جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے اور 28 جولائی کے فیصلے کے بعد نواز شریف کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ائیر مارشل (ر) شہزاد چوہدری کی بات دوسری ہے‘ وہ بھی ریٹائرڈ عسکری دانشور ہیں‘ لیکن اس قبیل کے دیگر دانشوروں کے برعکس کھلے دل و دماغ سے سوچتے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ حالات و معاملات کو دیکھتے ہیں۔ نواز شریف کے بارے میں ان کے ہاں شاید کوئی نرم گوشہ نہیں پایا جاتا لیکن اپنے دیگر ''پیٹی بند بھائیوں‘‘ کے برعکس وہ اندھی نفرت کا شکار بھی نہیں۔ گزشتہ شام ایک ٹاک شو میں وہ کھلے دل سے اعتراف کر رہے تھے کہ عوام الناس میں نواز شریف کا بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ ان کے بڑے بڑے جلسے‘ ان میں عوام کی پُرجوش شرکت اور ہاتھ ہلا کر اور بازو لہرا کر نواز شریف کے بیانیے کی توثیق و تائید بے سبب نہیں۔
برادرم خورشید ندیم نے نواز شریف کے جلسوں کے متعلق جناب کامران خان کے تبصرے کا ذکر کیا ہے کہ بھٹو صاحب کے بعد ایسے جلسے دیکھنے میں نہیں آئے۔ کامران خان موجودہ پولیٹیکل پولرائزیشن میں کسی سائیڈ پر نہیں۔ وہ ایونٹ ٹو ایونٹ جائزہ لیتے اور اپنی بے لاگ رائے کے اظہار کی شہرت رکھتے ہیں لیکن اگر وہ دانشور بھی جو نواز شریف سے نجات میں ہی ملک و قوم کی فلاح دیکھتے ہیں‘ عمران خان کی راجدھانی میں نواز شریف کے جلسۂ عام کے ''غیر معمولی‘‘ ہونے کا اعتراف کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان کے جلسے پہلے سے زیادہ رش لے رہے ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوامی پذیرائی کی ہوا کا رُخ کدھر ہے... ایئر مارشل شہزاد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان (اور دیگر اپوزیشن جماعتوں) کا کرپشن کا نعرہ کشش کھو چکا ہے‘ نواز شریف کے مقابلے کے لیے اب انہیں نیا بیانیہ تخلیق کرنا ہو گا۔
خورشید ندیم جس ''سیاسی عصبیت‘‘ کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ اس کا معاملہ واقعی دلچسپ ہے... لوگ اپنے ''بتوں‘‘ کی حفاظت خود کرتے ہیں‘ تاوقتیکہ یہ بُت خود اپنے آپ کو توڑنے پر نہ اتر آئیں۔ ہمیں یاد ہے‘ بھٹو کو ملک توڑنے میں برابر کا ذمہ قرار دیا جاتا‘ تو جیالوں کا جواب ہوتا‘ یہ ایک دن ٹوٹنا ہی تھا‘ ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع دو خطوں کو کب تک ایک رکھا جا سکتا تھا‘ جبکہ درمیان میں ازلی و ابدی دشمن بھی موقع کی تلاش میں رہتا ہو۔ بھٹو کی بادہ نوشی کا ذکر ہوتا‘ تو جیالے پلٹ کر جواب دیتے‘ کون نہیں پیتا‘ سبھی پیتے ہیں۔ ایک جلسۂ عام میں خود بھٹو نے اعتراف کیا‘ پیتا ہوں‘ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے عوام کی خدمت کر کے تھک جاتا ہوں‘ تو تھوڑی سی پی لیتا ہوں‘ غریبوں کا خون تو نہیں پیتا۔ جیالوں نے نعرہ لگایا‘ ''جی او بھٹو جی‘ دیسی چھڈ ولایتی پی‘‘ اور 1970ء کے الیکشن میں بھٹو کے کھمبے بھی جیت گئے۔ ''مساوات‘‘ کی ہیڈ لائن تھی ''برج الٹ گئے‘‘ تب ملک معراج خالد‘ حنیف رامے‘ معراج محمد خاں اور مبشر حسن جیسے مڈل کلاسیے بھٹو کا انتخاب تھے۔ ہمارے ہارون آباد میں رفیق گِل نامی ایک غیر معروف سیاسی کارکن نے ملک محمد قاسم جیسے قد آور کو چاروں شانے چت کر دیا تھا...
پھر رفتہ رفتہ یہ رومانس ٹوٹنے لگا۔ عوام کو ''طاقت کا سرچشمہ‘‘ قرار دینے والے قائدِ عوام نے انہی وڈیروں اور جاگیرداروں کو اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کھڑا کر لیا‘ جن کے استحصال سے نجات کے لیے عام آدمی نے اس سے عشق کیا تھا۔
اپریل 1986ء میں بھٹو کی صاحبزادی کی (خود ساختہ جلا وطنی سے) واپسی تک یہ عشق کسی نہ کسی سطح پر‘ کسی نہ کسی مقدار میں قائم رہا۔ پھر کرپشن اور بیڈ گورننس کی شہرت سے ہوا اُکھڑنے لگی جس میں ''مردِ اول‘‘ کی شہرت کا عمل دخل سب سے زیادہ تھا۔
1997ء کے الیکشن میں نواز شریف نے جو دو تہائی اکثریت حاصل کر لی‘ اور بھٹو کی بیٹی سندھ میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستوں تک محدود ہو گئی تو اس کا اصل سبب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر گھر سے نکلا ہی نہیں تھا... ورنہ نواز شریف کے ووٹ تو تقریباً اتنے ہی تھے جتنے انہوں نے 1993ء میں حاصل کئے تھے۔
مشرف کی آمریت اور آخر میں محترمہ کا خونِ ناحق پیپلز پارٹی کو نئی زندگی دے گیا لیکن جناب زرداری کا پانچ سالہ دور‘ خود اپنی پارٹی پر بھاری پڑ گیا اور پنجاب کے بیشتر حلقوں میں اس کے ووٹوں کی تعداد سینکڑوں تک محدود ہو گئی۔ لاہور میں سب سے زیادہ ووٹ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ڈرائیونگ کا اعزاز رکھنے والے چوہدری اعتزاز احسن کی اہلیہ کے تھے‘ سات‘ آٹھ ہزار ووٹوں کے ساتھ وہ اپنی ضمانت بھی بچا نہ پائیں۔ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے ووٹ ایک ہزار سے بھی کم تھے‘ البتہ میاں صاحب کی ''نا اہلی‘‘ کے بعد حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں اس کا امیدوار 14 سو ووٹ لے گیا۔ اب 5 فروری کو لاہور کے موچی دروازے میں چھ‘ سات ہزار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر‘ پورے پنجاب اور آزاد کشمیر سے جمع ہوا تھا۔
ان ڈیڑھ‘ پونے دو برسوں میں دشنام کا کون سا تیر ہے جو نواز شریف کے خلاف آزمایا نہیں گیا... پاناما کیس کے حوالے سے کرپشن کے الزامات‘ مودی کی یاری کا طعنہ اور آخر میں ختمِ نبوت کے حوالے سے جذباتی لہر اٹھانے کی کوشش۔ لیکن نواز شریف کی مقبولیت ہے کہ نیچے کو آنے کی بجائے اوپر کو جا رہی ہے۔
تو کیا نواز شریف کی تائید میں نکل آنے والی یہ خلقِ خدا کرپشن سے نفرت نہیں کرتی؟ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات کو سچ نہیں جانتی۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں ''مودی کے یار‘‘ کا نعرہ پِٹ گیا اور نواز شریف کی مسلم لیگ دو تہائی اکثریت سے زیادہ لے گئی تو کیا اس کا سبب یہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کے بیس کیمپ کا عام آدمی مودی سے محبت کرنے لگا ہے؟ ہندوستان سے نفرت اور کشمیر کی آزادی کے لیے تڑپ کا عالم وہی ہے لیکن وہ نواز شریف کو ''مودی کا یار‘‘ یا ''کشمیر کا غدار‘‘ تسلیم کرنے کو تیار نہیں... اب پانچ فروری کو مظفر آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ اس کا تازہ ترین اظہار تھا۔
یہی معاملہ ''ختمِ نبوت‘‘ کا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ وہ اس کے لیے جان قربان کر دینے کو اُخروی نجات کا وسیلہ سمجھتا ہے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
لیکن نواز شریف پر ختمِ نبوت سے بے وفائی کا الزام اسے تسلیم نہیں۔ اس حوالے سے ''متنازع‘‘ قانون کی اصلاح اور وفاقی وزیر قانون کے استعفے کے بعد وہ احتجاجی تحریک کو ''سیاسی تحریک‘‘ سمجھتا ہے اور اس میں اس کی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ خواجہ نظام الدین سیالوی کے حالیہ انکشاف نے (کہ بعض پس پردہ ہاتھ لاہور کے احتجاجی جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے تھے اور اس کے لیے تمام ضروری وسائل کی فراہمی کی یقین دہانی کرا رہے تھے) اندھوں کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں۔
سینیٹ انتخابات کا بروقت انعقاد عام انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کے خاتمے کا باعث بنا ہے۔ کینیڈا والے ''شیخ الاسلام‘‘ کی روانگی بھی اس کا ثبوت ہے۔ ادھر مشاہد حسین سید کی نون لیگ میں واپسی آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ہوا کے رُخ کا پتا دے رہی ہے۔