3 مارچ کے سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ نون کی فتح پر شہباز صاحب کے ٹویٹ کو قبول عام کا درجہ حاصل ہو گیا۔ یہ ایک مصرع تھا :''ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان‘‘۔رضی اختر شوق کے اس شعر کا دوسرا مصرع ہم عرض کئے دیتے ہیں ؎
''کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ‘‘
نوابزادہ مرحوم کے خطاب میں اشعار کا بروقت اور برمحل استعمال اسے دوآتشتہ بلکہ سہ آتشہ بنا دیتا تھا۔ شہباز صاحب کا اپنا شعری ذوق بھی ٹھیک ٹھاک ہے اور خوش قسمتی سے انہیں منفرد لب و لہجے کے شاعر شعیب بن عزیز کی دیرینہ رفاقت (یا مصاحبت ) بھی حاصل ہے۔ وہی ''سونے پہ سہاگہ‘‘ والا معاملہ...
سپریم کورٹ کے 21 فروری کے فیصلے نے ‘ معزول وزیراعظم کو پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دینے والی ترمیم ہی کو غیر آئینی قرار نہیں دیا تھا ‘ بلکہ تین اکتوبر 2017 کے بعد (جب وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے) مسلم لیگ نون کے حوالے سے ان کے فیصلے بھی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار پائے تھے۔ یہ بات اکثر ماہرینِ قانون کے لیے خلافِ توقع تھی کہ ماضی میں اس کے برعکس متعدد نظائر بھی موجود تھیں۔ مثلاً جنرل یحییٰ خاں کے 25 مارچ 1969ء کے مارشل لاء کو چیف جسٹس حمود الرحمن کی زیرِقیادت سپریم کورٹ نے غاصبانہ اقدام قرار دیا لیکن دسمبر 1970ء کے عام انتخابات سمیت اُس دور کے بیشتر فیصلوں (اور اقدامات) کو آئینی تحفظ دے دیا۔ ان میں 20 دسمبر 1971ء کو بھٹو صاحب کو انتقالِ اقتدار کا معاملہ بھی تھا۔ (عاصمہ جیلانی کیس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہی بھٹو صاحب ''سول مارشل لائ‘‘ ختم کرنے پر مجبور ہوئے ورنہ وہ اسمبلی سے اسے غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی ''منظوری‘‘ حاصل کر چکے تھے) ماضی قریب میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری والی سپریم کورٹ کی بحالی کے بعد ''ڈوگر کورٹس‘‘ غیر آئینی قرار پائیں لیکن ان کے فیصلوں کو آئینی تحفظ دیدیا گیا۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا (21 فروری کا) فیصلہ ایسے وقت آیا‘ جب سینیٹ کے (3 مارچ کے )انتخابات کے لیے مسلم لیگ نون کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی نوازشریف کے دستخطوں کے ساتھ داخل کرائے جا چکے تھے (اور الیکشن کمیشن انہیں منظور بھی کر چکا تھا) سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ نون کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اپنے امیدواروں کے نئے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بھاگم بھاگ الیکشن کمشن پہنچے لیکن کمشن نے ان امیدواروں کو ''آزاد‘‘ قرار دینا مناسب سمجھا...اس سے پہلے بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ نون والے ایک اور طرح سے ''آزاد‘‘ ہو گئے تھے...بہرحال تین مارچ کو سینیٹ انتخابات اس حال میں مکمل ہو ئے کہ بقول شاعر ''جس نے بھی بات کی، شکایت ضرور کی‘‘...سوموار کی صبح عمران خان کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں خیبر پختونخوا میں اپنے 20 ارکانِ اسمبلی کے بِک جانے پر برہم تھے۔ ان کا کہنا تھا ''یہ جمہوریت کی نفی ہوئی ہے۔ پیسہ چلا ‘ کئی لوگوں نے اپنا ضمیر بیچا‘‘۔ ان کے بقول‘ ایک ایم پی اے کی قیمت چار کروڑ روپے تھی...اپنے صوبے میں سینیٹ کی دو نشستوں سے محرومی پر خان کی برہمی بجا‘ لیکن ناقدین پنجاب میں خود خان کے کامیاب امیدوار کی بات بھی کرتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی میں 30 ارکان والی پی ٹی آئی کا امیدوار 44 ووٹ کیسے لے گیا؟
اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے خان کا اپنے امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالنے نہ جانا بھی تجزیوں اور تبصروں کا موضوع تھا۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں اپنے امیدوار شیخ رشید کو ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے تھے۔ 17 جنوری کو طاہر القادری کی مال روڈ پر ناکام ریلی میں شیخ نے پارلیمنٹ پر ہزار بار لعنت بھیجتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا‘ عمران خان نے بھی اپنے خطاب میں اس کی تائید کی اور فرمایا کہ وہ بھی قومی اسمبلی سے استعفوں کے لیے پارٹی سے منظوری حاصل کریں گے... سوموار کی صبح کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں خان کا کہنا تھا کہ وہ اس پارلیمنٹ میں کیوں جائیں ، جو سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے شخص کو پارٹی صدر بننے کی منظوری دیتی ہے ...اعلیٰ سیاسی اخلاقیات پر مبنی خان کے اس عظیم جذبے کو سلام‘ لیکن اس کے ساتھ وہ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے تنخواہ سمیت تمام سہولیات اور مراعات بھی وصول کر رہے ہیں۔ استاد داغ ؔیاد آئے
زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو ؟
جان پیاری بھی نہیں‘ جان سے جاتے بھی نہیں
اتوار کو سرگودھا میں پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں بھی معاملہ دلچسپ رہا۔ سینیٹ کے امیدواروں کی طرح یہاں مسلم لیگ نون کا امیدوار یاسر ظفر سندھو بھی‘ الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے ''شیر‘‘ کے نشان سے محروم ہو گیا تھا...اب ''شیر‘‘ کی جگہ ''پک اپ‘‘ تھی...مئی 2013ء کے عام انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ نون کے امیدوار طاہر احمد سندھو (مرحوم) نے 37624 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے مقابل آزاد امیدوار رائو عبدالقیوم نے 15786 ،پی ٹی آئی کے میاں عبدالقدیر نے 9527 اور پیپلز پارٹی کے عنصر عباس نے 7089 ووٹ حاصل کئے تھے...اب ضمنی انتخاب میں مقابلہ ون ٹو ون تھا۔ تمام سیاسی (اور مذہبی) جماعتیں مسلم لیگ نون کے خلاف متحد تھیں‘ لیکن مسلم لیگ نون کا امیدوار ''شیر‘‘ کے نشان کے بغیر بھی بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ یاسر ظفر سندھو کے 42,736 ووٹوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کے رائو ساجد محمود‘ تمام اپوزیشن جماعتوں کی تائید و حمایت کے باوجود صرف 23586 ووٹ حاصل کر سکے۔
میاں صاحب کی معزولی کے بعد ان کے حلقہ (120) کے ضمنی انتخاب میں‘ بیگم کلثوم نواز کو ہرانے کیلئے جو حکمت عملی تیار کی گئی‘ اس میں مسلم لیگ نون کو اس کے روایتی مذہبی ووٹر سے محروم کرنا بھی تھا۔ تحریک لبیک والے شیخ اظہر رضوی 7130 اور جماعت الدعوۃ کے حمایت یافتہ (ملی مسلم لیگ کے) محمد یعقوب 5822 ووٹ لے گئے۔ 40 سے زیادہ آزاد امیدوار بھی تھے لیکن توقعات کے برعکس ان میں سے کوئی بھی چالیس‘ پچاس سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکا۔ چکوال میں پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگی امیدوار نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو تقریباً 30 ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہرا دیا۔ یہاں تحریک لبیک کے امیدوار نے 16576 ووٹ حاصل کئے‘ کہا گیا کہ نوازشریف دشمنی میں یہ ووٹ پی ٹی آئی کو جا کر مسلم لیگ نون کی فتح کا مارجن کم کر سکتے تھے۔ لودھراں میں قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون کے محمد اقبال شاہ کی کامیابی کا مارجن 26 ہزار کا تھا‘ یہاں تحریک لبیک نے 11494 ووٹ حاصل کئے تھے...اب سرگودھا میں نوازشریف کے تمام مخالفین کو یکجا کر دیا گیا۔ اسکے باوجود نوازشریف کا امیدوار ''شیر‘‘ کے بغیر بھی انتیس ہزار ووٹوں سے جیت گیا۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول ، نوازشریف نے عوام سے اپنا بیانیہ منوا لیا ہے ۔
یہ جو شہباز صاحب نے ''ہمیں ناموں سے نہ پہچانو‘‘ والی ٹویٹ کی تو اس کی مثالیں ہماری اپنی صحافی برادری میں بھی موجود ہیں...مولانا ظفر علی خاں جیل چلے جاتے تو ''زمیندار‘‘ کی لوح پر‘ مولانا کی بجائے‘ دفتر کے باہر پان بیچنے والے (پنواڑی )کا نام ایڈیٹر کے طور پر چھپتا (اور اس کے باوجود زمیندار ہاتھوں ہاتھ بِکتا)...ایک اور مثال ہمارے شامی صاحب کی ہے...بھٹو صاحب کے دور میں جناب الطاف حسن قریشی‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور صلاح الدین (شہید) بیشتر عرصہ جیل میں رہے...ابتدا میں شامی صاحب کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔ بعد میں ''عنایاتِ شاہی ‘‘ ایک اور طرح سے جاری رہیں۔ آئے روز ان کے زیرِادارت شائع ہونے والے ہفت روزوں کی بندش...لیکن ایک پرچہ بند ہوتا تو اگلے ہفتے کسی اور نام سے ایک اور پرچہ مارکیٹ میں آ جاتا...(ڈمی پرچوں کے پبلشر اپنا پرچہ شامی صاحب کی نذر کر دیتے) اس حوالے سے ایک طویل فہرست ہے۔ اس وقت جو نام ذہن میں آ رہے ہیں، ان میں ''زندگی‘‘ کے بعد ''اداکار‘‘ ''الحدید‘‘ ''رفاقت‘‘ ''اذانِ حق‘‘ ''لیل و نہار‘‘ ''الطاہر‘‘ اور ''اسلامی جمہوریہ‘‘ شامل ہیں...شامی صاحب کو جنوں کی حکایات لکھنے کے لئے سجاد میر‘ مختار حسن (مرحوم) اور ممتاز اقبال ملک کے ساتھ سعود ساحر اور ظہیر احمد جیسے دیوانوں کی رفاقت حاصل تھی...قارئین کو پرچے کے نام سے غرض نہ ہوتی۔سر ورق پر'' ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی ‘‘ کافی تھا۔