اب ایک اور نقل مکانی ہے‘ واپڈا ٹائون سے لیک سٹی۔ بیس سال علامہ اقبال ٹائون میں رہے۔ بھٹو دور میں 1600 ایکڑ پر مشتمل بستی کا منصوبہ بنا تو وزیر اعلیٰ حنیف رامے نے ستلج بلاک اور جہاں زیب بلاک کا بیشتر حصہ صحافیوں‘ شاعروں اور ادیبوں کے لیے مختص کر دیا۔ مختلف اخبارات (اور نظریات) سے وابستگی کے باوجود سب ایک برادری تھے‘ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک۔ خواتین میں بھی گاڑھی چھنتی۔ پارک میں بچے بھی اکٹھے کھیلتے۔ نمازِ عید کے بعد اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنے سے پہلے‘ ہم سب محبوب سبحانی صاحب کے ہاں پہنچتے‘ جہاں انہوں نے شیر خُرما کا خصوصی اہتمام کیا ہوتا۔ اُس دور کی کتنی ہی یادیں ہیں‘ جو لوٹ کر آتی ہیں تو چراغاں سا ہو جاتا ہے‘ پھول سے کھل اٹھتے ہیں۔ اور پھر ایک ایک کر کے بلاوا آتا گیا۔ سید انور قدوائی‘ سید سلطان عارف‘ نصراللہ غلزئی‘ ظہور بٹ اور انور سدید سمیت رفتگاں کی طویل فہرست ہے۔ منیر نیازی مرحوم یاد آئے ؎
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
ایک ایسا شہر ضرور ہے‘ انہی دوستوں سے بھرا ہوا
اور ایسے بھی ہیں‘ جو لاہور ہی کی دوسری بستیوں میں جا بسے۔ عطاء الحق قاسمی نے ای ایم ای کا رخ کیا‘ فیض الرحمن نے ٹھوکر نیاز بیگ کے پہلو میں جیوڈیشل کالونی میں ٹھکانہ کیا۔ سعید آسی سبزہ زار چلے گئے اور ہم نے واپڈا ٹائون میں آشیانہ بنا لیا۔ تب ہم جدہ میں ہوتے تھے۔ یہ آشیاں ہماری شریکِ حیات مرحومہ نے بنایا تھا‘ (شامی صاحب کی رہنمائی اور معاونت بھی حاصل رہی) واپڈا ٹائون میں دس سال گزارنے کے بعد اب ہم لیک سٹی میں ہیں۔ جہاں اجمل شاہ دین ہیں‘ سجاد میر کا خوبصورت گھر مکینوں کا منتظر ہے لیکن میر صاحب اور ہماری شفقت بھابی کا دل نہر کنارے کینال ویو چھوڑنے کو نہیں مانتا۔
نقل مکانی میں ہم جیسوں کے لیے ایک مسئلہ کتابوں‘ اہم کاغذات اور ضروری فائلوں کو سمیٹنے اور پھر نئی جگہ جا کر ترتیب دینے کا بھی ہوتا ہے لیکن ایک فائدہ بھی ہوتا ہے کہ غیر اہم ہو جانے والی چیزوں کی چھانٹی ہو جاتی ہے۔ بعض کام کی چیزوں پر دوبارہ نظر پڑ جاتی ہے‘ ایسی بھی جنہیں ہم بھول بھال چکے ہوتے ہیں۔ انہی میں مرحوم جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سے ہمارا انٹرویو بھی تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ تب ہم جدہ میں ہوتے تھے۔ 9 مارچ 2007ء کو ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے ساتھ ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج بھگوان داس اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ہندوستان گئے ہوئے تھے‘ ان کی جگہ جسٹس جاوید اقبال (موجودہ چیئرمین نیب) قائم مقام چیف جسٹس بنے۔ اسی شام ان کی حلف برداری ہوئی اور معطل چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس پر کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ اپنی ہفتہ وار تعطیل کے باعث اس روز ہم مکہ مکرمہ چلے آئے تھے۔ دفتر سے کال آئی‘ ''چیف جسٹس والی خبر تو آپ نے سن لی ہو گی۔ ہم نے جسٹس جاوید اقبال صاحب کی تصاویر نکال لی ہیں۔ آپ لاہور کال کرکے ان سے دو تین منٹ گفتگو کر لیں‘ ہماری ایکسکلوسو ہو جائے گی‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ وہ والے جاوید اقبال نہیں۔ ''اوہ! تو یہ ''فرزندِ اقبال‘‘ نہیں۔ کوئی دوسرے جاوید اقبال ہیں؟‘‘ ہمارے رفیق کار نے مایوسی میں کال ختم کر دی۔
ڈاکٹر صاحب نوائے وقت اور جناب مجید نظامی سے خاص تعلقِ خاطر رکھتے تھے۔ اسی باعث ہم پر بھی شفقت فرماتے۔ فرصت ہوتی تو اپنے ہاں شام کو ملاقات کا وقت دے دیتے۔ یہ بات عام تھی (شاید حاسدوں کا پروپیگنڈا ہو) کہ ڈاکٹر صاحب مہمانوں کو چائے وائے کم ہی پوچھتے ہیں۔ لیکن سچ بات یہ ہے کہ ہم تو جب بھی گئے‘ ڈاکٹر صاحب نے چائے بھی منگوائی اور ایک آدھ بار بسکٹ بھی۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ''فرزندِ اقبال‘‘ کی تکرار پر چڑ بھی جاتے۔ اس حوالے سے نظامی صاحب کے ساتھ ان کی دلچسپ نوک جھونک بھی ہو جاتی۔ ایک تقریب میں نظامی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں فرمایا‘ ''انہیں علامہ اقبالؒ کے گھر پیدا ہونے پر بڑا غصہ ہے۔ نیز یہ علامہ سے آگے نکل جانے کی خاطر ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں۔‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب کا مؤقف تھا ''مجھے علامہ اقبالؒ کے گھر پیدا ہونے پر غصہ نہیں‘ البتہ علامہ کے ان پرستاروں پر غصہ ضرور آتا ہے جو مجھے صرف ''فرزندِ اقبال‘‘ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور اس ''فریم‘‘ سے میرا باہر نکلنا انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ باقی رہی بات علامہ سے آگے نکل جانے کی‘ تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کسی صاحبِ فکر سے آگے بڑھ جانے سے مراد اس کی تحقیر نہیں بلکہ اس کی توقیر برقرار رکھتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے رستے سے نئی راہیں تلاش کرنا دراصل فکری تسلسل کو آگے بڑھانا ہے۔‘‘
ڈاکٹر جاوید اقبال لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پھر تین سال (1986 تا 1989) سپریم کورٹ کے جج رہے۔ بعد میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن بھی بنے۔ ڈاکٹر صاحب کے جس انٹرویو کا کچھ حصہ ہم قارئین سے شیئر کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ہم نے 1997ء میں عدلیہ کے بحران کے دنوں میں کیا تھا۔ تب صدر فاروق لغاری کی پشت پناہی کے ساتھ‘ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ‘ وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھیجنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے 17 میں سے 12 ججوں نے بغاوت کر دی۔ ان میں جسٹس سعیدالزماں صدیقی سمیت وہ بااصول جج بھی تھے جنہوں نے مشرف کے پی سی او (2000ئ) کے تحت حلف اٹھانے کی بجائے گھر جانے کو ترجیح دی تھی۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فلور کراسنگ پر پابندی والی چودھویں آئینی ترمیم معطل کر دی تھی‘ مقصد وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ان کی پارلیمانی پارٹی میں بغاوت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ ترمیم قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کی حمایت کے ساتھ‘ پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے منظور کی تھی۔ چیف جسٹس کے فیصلے پر وزیر اعظم کا تبصرہ تھا کہ اس سے لوٹاازم کو فروغ ملے گا۔ اس پر وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا کیس بھی بن گیا۔ جناب جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال سے ہمارا ایک سوال پاکستان میں توہین عدالت کے قانون کے حوالے سے تھا۔ ان کا کہنا تھا‘ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب تک توہین عدالت کے وہی قوانین نافذ ہیں جو انگریز نے ہمارے دورِ غلامی میں نافذ کئے تھے۔ مقصد سرکار کی عدالت اور اس کے فیصلوں کا رعب ذہنوں پر مسلط کرنا تھا کہ اس کے متعلق ایک لفظ بھی نہ کہا جا سکے۔ یہ قوانین آج بھی اسی روح کے ساتھ مسلط ہیں اور حالت یہ ہے کہ اگر کوئی اخبار نویس (مثلاً الطاف گوہر) کسی فیصلے میں غلط انگریزی کی نشاندہی کر دے تو اس پر بھی توہین عدالت کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ سائوتھ افریقہ‘ برطانیہ‘ ہر جگہ توہین عدالت کے قوانین بدل چکے ہیں۔ جج کی ذات یا نیت پر حملہ اور بات ہے اور اس کے کسی فیصلے پر تبصرہ اور کمنٹ الگ بات... تبصرہ‘ تبصرہ ہی ہو گا‘ اس سے توہین کا پہلو نہیں نکالا جا سکتا... ''توہینِ عدالت‘‘ ایسا خصوصی عدالتی اختیار ہے‘ جسے جج بہت کم استعمال کرتے ہیں کیونکہ جب کوئی جج نوٹس جاری کرتا ہے تو وہ اپنی پوزیشن بھی کمپرومائز کر لیتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جج وہ کیس خود نہ سنے جس میں کسی بھی طورخود Involve ہو۔ میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو اپنی توہین کا کیس خود سننے کی بجائے اسے جسٹس افضل لون کو مارک کر دیا تھا۔
جوڈیشل ایکٹوازم پر تبصرہ؟ یہ عالمی سطح پر ایک نئی تحریک ہے۔ اجتماعی حقوق تلفی کے حوالے سے اس کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں جنہیں پھلانگنا سخت نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آرٹیکل 199 ہائی کورٹ کی رٹ جیورس ڈکشن کے حوالے سے ہے جبکہ 184 کے تحت بنیادی انسانی حقوق سے متعلق معاملات کو براہ راست سپریم کورٹ میں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ پہلے ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ 184 کے بے محابا استعمال سے ہائی کورٹس عملاً غیر متعلق ہو کر رہ جائیں‘ جیوڈیشل ایکٹوازم بجا لیکن یہ اس حد تک نہ جائے کہ بدنیتی ظاہر ہونے لگے یا انتظامیہ اور مقننہ کی ایکٹوازم متاثر ہو۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حدود میں ایکٹو رہنا چاہئے‘ ورنہ تجاوز کا نتیجہ تو فساد کی صورت ہی میں نکلے گا۔