چور اچکے سے شروع ہونے والی بات شام کے ٹاک شو میں قصور کی زنیب سمیت آٹھ بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کے مجرم عمران تک پہنچ گئی تھی۔ نواز شریف کو پارٹی صدارت کیلئے اہل قرار دینے والے قانون کے حوالے سے ایک دانشور دور کی کوڑی لائے‘ ''اس کا تو مطلب ہوا‘ قصور کا عمران بھی کسی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے‘‘۔ عزت مآب چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے وضاحت فرما دی کہ وہ سیاسی رہنمائوں کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں گلہ تھا کہ پارٹی صدارت کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیت والے قانون کیخلاف پٹیشن کی سماعت کے دوران ان کے ریمارکس کو میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا یہ سوال کہ کیا کوئی چور اچکا پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟ مفروضے پر مبنی تھا لیکن میڈیا نے معاملہ کیا سے کیا کر دیا۔ میڈیا ہماری آبزرویشن کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلا دیتا ہے تو دوسری جانب سے ردعمل بھی آجاتا ہے۔ معزز و محترم چیف جسٹس کا اشارہ شاید سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کی اس گفتگو کی طرف تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بات گاڈ فادر اور سسلین مافیا سے ڈاکو اور چور جیسے الفاظ تک پہنچ گئی ہے تو عمران خان اور جج صاحبان کی زبان میں کیا فرق رہ گیا؟ اچھا ہوا کہ جناب چیف جسٹس نے اسے توہینِ عدالت کا مسئلہ بنانے کی بجائے اپنی وضاحت سے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے خواتین کے سکرٹ والی گفتگو کی میڈیا کوریج پر وضاحت جاری کرنا پڑی تھی اور گزشتہ ہفتے آئندہ انتخابات کے بعد شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے حوالے سے ریمارکس پر انہوں نے ایک میڈیا ہائوس کو طلب بھی کر لیا تھا۔
معزز و محترم چیف جسٹس (اور دوسرے فاضل ججوں) کو اس حوالے سے جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا (اور میڈیا سے شکایت پیدا ہوئی) اس پر حکمت و دانش سے معمور وہ مقولہ یاد آتا ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ جہاں سیاستدان ''ملوث‘‘ ہوں وہاں تو معاملہ اور بھی نازک اور حساس ہو جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کیخلاف نواب محمد احمد خاں قتل کیس خود ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران درج ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں‘ ہائی کورٹ میں چلا، یہ اوپن کورٹ تھی جس کا ایک ایک لفظ رپورٹ ہو رہا تھا۔ ''ملزم‘‘ نے اپنی پسند کے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کیں۔ ہائیکورٹ سے سزائے موت کو اس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور عدالت کی تاریخ کا غالباً پہلا اور آخری موقع تھا جب خود اپیل کنندہ کو عدالت کے روبرو اپنی صفائی اور بے گناہی پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ کے سامنے بھٹو صاحب گھنٹوں دلائل دیتے رہے اور ان الفاظ کے ساتھ اپنی معروضات ختم کیں کہ اب آپ پھانسی بھی دے دیں تو میں سمجھوں گا کہ انصاف کیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ چار/ تین سے ''اختلافی‘‘ تھا۔ چیف جسٹس سمیت چار ججوں نے اپیل مسترد جبکہ تین نے اسے قبول کر لیا تھا۔ (نظرثانی کی اپیل مسترد کرنے کا فیصلہ متفقہ تھا) دلچسپ بات یہ کہ سزائے موت کے حق میں فیصلہ دینے والے چیف جسٹس انوارالحق نے جنرل ضیاء الحق کے پی سی او (1981) کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گھر کی راہ لی جبکہ سزائے موت سے اختلاف کرنے والے جسٹس حلیم، پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس بن گئے اور بینظیر صاحبہ کی پہلی وزارت عظمیٰ تک اس منصب پر فائز رہے۔ اختلافی فیصلے والے جسٹس دراب پٹیل بھی اپنے منصب پر موجود رہے۔ کوئی پونے دو سال بعد پی سی او آیا تو چیف جسٹس کی طرح وہ بھی اس کے تحت حلف سے انکار کرکے گھر چلے گئے۔ جسٹس مولوی مشتاق حسین کا معاملہ دلچسپ رہا۔ بھٹو صاحب کیخلاف مقدمۂ قتل میں انہی کی سربراہی میں عدالت عالیہ کے فل بنچ نے سزائے موت کا متفقہ فیصلہ دیا تھا بعد میں ایئر مارشل اصغر خاں کی ایک پٹیشن آئی تو اس بنچ کی سربراہی بھی وہ خود کر رہے تھے۔ حکومت کو اطلاع ہو گئی کہ فیصلہ اس کے خلاف آ رہا ہے جس سے مارشل لاء کی بنیادیں ہل جائیں گی؛ چنانچہ چیف صاحب کو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پی سی او کے تحت حلف کیلئے انہیں بلایا ہی نہ گیا کہ حکومت کو ایک اور سُبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پیپلز پارٹی بھٹو صاحب کی سزائے موت کو جوڈیشل مرڈر قرار دیتی۔ اس حوالے سے چیف جسٹس انوارالحق سے استفسار کیا جاتا تو ان کا جواب ہوتا‘ ہم نے فیصلے میں سب کچھ لکھ دیا‘ اسے پڑھ لیں۔ وہی بات کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں۔
اور اب کچھ ذکر لودھراں کا۔ یہ عمران خان کی سیٹ کے بعد‘ تحریک انصاف کے لیے دوسری اہم ترین سیٹ تھی‘ عمران خان کے سب سے چہیتے سیاسی رفیق کی سیٹ... 15 دسمبر 2017ء کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے کے بعد بھی تحریک انصاف میں ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ دکھاوے کے لیے انہیں پارٹی کی سیکرٹری جنرل شپ سے علیحدہ کر دیا گیا‘ لیکن پارٹی میٹنگز میں وہ اب بھی عمران کے پہلو میں اسی نشست پر فروکش ہوتے ہیں۔ نظرثانی اپیل کے فیصلے تک عمران نے سیکرٹری جنرل کی نشست خالی رکھی ہے۔ نواز شریف کے خلاف کرپشن الزامات کا فیصلہ تو ابھی ہونا ہے‘ (28 جولائی کے فیصلے میں ان کی نااہلی Receivable رقم کو‘ اثاثوں میں بیان نہ کرنے پر ہوئی) لیکن ترین صاحب کی امانت و صداقت کی کہانیوں میں ایک کہانی رئوف کلاسرا کے جمعہ کے کالم میں بھی موجود ہے۔ اپنی وفاقی وزارت کے دوران سٹاک مارکیٹ میں غیر قانونی ٹریڈنگ کے ذریعے سات کروڑ کا (ناجائز) منافع کمانے کی کہانی...
لودھراںکی یہ سیٹ جہانگیر ترین نے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے صدیق بلوچ سے چالیس ہزار ووٹوں کی ''لیڈ‘‘ سے جیتی تھی۔ صدیق بلوچ ان ساڑھے چار برسوں میں دو الیکشن لڑ چکے تھے۔ اب چار ماہ کی باقی ماندہ مدت والی سیٹ پر الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی تو قرعۂ فال پیر اقبال شاہ کے نام نکل آیا، جن کے پاس نیک نامی کی دولت تو فرواں ہے‘ البتہ روپے پیسے میں وہ ترین صاحب کے پاسنگ بھی نہیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ بھی ان کے ہاں بے حد و حساب ہے‘ اپنی 25 ایکڑ اراضی (جس کی قیمت موجودہ مارکیٹ ریٹ کے حساب سے دو اڑھائی ارب روپے سے کم کیا ہو گی؟) مفلس لوگوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی نذر کر دی۔
اپنے سیاسی حریفوں کو موروثی سیاست کا طعنہ دینے والے لیڈر نے یہاں باپ کی جگہ بیٹے کو ٹکٹ کا مستحق سمجھا‘ فارن کوالیفائیڈ‘ نوجوان امیدوار... کھرب پتی باپ کا ارب پتی بیٹا... ڈاکٹر سعید الٰہی گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں بتا رہے تھے کہ کاغذات نامزدگی میں نوجوان علی ترین نے خود کو ساڑھے تین ارب روپے سے زائد مالیت کے اثاثوں کا مالک ظاہر کیا ہے۔ ہم نے لاہور میں سپیکر ایاز صادق کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں ان کے حریف کے ایک ارب روپے کے انتخابی اخراجات کی کہانیاں تو سنی تھیں اور اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھیں بھی۔ کہا جاتا ہے کہ اب لودھراں میں بھی یہی منظر تھا۔ زیرو میٹر موٹر سائیکلوں کی تقسیم تک بھی اس میں شامل تھی۔ صرف الیکشن والے دن چالیس لاکھ روپے بریانی پر ہی اُٹھ گئے تھے۔ عمران خان پورے لائو لشکر کے ساتھ پہنچے اور الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلسۂ عام سے خطاب بھی فرمایا۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں سے کسی نے ادھر کا رُخ نہ کیا کہ ان کے خیال میں یہ محض خانہ پری تھی، اقبال شاہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا تھا اور پھر الیکشن کے دن واقعی اَن ہونی ہو گئی۔ نوازشریف کی کشش‘ کرشمہ دکھا گئی۔
بڑے چوہدری صاحب نے گزشتہ روز بلاوجہ تو نہیں کہا کہ انہیں جولائی کے انتخابات عینک لگا کر بھی دکھائی نہیں دیتے۔