"RTC" (space) message & send to 7575

’’اوپننگ بیٹسمین‘‘؟

اُس اسمبلی میں فیلڈ ایوب خاں کے صاحبزادے کیپٹن (ر) گوہر ایوب‘ جنرل محمد ضیاء الحق کے فرزند اعجاز الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے خلف الرشید ہمایوں اختر بھی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے تینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا‘ ماشاء اللہ! منتخب ایوان میں جرنیلوں کے بیٹے بھی موجود ہیں۔ گوہر ایوب کہاں چُوکنے والے تھے‘ محترمہ کے مصرع طرح پر گرہ لگائی‘ ہمارے ایک بھائی ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے۔ اس ایک مصرعے میں محترمہ کے والدِ محترم کی سیاسی زندگی کے ابتدائی ساڑھے سات سال سمٹ آئے تھے‘ جب وہ پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو ''ڈیڈی‘‘ کہا کرتے (اور فیلڈ مارشل بھی انہیں گوہر اور اختر سے کم عزیز نہ رکھتے تھے) ڈکٹیٹر نے مسلم لیگ (کنونشن) کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو نوجوان بھٹو اس کے سیکرٹری جنرل تھے‘ اسی دوران ڈپٹی کمشنروں کو کنونشن لیگ کا ضلعی صدر اور ایس پی حضرات کو ضلعی جنرل سیکرٹری بنانے کی نادرِ روزگار تجویز بھی ان ہی کے ذہنِ رسا کا شاہکار تھی۔ 2 جنوری 1965ء کو منعقد ہونے والی صدارتی انتخاب میں وہ حزبِ اختلاف کی امیدوار مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل اپنے ''ڈیڈی‘‘ کی انتخابی مہم کے سرخیل تھے۔ وہ ایوب خان کو ''ڈیگال آف ایشیا‘‘ قرار دیا کرتے‘ لیکن مادرِ ملت کے خلاف کراچی میں ایسی دریدہ دہنی بھی کر گزرے‘ کہ اس کے بعد شہرِ قائد میں کسی پبلک پلیٹ فارم پر‘ مشتعل عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی (اِدھر مغربی پاکستان میں کراچی اور اُدھر مشرقی پاکستان میں ڈھاکا‘ دو ایسے شہر تھے‘ جہاں بدترین دھاندلی کے باوجود‘ قائداعظم کی بہن کو شکست نہ دی جا سکی...)
یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ایوب خاں کی کابینہ سے موصوف خود مستعفی نہیں ہوئے تھے۔ اوائل 1965ء کے آپریشن جبرالٹر سے شروع ہونے والی ''غلط فہمیوں‘‘ کی خلیج 1966ء کے معاہدہ تاشقند تک اتنی وسیع ہو گئی تھی‘ کہ ایوب خاں نے انہیں وزارت خارجہ سے فارغ کر دیا (حالانکہ اس سے قبل قومی اسمبلی کے ڈھاکا سیشن میں وہ اس معاہدے کی بھرپور وکالت کرتے رہے تھے...)
نوابزادہ صاحب بھی یاد آ گئے۔ ایوب خان رخصت ہوئے تو بھٹو صاحب نے فرمایا ''ہاتھی کو میں نے گرایا۔ وہ گر گیا تو کیڑے مکوڑے بھی نکل آئے‘‘۔ نوابزادہ کا ترت جواب تھا‘ ''ہم نے جب ہاتھی سے لڑائی کا آغاز کیا‘ تم اس کی دُم کے ساتھ بندھے ہوئے تھے‘‘۔
ان تلخ حقائق کی یاد دہانی کے لیے معذرت‘ لیکن ہمیں یہ ضرورت عزیزی بلاول کے ان ریمارکس کے بعد محسوس ہوئی جو نوعمر سیاستدان نے ملک کے بزرگ سیاسی رہنما راجہ ظفر الحق کے متعلق دیئے... ہم نے جنرل ضیاء الحق کے ''اوپننگ بیٹسمین‘‘ کو شکست دے دی... راجہ صاحب کے ضیاء الحق کا اوپننگ بیٹسمین ہونے کی بات ہمارے بعض تجزیہ کار اور تبصرہ نگار دوستوں نے بھی کی... سینیٹ چیئرمین کے حالیہ انتخاب میں راجہ صاحب کو مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کا امیدوار بنائے جانے کو ہمارے ایک دوست‘ نوازشریف کے اپنے موجودہ سیاسی بیانیے سے انحراف اور منافقانہ سیاست قرار دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ راجہ ظفرالحق اس وقت کہاں تھے جب بیگم کلثوم نواز ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے خلاف میدان میں نکلی تھیں۔ ہمارے فاضل دوست کو یاد نہیں رہا کہ راجہ صاحب وقت کی اُس آزمائش میں پورا اترے تھے‘ وضعدار اور وفاشعار گجرات کے چوہدری برادران بھی جب ڈکٹیٹر کے ساتھ چلے گئے تھے‘ نوازشریف کے ساتھ راجہ صاحب کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ جلاوطنی کے لیے روانہ ہوتے ہوئے وہ اپنی مسلم لیگ کی صدارت جاوید ہاشمی کے اور چیئرمین شِپ راجہ صاحب کے سپرد کر گئے تھے... اور دونوں اس امانت کی حفاظت میں کسی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوئے۔ گجرات کے چوہدری خاندان کے ساتھ راجہ صاحب کے ذاتی تعلقات‘ الذوالفقار کے ہاتھوں شہید ہونے والے بڑے چوہدری صاحب کے دور سے تھے۔ اب ان کے جانشینوں نے لاکھ منت ترلے کئے‘ ڈکٹیٹر کی طرف سے بڑے سے بڑے سیاسی عہدے کی پیشکش بھی کی‘ لیکن راجہ صاحب ایسی کسی تجویز‘ کسی پیشکش پر غور کرنے کے لیے بھی آمادہ نہ ہوئے۔
اکتوبر 2002ء کے انتخابات قریب آ چکے تھے۔ عمران خان (اور اس کی تحریک انصاف) سے وابستہ ڈکٹیٹر کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں‘ اس کی اپنی قاف لیگ کے حوالے سے بھی خفیہ والوں کی رپورٹیں تھیں کہ یہ بھی مطلوبہ نتائج نہ لا سکے گی۔ لاہور کے بزرگ ایڈیٹر عمرے پر جا رہے تھے‘ ڈکٹیٹر نے ان کے ہاتھ جلاوطن لیڈر کو پیغام پہنچایا کہ اگر وہ اپنی مسلم لیگ اور ڈکٹیٹر والی مسلم لیگ کے اتحاد؍ادغام پر رضامند ہو جائیں تو راجہ ظفر الحق کو اس کی صدارت سونپی جا سکتی ہے۔ الیکشن کے بعد کابینہ سازی میں بھی ان کی رائے کو اہمیت دی جائے گی۔ تب شہبازشریف بھی وطن واپس آ سکتے ہیں‘ البتہ نوازشریف کو واپسی کی اجازت کچھ عرصے بعد ملے گی‘ اس دوران وہ سعودی عرب سے جلاوطنی ختم کر کے لندن یا دبئی سمیت جہاں چاہیں قیام کریں‘ دنیا میں سیرسپاٹا کریں... اس سب کچھ کے عوض انہیں‘ آئندہ پانچ سال کے لیے ڈکٹیٹر کی صدارت پر صاد کرنا ہو گا۔ نوازشریف نے اسے مسترد کرنے میں لمحے بھر تاخیر بھی نہ کی۔ راجہ صاحب کو اس پر کوئی ملال نہ تھا‘ وہ راضی برضا تھے ‘لیڈر کا فیصلہ ان کا فیصلہ تھا...
راجہ ظفرالحق کو ضیاء الحق کے ''اوپننگ بیٹسمین‘‘ کا طعنہ دینے والے اس حقیقت کو کیوں نظرانداز کر جاتے ہیں کہ بھٹو کی ساڑھے پانچ سالہ فسطائیت کو بھگتنے والی سیاسی قیادت میں راجہ ظفر الحق تنہا نہیں تھے‘ جنہوں نے ڈکٹیٹر کی وزارت قبول کی‘ نوابزادہ صاحب جیسے عظیم جمہوریت مآب نے بھی اُس کابینہ کے لیے اپنے دو وزیر دیئے تھے‘ ہماری جماعت اسلامی نے بھی اس میں اپنے جُثے سے زیادہ حصہ پایا تھا... مفتی محمود (مرحوم) کی جمعیت علما اسلام بھی اس ''گناہ‘‘ میں شامل تھی اور پیر صاحب پگاڑا نے تو سب سے پہلے اپنے چار وزیر جنرل کی نذر کر دیئے تھے۔
راجہ ظفرالحق تو ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین تھے ‘ عزیزی بلاول اپنے گردوپیش نظر ڈالے تو انہیں ایسی عظیم المرتبت ہستیاں بھی نظر آ جائیں گی جو ضیاء الحق کی ٹیم کے بارہویں/ تیرہویں کھلاڑی ہونے کو بھی اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ اس طویل فہرست میں مثال کے طور پر صرف ایک نام‘ جناب یوسف رضا گیلانی۔ 
بزرگ سیاستدان راجہ ظفرالحق ہار گئے اور بلوچستان کے احساس محرومی کے ازالے کے لیے یہاں سے سینیٹ کو نویں نکور قیادت فراہم کردی گئی‘ نوازشریف کے ایٹمی دھماکوں سے عالمی شہرت پانے والے ضلع چاغی کے ایک متوسط قبیلے سے جس کا تعلق ہے۔ سینیٹ کے نوجوان چیئرمین کے پروفائل میں اس سے پہلے کوئی نمائندہ حیثیت (منتخب عہدہ ) نہیں تھا۔ البتہ ان کے والد محترم ضلع کونسل چاغی کے رکن ہیں۔ پانچ سو ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والے نوجوان وزیراعلیٰ کے بعد اب محدود سیاسی اثرورسوخ کے حامل خاندان کا نوجوان سپوت ''آزاد امیدوار‘‘ کے طور پر یہاں سے سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوگیا ہے۔ ایسی نئی نویلی قیادت ہی زیادہ تر مطلوب و مقصود رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دور کی کوڑی لانے اور بات کی کھال اتارنے کے عادی بعض آئینی ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صدر مملکت کی عدم دستیابی کی صورت میں چیئرمین سینیٹ ان کا قائم مقام ہوتا ہے۔ صدر کے لیے عمر کی کم از کم حد 45 سال ہے تو کیا 40 سالہ چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر مملکت بن سکتا ہے؟ اب چیئرمین سینیٹ کے (اختیارات کے لحاظ سے) علامتی منصب کو بلوچستان کے احساس محرومی کا مداوا قرار دینے والوں کے لیے عرض ہے کہ اس سے پہلے یہاں سے جناب ظفراللہ جمالی وزیراعظم کے منصبِ جلیلہ پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ 
برادرم خالد مسعود خاں نے ''بابا رحمتے‘‘ کے اس فیصلے کی تحسین کی ہے جس کے تحت سرکاری اشتہاروں پر ''شخصیات‘‘ کی تصاویر کی اشاعت ممنوع قرار پائی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ یہ کارخیر خیبرپختونخوا اور سندھ تک پھیلا دیا جائے۔ سیاسی جماعتیں کوئی خیراتی ادارے نہیں ہوتے‘ وہ اپنے انتخابی منشور کے ساتھ عوام میں جاتی ہیں‘ اور برسراقتدار آ کر اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوام کی آگہی کو اپنا فرض (اور حق) سمجھتی ہیں‘ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے... اس میں تصاویر کی اشاعت پر پابندی آئین اور قانون کا تقاضا ہے‘ تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ لیکن عوام کی زکوٰۃ‘ صدقات اور خیرات سے بنائے (اور چلائے) جانے والے اداروں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں