والوں کے سخت حصار میں تھا) ہم نے اس ''آزمائش‘‘ سے دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔ گورنر رفیق رجوانہ‘ وفاقی وزرائ‘ احسن اقبال‘ خواجہ سعد رفیق اور برجیس طاہر سمیت‘ ایک کے بعد ایک... اور سیکورٹی کا طویل اور مسلسل حصار... علاقے کے تمام ''معززین‘‘ اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل یہ بلامبالغہ ہزاروں کا ''اجتماع‘‘ تھا... مفتی عبدالقوی بھی اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ موجود تھے۔ قندیل بلوچ کیس نے ان کی سیاست کو تو متاثر کیا (وہ تحریک انصاف کے علما ونگ کے صدر ہوتے تھے) لیکن اپنے مذہبی عقیدت مندوں میں اب بھی اسی مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔
ثناء الحق شعیب اسلامی جمعیت طلبہ میں ہمارے ہم عصر ہوتے تھے اور ملتان کی طلبہ سیاست میں بڑا نام ۔ پھر جماعت اسلامی میں آ گئے۔ 1993ء میں قاضی صاحب نے پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا‘ تو وہ ''باغی‘‘ ہو گئے‘ تب سے مسلم لیگی ہیں اور جاوید ہاشمی کے پُرجوش کارکن... انہوں نے اپنی رہائش پر عصرانہ کا اہتمام کر لیا جس میں کچھ اور کارکن بھی مدعو تھے۔ تونسہ شریف والے خواجہ مدثر بھی یہاں ان کے پڑوسی ہوتے ہیں۔ وہ بھی چلے آئے ۔حافظ سعید انور کا معاملہ بھی شعیب والا ہے۔ شعیب نے معذرت کی‘ ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ بجے تک بجلی چلی جاتی ہے اور دو دن سے پو پی ایس بھی خراب ہے‘ شاہ صاحب نے فقرہ چست کیا ''لیکن میاں صاحبان تو کہتے ہیں‘ لوڈشیڈنگ ختم ہو چکی...‘‘ ''جی ہاں! پہلے سولہ‘ سولہ گھنٹے ہوتی تھی اور اب صرف ایک گھنٹہ ہوتی ہے‘‘۔ میزبان نے شاہ صاحب کے مصرع طرح پر گرہ لگائی...
یہاں اس بات پر اتفاق تھا کہ28 جولائی کے بعد میاں صاحب کا سیاسی بیانیہ مقبول ہوا ہے‘ ان کے بڑے بڑے جلسے جس کا ثبوت ہیں۔ چکوال کے ضمنی انتخاب میں 30 ہزار ووٹوں کی سبقت سے مسلم لیگ (ن) کی فتح اس کی ایک اور مثال ہے۔ لیکن یہاں یہ اندیشۂ ہائے دوردراز کا اظہار بھی تھا‘ کیا اس طاقت کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو جولائی 2018ء کے انتخابات میں ہموار میدان ملے گا... اور یہ بھی کہ نہال ہاشمی کے انجام کے بعد کیا عدلیہ کے حوالے سے موجودہ بیانیہ جاری رہ سکے گا؟
جاوید ہاشمی کی واپسی مسلم لیگی ورکر اور ووٹر کے لئے مسرت کا باعث ہے جسے مسلم لیگی لیڈر اپنے ٹکٹ کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ ایک رائے یہ تھی کہ انہیں سینیٹ کی رکنیت پر اکتفا کر لینا چاہیے۔ ملتان نواز شریف کے متوالوں کا گڑھ ہوتا تھا اور اب بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ 28 جولائی کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہاں مسلم لیگی ہی مسلم لیگیوں کی شکست کا باعث بنے۔
اب جاوید ہاشمی عام انتخابات میں امیدوار ہوئے تو خود مقامی مسلم لیگی قیادت انہیں ہرانے کے لیے سرگرم ہو جائے گی۔ گزشتہ ضمنی انتخاب میں ملتان کے مسلم لیگی قائدین سپورٹ کرتے تو ہاشمی کی فتح یقینی تھی... وہ جو 38 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کی تن تنہا مہم کا نتیجہ تھا جس میں ثناء الحق شعیب جیسے مخلص مسلم لیگی تو ان کے ساتھ تھے لیکن مقامی لیڈرشپ کی تمام تر دلچسپی ان کی شکست میں تھی... یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ گورنر صاحب بھی اپنے صاحبزادے کے لیے قومی اسمبلی کے ٹکٹ میں ''انٹریسٹڈ‘‘ ہیں۔ کسی ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں وہ صوبائی سیٹ پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔