لاہور کے پرانے ایئرپورٹ سے طیارے نے اڑان بھری تو شہباز صاحب نے شیڈ اٹھا دیا اور ہمیں بھی متوجہ کیا‘ نیچے اورنج لائن کا ٹریک تھا۔ ہم نے ایک نظر ٹریک پر اور دوسری خادم پنجاب کے چہرے پر ڈالی۔ یوں لگا‘ فخر اور مسرت کا سایہ سا لہرایا اور غائب ہوگیا۔ ہم نے پوچھا‘ الیکشن سے پہلے صوبائی دارالحکومت میں ماس ٹرانسپورٹ کے اس میگا پراجیکٹ کی تکمیل کا امکان؟... ہمارے جاتے جاتے یہ ٹیسٹنگ کے مرحلے سے تو گزر چکا ہوگا لیکن عوام کے لیے اس سے مستفید ہونے کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ اب ان کے چہرے پر دکھ اور حسرت کے ملے جلے جذبات تھے۔
خادم پنجاب کی ''پنجاب سپیڈ‘‘ کا تو چین میں بھی شہرہ ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی مقررہ مدت سے قبل (اور اخراجات میں کمی کے ساتھ) تکمیل خادمِ پنجاب کی پہچان کا ایک اور حوالہ ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل لاہور میں تیس کلومیٹر طویل میٹروبس منصوبے کی صرف گیارہ ماہ میں تکمیل ہمارے ترک بھائیوں کے لیے بھی حیرت کا باعث تھی۔ افتتاحی تقریب میں نوازشریف کے ساتھ غیرملکی سفیر بھی تھے۔ ترک سفارت کار کہہ رہا تھا‘ یہ انسانوں کا نہیں‘ جِنّوں کا کام ہے۔
اورنج لائن کے بارے میں بھی خیال تھا کہ 25 دسمبر 2017ء یا 23 مارچ 2018ء تک عوام کے لیے کھول دی جائے گی لیکن اپنے ہاں ایک ''سول سوسائٹی‘‘ ان خواتین و حضرات پر مشتمل بھی ہے جو عوام الناس کی فلاح و بہبود اور آرام و سہولت کے ہر منصوبے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ''حکم امتناعی‘‘ بالآخر خارج ہو جاتے ہیں لیکن اس دوران وقت اور پیسے کا جو ضیاع ہو چکا ہوتا ہے اس کی تلافی کیسے ہو؟ لاہور میں کینال روڈ کی توسیع کے منصوبے کے ساتھ یہی ہوا۔ پھر لبرٹی سے قرطبہ چوک سگنل فری کاریڈور ''سول سوسائٹی‘‘ کا ہدف تھا۔ اورنج لائن پر کام شروع ہوا تو اسے تگ و تاز کے لیے نیا میدان مل گیا۔ کہا جاتا ہے‘ بائیس ماہ اس کی وجہ سے کام رکا رہا۔ اپریل 2017ء میں سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہوئی۔ قومی اہمیت کے کئی اور کیس بھی زیرسماعت تھے‘ چنانچہ اورنج لائن کا فیصلہ لکھنے میں آٹھ ماہ لگ گئے۔
ہم وہاڑی کے لیے محو پرواز تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پر ایک ''الزام‘‘ یہ ہے کہ پنجاب کے بجٹ کا غالب حصہ لاہور پر لگا دیااور دیگر علاقے تعمیروترقی سے محروم رہے اور یہ بھی کہ سارا زور سڑکوں‘ پلوں‘ فلائی اوورز اور انڈرپاسز پر رہا۔ ہیومین ڈویلپمنٹ کے منصوبے (تعلیم اور صحت عامہ) توجہ سے محروم رہے۔ اس حوالے سے سرکاری تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت کا ذکر ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریضوں اور ہسپتال سے باہر سڑک پر بچے کی ولادت کی خبریں بھی عام ہوئیں اور سچ بات یہ ہے کہ ہم جیسے ''باخبر‘‘ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا کچھ زیادہ ہی شدت اور تواتر سے رویا جاتا ہے۔ عشروں سے لاہور میں آباد اور یہاں کی شہری سہولتوں سے فیض یاب ہونے والے ہمارے جنوبی پنجاب کے بھائی بھی اس میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آج لاہور میں جدّی پشتی لاہوریوں کی تعداد چالیس فیصد سے بھی کم ہے (ہم بھی ان 60 فیصد میں شامل ہیں جو تعلیم یا روزگار کیلئے لاہور آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ لاہور کے ڈومیسائل کے حامل ہمارے بچے بھی خیر سے فارغ التحصیل ہو چکے۔)
پانچ‘ چھ سال پرانی بات یاد آئی۔ لاہور میں میٹرو بس ''زیرتعمیر‘‘ تھی۔ کونسل آف نیشنل افیئرز کی ایک نشست میں ہم انیس‘ بیس دوست تھے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئے... سب کچھ لاہور پر لگ رہا ہے۔ سڑکیں یہاں بن رہی ہیں‘ میٹرو یہاں بن رہی ہے... ہم نے گنتی کی تو یہاں صرف تین چار لاہوریئے تھے‘ باقی پندرہ سولہ کا تعلق (حسن اتفاق سے) جنوبی پنجاب سے تھا۔ عرض کیا‘ یہ جو تعمیروترقی کے منصوبے بن رہے ہیں کیا صرف جدّی پشتی لاہوریوں کے لیے ہیں؟ یہ سڑکیں‘ یہ فلائی اوور اور یہ انڈرپاسز کیا ہم باہر والوں کے لیے ''نوگوایریا‘‘ ہوں گے۔ کہتے ہیں‘ امریکہ میں ایک وقت تھا کہ بعض کلبوں میں سیاہ فاموں کا داخلہ ممنوع تھا۔
‘‘Blacks are not allowed''
ہم نے عرض کیا‘ میٹرو لاہور میں چلے گی تو کیا اس میں بھی‘ ہم ''باہر سے آنے والوں‘‘ کا داخلہ ممنوع ہوگا؟۔اس میں شک نہیں کہ ملک کے (اور پنجاب کے) بعض علاقے تعمیروترقی کے حوالے سے پیچھے رہ گئے لیکن معاف کیجئے‘ اس کا بنیادی سبب وہاں کے وڈیرے‘ بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں جو سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں سڑک جائے گی‘ ان کی ظالمانہ گرفت ٹوٹتی جائے گی۔
مسلم لیگ (ن) سے یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے کہ موٹرویز‘ ایئرپورٹس اور انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبے اس کا ''برانڈ‘‘ بن گئے۔ کھیت سے منڈی تک سڑک نے عام کاشت کاروں کی زندگیاں بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
ہم وہاڑی کا ذکر کر رہے تھے‘ جہاں خادمِ پنجاب صحت عامہ کے بڑے منصوبوں کا افتتاح کرنے جا رہے تھے۔ ان میں ساڑھے باسٹھ کروڑ روپے سے 300 بستروں کا نوتعمیرشدہ ہسپتال تھا‘ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ہیپاٹائٹس پریونشن اینڈ ٹریٹمنٹ کلینک‘ سی ٹی سکین کا جدید ترین اہتمام‘ پتھالوجی لیب‘ ہسپتال کے فضلے کو تلف کرنے کے لیے جدید ترین پلانٹ‘ 24 گھنٹے سہولتوں کے ساتھ ایمرجنسی‘ ڈائیلیسز یونٹ‘ لیب/ گائناکالوجی اور مردانہ و زنانہ ایل ایم سی... اور محض عالیشان بلڈنگ اور جدید ترین مشینیں ہی نہیں‘ احساسِ ذمہ داری سے سرشار ڈاکٹر اور دوسرا پیرامیڈیکل سٹاف بھی۔
یورپ اور امریکہ کے ہسپتالوں سے مقابلہ تو شاید مبالغہ قرار پائے‘ لیکن لاہور کے جدید اور مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں سے موازنہ ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن یہاں یہ ساری سہولتیں مفت ہیں۔
علاقے کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی موجود تھے اور اپنی حکومت کی کارکردگی پر فرحاں و شاداں... ان میں بیگم تہمینہ دولتانہ بھی تھیں۔ اب بڑھاپا غالب آ رہا ہے۔لیکن ڈھلتی عمر جذبوں پر غالب نہیں آسکی۔ کبھی مسلم لیگ (ن) کے شیرنی کہلاتی تھیں۔ بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں قائد حزب اختلاف کے والد محترم میاں محمد شریف مرحوم کی گرفتاری سے بھی گریز نہ کیا گیا۔ لاہور میں ان کے دفتر سے توہین آمیز انداز میں گرفتاری کے بعد انہیں اسلام آباد کے ایک سیف ہائوس میں منتقل کردیا گیا تھا۔ اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر لغاری کے خطاب میں اپوزیشن سراپا احتجاج تھی۔ احسن اقبال (اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازے) ایک بینر لیے ایوان میں چکر لگا رہے تھے‘ ''سپریم کمانڈر‘ سپریم جیالا‘‘۔ وہ اس بینر کے ساتھ دیر تک فوجی سربراہوں کے بکس کے سامنے کھڑے رہے۔ تہمینہ دولتانہ ڈائس کی طرف بڑھیں اور صدر پر اپنی چادر اُچھال دی۔
12 اکتوبر 1999ء کے بعد جب بڑے بڑے سورما گھروں میں دبک کر بیٹھ رہے تھے‘ بیگم کلثوم نواز کی سرفروشانہ جدوجہد میں جو جانباز ان کے شانہ بشانہ اور قدم بقدم تھے‘ ان میں تہمینہ بھی تھیں۔ بیگم صاحبہ کے ساتھ اس گاڑی میں بھی ‘ جو تمام رکاوٹوں کو توڑتی ہوئی فیروز پور روڈ پر نکل آئی تھی۔لاہور کے گورنر ہائوس سے لے کر پنڈی / اسلام آباد کے ایوانوں تک گھنٹیاں بج گئی تھیں۔ گاڑی روک لی گئی‘ ٹائر پنکچر کرکے اسے لفٹر کے ذریعے جی او آر پہنچا دیا گیا۔ دس‘ بارہ گھنٹے تک بیگم صاحبہ‘ جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ گاڑی کے اندر ہی رہے اور 2002ء والی پارلیمنٹ سے ڈکٹیٹر مشرف کے خطاب سے ایک آدھ دن قبل کہیں اس نے کہیں کہہ دیا تھا کہ وہ ڈکٹیٹر کو جوتا دے مارے گی۔ چنانچہ لاہور سے‘ وہ جس پرواز میں روانہ ہوئی‘ اسے ''فنی خرابی‘‘ نے آ لیا اور یہ اسلام آباد اترنے کی بجائے پشاور جا پہنچی۔ یوں ڈکٹیٹر تہمینہ سے محفوظ رہا‘ اپوزیشن کا احتجاج تہمینہ کے بغیر بھی اتنا زور دار تھا کہ ''کسی سے نہ ڈرنے ورنے‘‘ والے ڈکٹیٹر کے پسینے چھوٹ گئے اور وہ مکے لہراتا ایوان سے رخصت ہوگیا۔
ہم وہاڑی میں صحتِ عامہ کے ان منصوبوں پر تہمینہ سے خوشگوار حیرت کا اظہار کر رہے تھے اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا‘ یہ جنوبی پنجاب ہے جہاں کی ''محرومیوں‘‘ کا رونا رو کر بعض موقع پرست اپنی سیاست کی بند ہوتی ہوئی دکان‘ چلانا چاہتے ہیں۔